مدیحہ گوہر بھی چلی گئیں
گزشتہ روزعظیم اداکارہ،تھیٹر ڈائریکٹر،سوشل ایکٹیویسٹ اور حقوق نسواں کی طاقتورترین آواز مدیحہ گوہر المعروف میڈ گوہر باسٹھ سال کی عمر میں کینسر سے تین سالہ جنگ ہار گئی اور موت کی وادی کا حصہ بن گئیں ۔۔۔مدیحہ گوہر کی والدہ کا نام خدیجہ گوہر تھا جو اپنے زمانے کی مشہور ناول نگار تھی ۔۔ان کی والدہ خدیجہ گوہر کے ناول "The Coming Season's Yield" کا اردو ترجمہ 'امیدوں کی فصل' کے نام سے ہو چکا ہے۔مدیحہ گوہر کی ایک بہن ہیں جن کا نام فریال گوہر ہے ،فریال نے بھی تھیٹر اور ٹی وی پر معیاری اداکاری سے اپنے فن کا لوہا منوایا ہوا ہے ۔۔۔فریال گوہر اس وقت اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر ہیں اور پاکستان میں آگہی اور شعور کو پھیلانے کے لئے کمپینز چلائی رکھتی ہیں ۔۔مدیحہ گوہر نے 1976 میں کنئرڈ کالج سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی تھی ،اسی زمانے سے ہی یعنی کالج کے زمانے سے ہی انہوں نےتھیٹر کرنا شروع کردیا تھا ۔۔
گورنمنٹ کالج جو اب یونیورسٹی کا روپ اختیار کر چکا ہے یہاں سے مدیحہ گوہر نے انگریزی لٹریچر میں ماسٹر کیا ،اس کے بعد لندن یونیورسٹی سے تھیٹر آرٹس کی ڈگری حاصل کی ۔۔۔ستر کی دہائی میں معروف تھیٹر رائیٹر سرمد صہبائی نے تھیٹر ڈرامہ تحریر کیا تھا جس کا نام تھا بھانڈے ،یہ تھیٹر ڈرامہ بہت مقبول ہوا تھا ۔۔۔مدیحہ گوہر نے اس تھیٹر ڈرامے میں جاندار اداکاری کا مظاہرہ کرکے ثابت کیا تھا کہ وہ کتنی بڑی فنکارہ ہیں ۔۔اس کے علاوہ مدیحہ گوہر نے معروف پروڈیوسر اور ڈائریکٹر محمد نثار حسین کے سیریل دستک نہ دو میں کام کیا تھا ،یہ سیریل پی ٹی وی پر دیکھایا گیا تھا جو بہت مقبول ہوا تھا ۔۔۔ستر کا دور ختم ہوا تو جنرل ضیا کی آمریت کا آغاز ہو گیا ،اب آزادی اور سوچ پر پابندیاں لگنے لگیں ،مدیحہ گوہر اب پی ٹی وی ڈراموں میں کام نہیں کرسکتی تھی ،اسی زمانے میں اسلم اظہر اور منصور سعید نے کراچی میں نظریاتی قسم کے تھیٹر دستک کی بنیاد رکھی ۔۔۔منصور سعید آج کی معروف اداکارہ ثانیہ سعید کے والد تھے ۔۔دستک تھیٹر پر اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ پر مبنی ڈرامے پیش کئے گئے جس میں جنرل ضیا کی پالیسیوں پر تخلیقی انداز میں تنقید کی گئی ۔۔۔اس کے بعد مدیحہ گوہر اور ان کے شوہر شاہد محمود ندیم نے مغربی روایات اور مقامی کلچر کو ملاکر ایک نیا تھیٹر گروپ بنایا جس کا نام اجوکا تھیٹر ہے ۔۔۔جہاں مغربی کلچر کے ساتھ ساتھ دیسی نوٹنکی کو بھی خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ۔۔۔مدیحہ ایک ملنگ اور درویش قسم کی خاتون تھی ،جس نے عاصمہ جہانگیر کی طرح اندھیری رات میں دیئے روشن کئے ۔۔۔ان میں سے ایک دیئے کانام اجوکا تھیٹر ہے جو اب بھی پاکستان سمیت دنیا بھر میں روشنی پھیلا رہا ہے ۔۔۔اجوکا تھیٹر پر سماجی مسائل پر کمنٹ کئے جاتے ہیں خواتین اور اقلیتوں کے حقوق اور ان کے مسائل کو کھل کر بیان کیا جاتا ہے ۔۔۔مدیحہ گوہر زندگی کے آخری لمحات تک بنیاد پرستی کے خلاف تھیٹر کے ہتھیار سے جنگ کرتی رہی ۔۔مذہب کا استعمال کرکے جس طرح نفرت اور تشدد کو بڑھاوا دیا جاتا ہے ،ان تمام موضوعات پر مدیحہ نے اجوکا کے زریعے مسائل اجاگر کئے اور لاکھوں حساس انسانوں کے شعور اور آگہی میں اضافہ کیا ۔۔کراچی میں اجوکا تھیٹر پر ایک ڈرامپ چل رہا تھا ،ایک شخص اجوکا کے شو کو دیکھنے کے لئے بیقرار تھا ،وہ آگے والی کرسی پر براجمان ہوناچاہتا تھا ،اس نے مدیحہ کو کہا کہ اس کے لئے آگے کی لائن میں کرسی کا انتظام کیا جائے کیونکہ وہ کراچی کے ڈپٹی کمشنر ہیں ،جس پر مدیحہ نے کہا جاکر پیچھے کھڑے ہو جاو،اس سے اندازہ کر لیں کہ وہ کیسی خاتون تھی ،اس لئے ان کے دوست احباب انہیں میڈ mad مدیحہ پکارتے تھے ،ایک زمانے میں جب ان کے تھیٹر پر پابندی لگ گئی تو انہوں نے اپنے گھر کے لان کو تھیٹر میں بدل دیا ۔۔۔کہتی تھی کہ ان کے تھیٹر کو کوئی دیکھنے آئے یا نہ آئے پھر بھی وہ تھیٹر کریں گی ،کسی کا باپ انہیں اس حق سے محروم نہیں کرسکتا ۔۔۔اجوکا تھیٹر کے پلیٹ فارم سے انہوں نے تین درجن سے زائد ڈرامے لکھے اور بیشتر میں خود بھی اداکاری کی۔ ان کے بیشتر ڈرامے معاشرے میں شعور اجاگر کرنے اور اصلاح کا پہلو لیے ہوتے تھے۔انہوں نے پاکستان کے علاوہ ہمسایہ ملک بھارت، بنگلہ دیش، مصر، ایران، امریکہ اور برطانیہ میں بھی اپنے تھیٹرز پیش کیے۔مدیحہ گوہر کا لکھا اور پیش کردہ تھیٹر 'برقع وگینزا' نے خاصی شہرت حاصل کی تھی جس میں انہوں نے لوگوں کے دہرے معیار اور دہرے چہروں کو اپنا مرکزی خیال بنایا۔مدیحہ گوہر کے معاشرتی برائیوں اور انتہا پسندی پر بننے والے ڈرامے 'انی مائی دا سپنا' اور 'لو پھر بسنت آئی' بھی خاصے مشہور ہوئے۔ انہوں نے خواتین کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور معاشرتی برائیوں کے خلاف بھی آواز اٹھائی۔مدیحہ گوہر کچھ عرصہ درس و تدریس کے ساتھ بھی منسلک رہیں تاہم سابق فوجی صدر ضیاالحق کے دور میں انہیں سرکاری نوکری سے برخاست کر دیا گیا تھا اور پاکستان ٹیلی ویژن پر ان کے ڈراموں پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ان کے ڈراموں میں برابری، انصاف، برداشت، اور انسان دوستی کے موضوعات ملتے ہیں اور صنفی مساوات پر بالخصوص زور دیا جاتا ہے۔ طنزیہ کھیل بُرقعہ ویگینزا جو 2007 میں پیش کیا گیا تھا، رجعت پسند حلقوں نے اس کی شدید مخالفت کی اور کچھ اراکینِ پارلیمان نے اس وقت کے وزیرِ ثقافت کو سخت نتائج بھگتنے کی دھمکی بھی دی جس کے بعد اس کھیل پر پابندی لگ گئی، لیکن روشن خیال طبقہ اور حقوقِ نسواں کی تنظیمیں اس کھیل کی سر پرستی کرتی رہیں اور اسے انگریزی میں ترجمہ کر کے دنیا بھر میں اس کی نمائش کی گئی۔مدیحہ گوہر دُھن کی پکی تھیں اور نظم و ضبط کے معاملے میں سخت گیر رویہ رکھتی تھیں۔ سٹیج کی دنیا میں ان کی ہمہ صفت شخصیت کو عرصہِ دراز تک نہ بھلایا جا سکے گا۔میڈ مدیحہ گوہر کو سپرد خاک کیا جائے گا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔