سکول میں سب سے پہلے مادے کی تین حالتوں کا بتایا جاتا ہے۔ ٹھوس، مائع اور گیس۔ اس کے بعد چوتھی حالت کا اضافہ ہوتا ہے، پلازمہ۔ پلازمہ مادے کی اس کائنات کی سب سے عام حالت ہے کیونکہ ستاروں میں مادہ اسی حالت میں پایا جاتا ہے۔ بہت زیادہ درجہ حرارت ان کے الیکٹرانز کو نیوکلئیس سے چھیل دیتا ہے اور یہ خود الگ پھرتے رہتے ہیں۔ کالج میں طلباء سپرکنڈکٹر اور مائع ہیلئم کی حالتوں کا پڑھتے ہیں۔ گریجویٹ پروگرام کے پروفیسر بعض دفعہ پھر کوارک گلوون پلازمہ یا ڈی جنریٹ میٹر کا بتاتے ہیں۔ کوئی طالب علم کبھی یہ سوال کرتا ہے کہ جیلی کس حالت میں ہے یا اسے الگ حالت میں شمار نہیں ہونا چاہیے (اس کا جواب یہ ہے کہ جیلی جیسے colloids دو حالتوں کا مجموعہ ہیں۔ پانی اور جیلاٹن کے مکسچر کو پھر ہم لچکدار ٹھوس بھی کہہ سکتے ہیں اور گاڑھا مائع بھی)۔
بات یہ ہے کہ کائنات میں مادے کی حالتیں بہت سی ہو سکتی ہیں۔ کوئی حالت پارٹیکلز کی مائیکرو ارینجمنٹ ہے، جس کو ہم عام فہم زبان میں بتانے کے لئے ٹھوس، مائع اور گیس جیسے نام دے دیتے ہیں۔ اور یہ ساری حالتیں جیلی کی طرح hybrid نہیں۔ کئی بار یہ بڑی مختلف بھی ہوتی ہیں۔ البرٹ آئن سٹائن نے 1924 میں کوانٹم مکینکس کی مساوات سے کھیلتے ہوئے ایک ایسی حالت دریافت کی۔ پھر اپنی کیلکولیشنز پر یقین نہیں کیا اور اسے خود نظر انداز کر دیا کہ مادہ آخر ایسی حالت میں کیسے رہ سکتا ہے۔ یہ حالت ناممکن ہی رہی، 1995 تک۔ جب کسی نے اس کو لیباریٹری میں بنا لیا۔
ٹھوس مادے کی ایک بنیادی حالت ہے۔ ٹھوس حالت میں مادہ ایک دہرائی جانے والی 3-D Array میں لگا ہوتا ہے اور تقریبا ہر ٹھوس شے ہی اس کے کئی طرح کے کرسٹل بنا سکتی ہے۔ اس کی ایک مثال وہ عام مادہ ہے جس کو ہم روزانہ دیکھتے ہیں۔ اس مادے میں دو ہائیڈروجن اور ایک آکسیجن سے مل کر بننے والے ایٹم پائے جاتے ہیں اور جب یہ مائع حالت میں ہو تو ہم اس کو پانی کہتے ہیں۔
جب اس کو ٹھوس بنایا جائے تو اس کی ایک وہ حالت ہے جو ہم زمین پر عام دیکھتے ہیں اور یہ برف کہلاتی ہے لیکن برف خود بہت سی حالتوں میں پائی جاتی ہے۔ ان میں سے پندرہ حالتیں لیبارٹری میں ہائی پریشر چیمبرز میں بنائی جا چکی ہیں۔ برف کی یہ حالتیں زمین پر تو نہیں لیکن کائنات میں بہت عام ہیں۔ شہابیوں، دمدار ستاروں، چاندوں اور سیاروں پر برف کی یہ حالتیں پائی جاتی ہیں۔ کچھ طرح کی برف پانی میں تیرتی نہیں بلکہ ڈوب جاتی ہے۔ کچھ ایسی حالتیں ہیں جو چھ سائیڈ والے سنو فلیک نہیں بناتی بلکہ کھجور کے درخت یا گوبھی کے پھول جیسی شکل بناتی ہے۔ ان ایلین برف میں سے ایک دلچسپ حالت آئس ایکس ہے۔ یہ برف کی وہ حالت ہے جو دو ہزار ڈگری سینٹی گریڈ تک ٹھوس ہی رہتی ہے۔
کم درجہ حرارت پر کرسٹل کی شکل آسانی سے بن جاتی ہے اور یہ درجہ حرارت کم کیا جائے تو یہ ٹھوس کئی بار ایسی حالتیں بنا لیتے ہیں اور حرکتیں کر جاتے ہیں جو پہنچانی نہیں جاتیں۔ یہاں تک کہ تنہا پسند نوبل گیسیں جو کسی سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتیں، اپنی عادت بدل لیتی ہیں اور دوسرے عناصر سے ہاتھ ملا لیتی ہیں۔ کینڈا سے تعلق رکھنے والے کیمسٹ نیل بارٹلٹ نے سب سے پہلی بار ایک نوبل گیس کا ملاپ کسی اور شے سے کروایا۔ یہ ٹھوس نارنجی رنگ کا کرسٹل زینون کیساتھ مل کر بنا تھا۔ اور اس کو platinum hexaflouride کے ساتھ ملایا گیا تھا جو ایک سپرایسڈ ہے۔ زینون بڑا ایٹم ہے۔ یہ کرنا اس کے لئے آسان تھا کیونکہ اس کا آخری الیکٹران کا شیل نیوکلئیس سے دور تھا۔ چھوٹے ایٹمز کے ساتھ یہ کرنا مشکل ہے۔کرپٹون نے اس کے مقابلے میں دیر تک مقابلہ کیا اور منفی ایک سو پچاس ڈگری پر جا کر سپر ری ایکٹو فلورین سے ملاپ کیا۔
فن لینڈ کے سائنسدانوں نے 37 سال کی کوشش کے بعد 2000 میں آرگون کی تنہائی بھی توڑ ڈالی۔ یہ ایک انتہائی نفاست سے کیا گیا تجربہ تھا۔ ٹھوس آرگون، ہائیڈروجن، فلورین کی گیس، سیزیم آئیوڈائیڈ جیسا سٹارٹر اور ساتھ وقتا فوقتا ٹھیک وقت پر الٹراوائلٹ شعاعوں کے برسٹ۔ اسے -268 ڈگری سینٹی گریڈ پر “پکایا” گیا۔ اور آرگون فلورو ہائیڈرائیڈ کا کرسٹل تیار ہو گیا۔ یہ کرسٹل اس درجہ حرارت پر مستحکم رہا۔ تھوڑی سی گرمی اور واپس آرگون اپنی تنہا حالت میں۔
سائنسدان پراعتماد ہیں کہ کائنات کی ٹھنڈی ترین جگہوں پر بھی اس سے چھوٹی نوبل گیسز نیون اور ہیلئیم نے تھوڑی مقدار میں بھی کبھی کسی دوسرے عنصر سے ملاپ نہیں کیا۔ فن لینڈ کے سائنسدانوں کا یہ پیپر A Stable Argon Compond کا صرف عنوان ہی ان کی محنت کا ثبوت تھا۔ آرگون وہ عنصر ہے جس کو کسی بھی دوسرے عنصر کے ساتھ ملانے پر سب سے زیادہ محنت ہوئی ہے۔ کم درجہ حرارت پر ہونے والے حیران کن مظاہر کی یہ ایک مثال ہے۔