21فروری:مادری زبان کے عالمی دن کے موقع پر خصوصی تحریر
زبان وہ ذریعہ ہے جس سے ایک انسان اپنے احساسات،خیالات اور اپنے جذبات دوسرے انسان تک منتقل کرتاہے۔زبان انسان کے اندر کی نمائندگی کرتی ہے،یہ مافی الضمیر کے اظہار کاایک وقیع ذریعہ ہے۔زبان کے ذریعے انسان اپنی حاجات اور اپنی ضروریات کا بھی اظہار کرتا ہے۔انسانی معاشروں میں بولی جانی زبانیں انسانی باہمی ربط و تعلق کی ایک اہم بنیاد ہوتی ہیں۔زبان کے ذریعے جہاں ایک انسان اپنی کیفیات کااظہار کرتاہے وہاں دوسراانسان بھی زبان کے ذریعے سے ہی پہلے کے ما فی الضمیر کادراک کرتاہے۔کسی انسان کے پاس یہ طاقت نہیں کہ وہ دوسرے انسان کے اندر جھانک کر اسکاانداہ لگاسکے پس یہ زبان ہی ہے جس کے الفاظ انسانوں کو دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلق قائم کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوتے ہیں۔انسان کی پہلی زبان ”رونا“ہے۔ماں کے پیٹ سے جنم لے کر وہ سب سے پہلے روتا ہے اور اپنی ضروریات کا رو رو کر اظہار کرتاہے۔اسی رونے میں اسکی بھوک پوشیدہ ہوتی ہے،اسی رونے میں اسکی پیاس ہویداہوتی ہے،اسی رونے سے وہ اپنی تکلیف اور درد کااحساس دلاتاہے اور اسی رونے سے ہی وہ سوکرجاگنے کااعلان کرتاہے۔اللہ تعالی کی شان ہے کہ اس بچے کی سب سے ابتدائی زبان اسکی ماں ہی سمجھ پاتی ہے حالانکہ رونے کے کوئی الفاظ نہیں ہوتے،رونے کی کوئی تراکیب نہیں ہوتیں اور رونے کے کوئی اصول و قوائدبھی نہیں ہوتے لیکن پھر بھی یہ ایسی زبان ہے جسے بچے کی ماں آسانی سے سمجھ جاتی ہے۔بہت تجربہ کار ڈاکٹر اور طبیب بھی بچے کی جس کیفیت کو نہ سمجھ سکے ماں اسکا بخوبی ادراک کرلیتی ہے،حالانکہ ”ماں“ نے ”ماں“بننے کاکوئی کورس نہیں کیاہوتابس ماں کے سینے میں ایک دل ہوتا ہے جو بچے کے رونے کی زبان کو ماں کے جذبات میں ترجمہ کر کے اس تکلیف کی وضاحت کردیتاہے۔بچے کی سب سے پہلی تربیت گاہ اسکا سب سے پہلا تعلیمی ادارہ ماں کی گود ہوتی ہے۔ ماں کی گود میں سیکھاہواسبق وہ بڑھاپے کی دہلیزپر بھی بھلانا چاہے تو ممکن نہیں ہے۔ماں کی گود کے اثرات بچے کے ذہن پر ایسے نقش ہو کر پختہ ہوجاتے ہیں جیسے پتھر پر کوئی تحریر کندان کر کے توہمیشہ کے لیے امر کردی جائے۔یہ اولین تعلیمی ادارہ بچے کو جس طرف بھی موڑنا چاہے بچہ اسی طرف ہی مڑتاچلاجاتاہے۔اسی لیے ہمیشہ یاد رکھے جانے والے سبق کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ انہیں ماں نے دودھ میں پلایاہے۔جیسے امریکی بچوں کو اسامہ کاخوف مائیں اپنے دودھ میں پلاتی تھیں اور اسرائیلی ماؤں نے حماس کاخوف یہودی بچوں کو دودھ میں پلایاہے وغیرہ۔مادری زبان بھی اسی طرح کاپڑھایاہواسبق ہوتاہے۔
ماں کی گود میں بچہ جو زبان سیکھتاہے وہ ماں کی نسبت سے مادری زبان کہلاتی ہے کیونکہ ”مادر“فارسی زبان میں ”ماں“کوکہتے ہیں۔زبان سیکھنا ایک طویل مرحلے کامرہون منت ہوتاہے۔کوئی زبان،اسکے قوائد،اسکی لغت اور اسکے دیگراسرارورموزایک تھکادینے والا کام ہے لیکن اللہ تعالی کی قدرت ہے کہ بچہ ماں کی گود میں زبان کے ان سب امور پر یوں دسترس حاصل کر لیتا ہے کہ ساری عمر کے لیے وہ نہ صرف اس زبان کا ماہر بن جاتا ہے بلکہ بعض اوقات تواس زبان کے مصدر تک کی اہمیت حاصل کرلیتاہے۔خاص طور پر ایسے علاقے جہاں کی زبان خالص ہوتی ہے اور دیگرزبانوں کے ساتھ خلط ملط ہوکر وہ زبان اپناآپ گم نہیں کر بیٹھتی توایسے علاقوں میں تو مادری زبان کا واحد وقیع و مستند ذریعہ ماں کی گود اور روٹیاں پکانے والے چولھے کے گرد بچوں کاجھمگٹاہوتاہے جہاں وہ زبان اپناتاریخی ارتقائی سفر بڑی عمدگی سے طے کر رہی ہوتی ہے۔مادری زبان صرف بولنے تک ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ اسکے پس منظر میں اس علاقے کا،اس تہذیب کا،اس ثقافت کا اور انکی روایات کا عظیم اور صدیوں پر محیط ورثہ بھی موجود ہوتاہے۔زبان دراصل کسی بھی تہذیب کا سب سے بڑا اظہار ہوتی ہے۔مادری زبان میں ہی بچے کو ایک نسل اپنا ماضی منتقل کر رہی ہوتی ہے اور مادری زبان میں ہی ایک نسل اپنے ثقافتی مستقبل کی تعمیر کر رہی ہوتی ہے۔مادری زبان کے محاورے بچے کے مزاج کا پتہ دیتے ہیں،مادری زبان کی تراکیب انسان کی زبان کے علاقائی پس منظر کا اندزاہ لگانے میں ممدو معاون ثابت ہوتی ہیں اور مادری زبان کی شاعری جو ماں بچوں کو سلاتے ہوئے لوری میں سناتی ہے یا روتے ہوئے بچے کو چپ کرانے کے لیے گنگناتی ہے اور بہت ہی چھوٹی عمر میں کھیل تماشوں میں پڑھے جانے والے ٹوٹے پھوٹے اشعار کسی بھی زبان کی وہ بنیادیں ہیں جن پر اسکا شاندار محل تعمیر ہوتا ہے۔
مادری زبان کے معاملے میں کتنی احتیاط پرتی جاتی ہے اس کا اندازہ ہمیں سیرت النبی ﷺ کے واقعات سے بخوبی میسر آتاہے۔یہ ایک معاشرتی انسانی حقیقت ہے کہ دیہاتوں کی زبان،دیہاتوں کا لہجہ اور دیہاتوں میں استعمال ہونے والے کسی زبان کے محاورے اور تراکیب شہروں کی نسبت بہت عمدہ اور خالص ہواکرتے ہیں۔عرب قبائل اپنے بچوں کی زبان کی حفاظت کے لیے انہیں بہت ابتدائی عمر میں ہی دیہاتوں میں بھیج دیاکرتے
تھے۔اس طرح بچوں کی مادری زبان میں ہونے والی پرورش انکی زبان کے پس منظر میں انکی روایتی و ثقافتی اقدار کی حفاظت کی ضامن ہوجاتی تھی کیونکہ مادری زبان صرف بولنے تک تو محدود نہیں ہوتی اسکے اثرات انسانی رویوں میں واضع طور پر اثر پزیر رہتے ہیں۔شاید انہیں مقاصد کی خاطر آپ ﷺ کی پرورش بھی بنواسد کے دیہاتی ماحول میں ہوئی۔اسی طرح دنیا بھر میں ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دیے جانے کا انتظام ہوتا ہے کیونکہ بچے کے ذہن میں راسخ الفاظ اسکے اورنظام تعلیم کے درمیان ایک آسان فہم اور زوداثر تفہیم کا تعلق پیدا کر دیتے ہیں۔مادری زبان میں تعلیم سے بچے بہت جلدی نئی باتوں کو سمجھ جاتے ہیں انہیں ہضم کر لیتے ہیں اور پوچھنے پر بہت روانی سے انہیں دھراکر سنا دیتے ہیں۔مادری زبان میں دی جانے والی تعلیم بچوں کی تعلیمی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے جس کے نتیجے میں وہ خوشی خوشی تعلیمی ادارے میں بھاگتے ہوئے آتے ہیں اور چھٹی کے بعد اگلے دن کا بے چینی سے انتظارکرتے ہیں۔معلم کے لیے بھی بہت آسان ہوتا ہے کہ مادری زبان میں بچوں کو تعلیم دے اسکے لیے اسے اضافی محنت نہیں کرنی پڑتی اور مہینوں کاکام دنوں یا ہفتوں میں مکمل ہوجاتا ہے۔اوراگربچوں کو غیرزبان میں تعلیم دی جائے تووہ اسی قوم کے ذہنی غلام بن جاتے ہیں اورنفسیاتی فرارکے باعث تعلیم میں سختی،زبردستی،رٹے بازی اور ڈنڈے کااستعمال ان میں تعلیمی عدم دلچسپی ان کی عملی و پیشہ ورانہ زندگی میں جہالت کاباعث بن جاتی ہے اگرچہ بڑی بڑی تعلیمی اسنادہی ان کے ہاتھوں میں موجود ہوں۔
مادری زبان کی تعلیم سے خود زبان کی ترویج واشاعت میں مددملتی ہے،زبان کی آبیاری ہوتی ہے،نیاخون داخل ہوتا ہے اورپرانا خون جلتارہتاہے جس سے صحت بخش اثرات اس زبان پر مرتب ہوتے ہیں۔انسانی معاشرہ ہمیشہ سے ارتقاء پزیر رہا ہے چنانچہ مادری زبان اگر ذریعہ تعلیم ہو تو انسانی ارتقاء کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی مادری زبان بھی ارتقاء پزیر رہتی ہے،نئے نئے محاورے اور روزمرے متعارف ہوتے ہیں،نیا ادب تخلیق ہوتا ہے،استعمال میں آنے والی چیزوں کے نئے نئے نام اس زبان کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔جس طرح قوموں کے درمیان اور تہذیبوں اور مذاہب کے درمیان جنگ رہتی ہے اسی طرح زبانوں کے درمیان بھی ہمیشہ سے غیراعلانیہ جنگ جاری رہی ہے،جوجوزبانیں تعلیم کا ذریعہ بن کر انسانی رویوں میں شامل ہوجائیں وہ اس جنگ میں اپنا وجود باقی رکھتی ہیں بصورت دیگر تاریخ کی کتب اورآثارقدیمہ کے کھنڈرات بے شمار زبانوں کی آخری آرامگاہ کے طور پر اس کرہ ارض پر موجود ہیں۔وطن عزیز،اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بہت سی مادری زبانیں ہیں جنہیں علاقائی زبانیں بھی کہا جاسکتا ہے،لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہت کم علاقوں میں ان زبانوں کی سرپرستی کی جاتی ہے۔پاکستان کا تعلیمی نظام،عدالتی نظام اور دفتری نظام سب کا سب،دورغلامی کی باقیات،انگریزی زبان میں ہے۔بعض اوقات تو اس غیرضروری حد تک انگریزی زبان کو استعمال کیا جاتا ہے کہ اگرانگریز بھی ہوتے تو شرماجاتے۔سوال یہ ہے کہ کیا ہم ابھی آزاد نہیں ہوئے؟دنیابھر جہاں بھی کوئی تعلیم حاصل کرنے جائے تو پہلے اسی وہاں کی قومی زبان سکھائی جاتی ہے اور پھر اسی زبان میں اسے تعلیم دی جاتی ہے۔جبکہ پاکستان کا معاملہ بالکل الٹ ہے۔
چین کے انقلابی راہنماماؤزے تنگ بہت اچھی انگریزی جانتے تھے لیکن عالمی انگریزراہنماؤں سے بھی جب ملتے تو درمیان میں اپنی زبان کا مترجم بٹھاتے،وہ سب سمجھتے تھے کہ انگریزکیاکہ رہا ہے لیکن مترجم کے ترجمے کے بعد جواب دیتے۔انگریزکوئی لطیفہ سناتاتو سمجھ چکنے کے باوجود مترجم کے ترجمہ کرنے پر ہی ہنستے تھے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکیوں نے جب جاپان فتح کیاتو شاہ جاپان نے ان سے ایک ہی بات کہی کہ میری قوم سے میری زبان مت چھیننا۔نشے کی ماری ہوئی چینی قوم اور جنگ میں تباہ حال جاپانی قوم اپنی زبان کی مضبوط بنیادوں کے باعث آج دنیا میں صف اول میں شمار ہوتی ہیں جبکہ انگریز کی تیارکردہ غلامانہ مصنوعی سیکولرقیادت کے مقروض لہجوں نے آج پاکستان کوذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل رکھاہے۔قوم پوری شدت سے چاہتی ہے کہ مقابلے کے امتحانات قومی زبان میں منعقدکیے جائیں،ابتدائی تعلیم مادری و علاقائی زبان میں اور ثانوی و اعلی تعلیم قومی زبان میں دی جائے۔مادری وعلاقائی اور قومی زبانوں کے ادباء و شعراومحققین کو سرکاری سرپرستی دی جائے انکی تخلیقات کو سرکاری سطح پر شائع کیاجائے اور انکے لیے بھی سرکاری خزانے کے دروازے کھولے جائیں،دیگرعالمی زبانوں کی کتب کو تیزی سے قومی و علاقائی زبانوں میں ترجمہ کیاجائے تاکہ ہماری قوم اندھیروں سے نکل کر وقت کے ساتھ ساتھ دنیامیں اپنا آپ منوا سکے۔لیکن وطن عزیزکامقتدر سیکولرطبقہ جو ذہنی غلامی کی بدترین
مثال ہے قومی ترقی کی راہ میں بدیسی و غلامانہ زبان کی بیساکھیوں کے باعث سدراہ ہے۔یہ طبقہ اپنے سیکولر خیالات کوانگریزی تہذیب کے مکروہ لبادے میں ”جدیدیت“کی ملمع کاری کو قوم میں نفوذکرناچاہتاہے لیکن اب اس طبقے کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے،انشاء اللہ تعالی۔
کیایہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے کہ اقوام عالم کوان کی مادری یاقومی زبان سے محروم کردیاجائے۔وطن عزیزمیں ایک وقت کے اندر کئی کئی زبانیں اپنا وجود رکھتی ہیں جو صریحاََنسل نوپرناروابوجھ ہیں۔ایک بچہ مادری زبان سیکھتاہے،اسی میں سوچتاہے،اسی میں خواب بھی دیکھتاہے،اسی مادری زبان میں دل اور جذبات کو بھی دخیل کرتاہے۔جب تھوڑاسابڑاہوتاہے تواسے مسجد بھیج دیاجاتاہے،یہاں اسے مذہبی زبان،عربی،سے واسطہ پڑتاہے۔اسے عربی کے حروف تہجی سکھائے جائے ہیں،ان کا تلفظ ازبر کرایاجاتاہے،عربی قوائد لسانیات سے جزوی واقفیت کرائی جاتی ہے جس کے باعث وہ قرآن مجید کی قرات و تلاوت اور اپنی مذہبی رسوم و عبادات کی بجاآوری کے قابل ہوجاتاہے۔اسی دوران اسے گلی محلے کی دکانوں پر ”چیز“لیتے ہوئے یا راستہ پوچھتے بتاتے ہوئے یا کسی انکل سے یامسجدکے کے مولانا صاحب سے یاکسی باجی یاآنٹی سے بات کرنی ہویاگھرمیں آئے مہمانوں سے کوئی سوال جواب یاتعارف کا مرحلہ درپیش ہوتواسے اردوکاسہارالینا پڑتاہے کہ یہ اردوزبان پورے جنوبی ایشیاء میں کم وبیش سوفیصدلوگ کسی نہ کسی درجے میں سمجھتے،بولتے اور لکھتے ہیں اور رابطہ کاسب سے بڑاذریعہ ہے۔پھرجب اسے کسی تعلیمی ادارے میں داخل کرایاجاتاہے تو یہ لسانی دہشت گردی وستم اپنی انتہاکو پہنچ جاتاہے جہاں سات سمندرپارکی زبان آکاس بیل کی مانندایک ناسوربن کر اس سے تاحیات چمٹ جاتی ہے۔اسے انگریزی زبان کا بے مقصد بوجھ اپنی تعلیمی کمرپر لادناہوتاہے،بدیسی قوم کی طرح اسی کے لہجے میں اپنامنہ ٹیڑھاکر کرکے اس کی زبان بولنی پڑتی ہے۔جوبچہ اس غلامانہ زبان کواپنااوڑھنابچھونابنالے،اسی میں اپنامافی الضمیربیان کرنے کامصنوعی رنگ ڈھنگ اختیارکرلے،اسی زبان کے نشیب و فراز میں اپنے لہجے کوڈھال لے تووہ طالب علم اپنے اساتذہ کاچہیتااوراس تعلیمی ادارے کے ماتھے کاجھومر بن جاتاہے،وہ اپنے تعلیمی درجے تعلیم کے اعلی مقامات اورانعامات کامستحق بھی گرداناجاتاہے اور اوراگلے تعلیمی مرحلوں میں بھی اسے ترجیحی تفوق حاصل رہتاہے۔
دیگرزبانوں میں اچھے مقامات کاحامل کسی زبان کاماہرتوشاید ہوجائے لیکن اس زبان میں پڑھائے جانے والاموادکس حد تک اس کے ذہن نشین ہواہے؟؟؟اس کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔اس کی وجہ ایک سادہ سا نفسیاتی جائزہ ہے کہ بچے کی بچگانہ اور محدود ذہنی صلاحیت کواگر صرف موادکے سمجھنے پر لگاجائے تب اس میں کامیابی کے کتنے فیصد امکانات ہوں گے اور جب اس کی ذہنی صلاحیت پر پہلے غیرزبان سمجھنے کا اضافی وغیرفطری بوجھ اور پھر مواد کے سمجھنے کاکام اس کے ذمہ لگایاجائے تب اس کی کارکردگی کتنے فیصد ہو پائے گی۔اس تجزیے کے نتائج اظہرمن الشمس ہیں جنہیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔کوئی غیرزبان سیکھنے میں آدھی صدی بھی صرف کردے تب بھی اس زبان کوبطورمادری زبان کے بولنے والوں کے برابرتودورکی بات ہے اس کے عشرعشیر جتنابھی کچھ مقام حاصل نہیں کرپائے گا۔انسان کی اصل زبان وہی ہے جواس کی مادری زبان ہے۔تاہم کوئی بھی قوم اپنی نسل کو غیرزبان سے نجات دلاکرہی اپنی مادری زبان میں تعلیم کے ذریعے علوم و معارف میں بہت اعلی مقام یقیناََحاصل کرسکتی ہے۔کیونکہ تخلیقیت کاتعلق ہمیشہ سے مادری زبان سے رہتاہے۔
مسلمانوں نے اس کرہ ارض پر کم و بیش ایک ہزارسال حکومت کی لیکن کسی قوم کواس کی مادری زبان یامقامی تہذیب سے محروم نہیں کیا۔سیکولرگوراسامراج تین سوسالوں تک انسانوں کی گردنوں پرمسلط رہااور ہر جگہ اس نے مقامی تہذیب کو تاراج کیااپنا تمدن زبردستی مسلط کیااور علاقائی و مادری زبان چھین کر قوموں کو گونگابہرابنانے کاعالمی انسانی مجرم بن گیا۔اسلام نے فرد کو کسی حدتک غلام رکھنے کی مشروط و محدود اجازت دی تھی لیکن اس سیکولراورلبرل استبدادنے پوری کی پوری قوموں کو اپنا غلام بنایا اور تعلیمی غلامی،تہذیبی غلامی،لسانی غلامی،دفاعی غلامی اور ذہنی غلامی سمیت نہ معلوم کتنی غلامیوں کے طوق ان کی گردنوں میں ڈالے اور اپنی زبان کی ہتھکڑیاں انہیں پہناکر مغربی جمہوری نظام کی بیڑیوں کے ذریعے ان اقوام کی رفتارکارکو انتہائی سست بنادیاتاکہ وہ کبھی بھی ہمارے سے آگے قدم نہ بڑھاکرہمیشہ ہمارے دست نگررہیں۔مادری زبان کایہ عالمی دن ہرقوم کویہ احساس دلاتاہے کہ عالمی گاؤں ”گلوبل ویلج“کے نام پر لسانی دہشت گردی کاخاتمہ کیاجائے اورآنے والی نسلوں کو انسانی حقوق کی ایسی سنگین خلاف ورزیوں سے کلیتاََ بچایاجائے۔اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ عالمی طاغوت کاآلہ کاربننے کی بجائے کل عصری علوم کودنیابھرکی مادری زبانوں میں منتقل کرنے کا عالمی انسانی فریضہ سرانجام دے تاکہ کل انسانیت کسی ایک زبان کی اجارہ داری سے نکل کر اس کرہ ارض کوآفاقی و آسمانی تعلیمات کے مطابق امن و آشتی اور پیارومحبت کی آماج گاہ بناسکے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...