1999 میں عالمی ادراہ” یونیسکو” نے 21 فروری کو ہر سال مادری کے تحفظ کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا۔یہ دن گورنمنٹ آف بنگلہ دیش کے اسرار پر مقررکیا گیا ہے۔جس کے پیچھے ہماری مقدرہ کے سیاہ کارناموں کی ایک بھیانک تاریخ چھپی ہوئی ہے۔یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب بنگلہ دیش مشرقی پاکستان کی حیثیت سے ہمارے ملک کا سب سے بڑا صوبہ تھا۔ پاکستان وجود میں جب آیا تو اس میں اکثریتی قوم بنگالی کے علاوہ دیگر کئی قومیں رہتی تھیں۔اس پس منظر میں اردو زبان کو بنگالی، پنجابی، پشتو، سندھی اور سرائیکی کے بعد بولی جانے والی زبانوں میں عددی اعتبار سےچھٹی پوزیشن حاصل تھی۔مگر مرکزی حکومت نے اردو کو سرکاری زبان قرار دیا تو ایسے میں قدیم ورثے کی حامل بنگالی قوم کو اپنی زبان کے بارے میں بےچینی لاحق ہوگئی ۔چنانچہ جب ان کی بات سنی نہیں گئی تو مشہور لسانی تحریک ” بھاشا اندولن” چل پڑی۔جلسوں اور مظاہروں کو روکنے کیلئے حکومت حرکت میں آئی۔بنگالی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ اور اس کا رسم الخط بحال رکھنے کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ مظاہرین پر تشدد کیا گیا۔اور اس تشدد کے نتیجے میں ڈھاکہ میڈیکل کالج کے احاطے میں طلبا اور دیگر مظاہرین پر فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 21 فروری کے دن چھ طلبا شہید ہوگئے۔بنگالی عوام نے تین دنوں کے اندر یعنی 24 فروری کو اسی جگہ پر شہدا کی یاگار کے لئے ایک مینار بنا ڈالا۔ مسلسل ہنگاموں اور مظاہروں سے تنگ آکر آخرکار مئی 1956 میں بنگالی زبان کو واپس سرکاری درجہ دے دیا گیا۔ یہ بات یاد رہنی چاہیئے کہ بنگالی زبان ہندوستان کی بڑی سرکاری زبانوں میں سے ایک زبان ہے۔جس کے عظیم شاعر روندرا ناتھ ٹیگور کو 1913 میں پہلا غیر مغرب نژاد ادب کا نوبل انعام مل چکا تھا۔مزید یہ بھی حقیقت ہے کہ شروع ہی سے بنگالی زبان کو دنیا کی میٹھی ترین زبان سمجھا جاتا تھا۔
یونیسکو اقوام متحدہ کے زیرسایہ ایک موثر ادارہ ہے جو ثقافت اور زبان کے حوالے سے پائیدار بقائے باہمی کیلئے عالمی منظر نامے پر بہت ہی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ماہرین لسانیات کے مطابق زبانوں اور ثقافت کا تحفظ عالمی امن و برداشت اور تحمل کیلئے ناگزیر ہے۔ان کو اندیشہ ہے کہ جس طرح صنعتی دور اور عالمگیریت نے عالمی ماحولیات کو خطرات سے دو چار کیا ہے اس کے بھیانک اثرات سے زبانوں کے وجود کو بھی اتنے ہی خطرات لاحق ہیں۔اس وقت عالمی افق پر 7113 کے قریب زبانیں بولی اور پڑھی جاتی ہیں۔ان میں سے 40فی صد کو اپنی بقا لالے پڑے ہوئے ہیں۔اس اعتبار سے اس صدی کے آخر تک 2900 زبانیں معدوم ہوسکتی ہیں۔اسی تناظر میں جب ہم پاکستان کو دیکھتے ہیں تو اس میں74 زبانیں بولی جاتی ہیں ۔جس میں سے 22 کے قریب زبانیں ختم ہو سکتی ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کے دور میں ترقی پزیر ملکوں کے 40 فی صد طلبا کو اپنی مادری زبانوں میں پڑھنے کی رسائی نہیں ہے۔لہزا ان ممالک میں اقلیتی لسان کی 40 فی صد آبادی کی زبانیں مستقبل قریب میں معدومی کی پیشن گوئی کا موضوع بن چکی ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ نئی نسل کو کئی اور زبانوں کے سیکھنے اور پڑھنے کے مواقع مل رہے ہیں ۔مگر مخلوط ثقافت اور اقلیتی زبانوں کے لئے ضروری ہے کہ روائیتی علم اور ثقافت کو ناصرف تحفظ دیا جائے بلکہ اس کی ترقی اور ترویج کیلئے حکومتی اور معاشرتی سطح پر اقدامات اٹھانا ازحد ضروی ہے۔تاکہ کوئی ثقافتی ورثہ جینے کا ماحول کھو نہ بیٹھے۔
عصر دوراں میں عالمی منظر نامے پر پانچ بڑی زبانوں کو وہ مقام حاصل ہے جن کے بارے میں گمان ہے کہ وہ 2050 تک سوسائٹی کے بڑے حصے پر اپنی اپنی اجارہ داری قائم کرلینگی جن کی وسعت سے زیادہ تر مقامی زبانیں اپنا وجود کھو بیٹھیں گی۔ درجہ بندی کے حوالے سے مستقبل کی پانچ اہم زبانوں کے درجات اس طرح ترتیب پاتے ہیں۔
1 چائنیز زبان کے بولنے والوں کی آبادی 918 ملین ہے
2 ہسپانوی زبان کو 480 ملین لوگ بولتے ہیں
3 انگریزی زبان کو دنیا میں 378 ملین لوگ
بولتے ہیں۔
4 ہندی/ اردو کی زبان کو بولنے والوں کی
تعداد 341 ملین ہے
5 عربی گوکہ کم آبادی یعنی صرف 270 ملین کی زبان ہے مگر اس کی بین الاقوامی حیثیت مسلمہ ہے۔جبکہ اس کے مقابلے میں بہت سی دوسری زبانوں جیساکہ روسی،فرانسسی، جرمن ، فارسی اور بنگالی کو بولنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
اسی طرح جب ہم دوسرے زاویے سے تجزیہ کرتے ہیں کچھ ایسے ممالک بھی ہیں جہاں کثیر تعداد میں زبانیں بولی جاتی ہیں۔ جن کے اپنے اپنے منفرد مسائل ہیں
1 پاپوا گنی میں 839
2 انڈونیشیا میں 707 3 نائیجیریا میں 526 4 امریکہ میں 454 5 چین میں 300 6 میکسیکو میں 289 7 کیمرون میں 281 8 آسٹریلیا میں 245 9 برازیل میں 229
زبانیں بولی جاتی ہیں۔
ایسے میں جب ہم پاکستان کو دیکھتے ہیں تو یہاں پر زبانوں کی تعداد 74 کے قریب ہے جس میں چند خاص زبانوں کے بولنے والوں کا تناسب اس طرح ہے
1 پنجابی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔39 فی صد
2 پشتو۔۔۔۔۔۔…۔۔19 فی صد
3 سندھی ۔۔۔۔۔۔۔۔15 فی صد
4 سرائیکی۔۔۔۔۔۔۔12 فی صد
5 اردو۔۔۔۔۔…۔۔۔۔۔۔۔۔7 فی صد
6 بلوچی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔3 فی صد
7 ہندکو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1 فی صد
8 کشمیری۔۔۔۔۔۔0.17 فی صد
ان 74 زبانوں میں 66 زبانیں مقامی کہلاتی ہیں۔جبکہ 8 غیر مقامی ہیں۔ بندوبستی اعتبار سے 6 زبانیں ادارہ جاتی درجہ رکھتی ہیں۔18 ایسی زبانیں ہیں جن میں ترقی اور نشونما دیکھائی دیتی ہے۔جبکہ 9 کے قریب جمود کا شکار ہیں اور ان کوزندہ رہنے کیلئے مشکلات کا سامنا ہے۔اسی طرح 2 زبانیں تقریبا” معدوم ہوچکی ہیں۔
صوبوں میں بولی جانے والی زبانوں کی ترتیب کچھ اسطرح بنتی ہے۔
1 صوبہ پنجاب:
1 پنجابی
2 سرائیکی
3 پوٹھو ہاری
4 بلوچی
5 ہندکو
6 ہرانوی
7 پشتو
8 اردو
9 ناگڑی
2 صوبہ سندھ
1 سندھی
2 اردو
3 گجراتی
4 بلوچی
5 ڈاٹکی
6 پشتو
7 مارواڑی
8 کچھی
9 اوڈکی
3 صوبہ خیبر پختون خواہ
1 پشتو
2 ہندکو
3 سرائیکی
4 چترالی
5 کلاش
6 کوہستانی
7 کلامی
8 پہاڑی
9 تروالی
10 پلولہ
11 کشمیری
12 اشیجی
13 واخی
14 ڈوماکی
15 فارسی
16 ڈمالی
17 بتاری
18 کندل شاہی
19 کلکوٹی
4 صوبہ بلوچستان
1 بلوچی
2 پشتو
3 براہوی
4 سرائیکی
5 سندھی
6 ہزارگی
7 کھیترانی
8 دہواری
9 اردو
10 پنجابی
11 ہندکو
5 صوبہ گلگت وبلتستان
1 بلتی
2 شینہ
3 گجاری
4 کشمیری
5 بدیشی
6 براشسکی
6 ریاست آزاد کشمیر :
1 کشمیری
2 پہاڑی
3 پشتو
4 ہندکو
5 پنجابی
زبانوں کے معدوم ہونے کے مضمرات میں سب سے اہم المیہ یہ ہوتا ہے کہ اس قوم کی شناخت گم ہوجاتی ہے۔ جس میں سماجی ہم آہنگی بشمول اقدار اور مثبت روایات تباہ ہوجاتی ہیں کیونکہ نئی زبان پر ہجرت سے یہ اہم عناصر راستے میں گم ہوجاتے ہیں۔یوں بیگانگی کا یہ عمل معاشی اور سماجی لاتعلقی تک چلا جاتا ہے۔آگے چل کر ثقافت، سیاست اور معاشی پسماندگی اس کی فصل بن جاتی ہے۔ بالا سطور میں پہلی ہی وضاحت کی گئ ہے کہ مادری زبان ان علاقوں میں خطرات سے دوچار ہوتی ہےجہاں نوجوانوں کو مادری زبانوں میں سیکھانے اور پڑھانے کا انتظام نہیں ہوتا ۔ایک اسٹڈی کے مطابق پسماندہ ملکوں کے 40 فی صد بچے متعلقہ زبان میں نہ پڑھنے کی وجہ سے اپنی زبان سے فاصلے پر چلے جاتے ہیں یوں صدیوں سے پروان چڑھتی زبان و ثقافت کی ترقی رک جاتی ہے حالانکہ اس کے دوسرے مثبت پہلووں کو اگر دیکھا جائے کہ ان ممالک میں اسکولوں میں ڈراپ اوٹ کا بڑھا ہوا تناسب بھی اس بات کا غماز ہے کہ طلبا اپنی زبان سے دوری کی وجہ سے اسکول جانا چھوڑدیتے ہیں ۔ مقامی زبان کے استعمال سے باآسانی ان مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے مزید یہ کہ مادری زبان میں تعلیم سے والدین میں بچوں کی تربیت اور دلچسبی بڑھتی ہے۔مزید تاریخی عوامل بھی زبانوں کی زندگی کو بسا اوقات متاثر کرتی ہیں جیساکہ قدرتی تباہی، قحط سالی، وبائی امراض, نوآبادیاتی ادوار کے قتل عام، جبری غلامی اور قومی آزادی کی جنگیں بمشمول خانہ جنگی شامل ہیں ۔ جب ایک زبان مرتی ہے تو دراصل اس کے جانے سے ناصرف ثقافت گم ہوتی ہے بلکی ایک پوری تہزیب اپنی شناخت کے ساتھ فنا ہوجاتی ہے۔جس میں ایک نقطہ نگاہ ہوتا ہے ایک تصور حیات ہوتا ہے ایک امید اور رائے ہوتی ہے یہ منفرد طرزحیات اس زبان کے ساتھ گم ہوجاتے ہیں۔ اس عالمگیریت اور مارکیٹ اکانومی کے دور میں اس بڑے چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو اپنی مادری زبانوں میں پڑھانا اور لکھنا سکھائیں ۔ حکومتی سطح پر لازم ہے کہ اقلیتی زبانوں کے ماہرین کو روزگار دیا جاے۔دوسرا اہم کام مقامی زبانوں کی ترقی و ترویج کا احتمام کرنا ہوتا ہے اس کے علاوہ تحفظ کیلئے بروقت قانون سازی کرنا پڑتی ہے اور تعلیم و تحقیق کیلئے مطلوبہ فنڈ فراہم کرنا ہوتا ہے ۔ان اہم مسائل کو باباے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو نے بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں بھانپ لیا تھا اور اپنے ایک قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔
” یہ ایک روز روشن کی طرح معلوم حقیقت ہے کہ پاکستان ایک کثیرالقومی ریاست ہے۔یہاں پر کئی زبانیں بولی جاتی ہیں۔جو بہت ساری تہزیبی ساخت اور خیالات کے ساتھ یہاں وجود رکھتی ہیں۔ریاست نے ہمیشہ ان حقائق کو چھپانے کی کوششں کی ہے۔کبھی عقیدے اور کبھی غداری کے نام پر حقائق کا گلا گھونٹا ۔مگر یہ حقیقت ہے جب ہم قوموں کو ان کے پیدائشی حق سے محروم رکھینگے ان کے منفرد طرزحیات کو قبول نہیں کرینگے تب پھر ہم ایک متحدہ وفاقی نظام کھڑا نہیں کر سکیں گے۔یہ سب اس وقت ممکن ہوگا جب ایک ایسا وفاقی جمہوری پارلیمانی نظام ہوگا جسمیں تمام وفاقی اکائیوں کو برابری کے حقوق دئے جائینگے۔”
انہوں نے نے ایک دوسرے موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہا تھا
” جناب اسپیکر؛ میں عرض کرونگا۔وقت آگیا ہے کہ ہم سمجھ لیں اختیارات کا ارتکاز اور معیشت پر اجارہ داری اس ملک کیلئے تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔جس سے عوام کو انتہائی تکالیف ہونگی جب ان کا مستقبل محفوظ نہیں ہوگا، ان کی زبانیں محفوظ نہیں ہوگی تو پھر ان کے جزبات مجروح ہونگے۔تب پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ آپ نے کتنے لوگوں کو نوکریاں دی ہیں۔بلکہ لوگ فرار کا راستہ اختیار کرینگے اورپھر اگر آپ طاقت و جبر کا راستہ اپناوگے تو عوام بھی دوسرےطریقے اختیار کرینگے جس کی وجہ اس ملک میں ایسی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے جو دنیا کے کئی ممالک میں پہلے بھی ہوچکی ہے ”
بحوالہ ” جنیسس آف بلوچ نیشنلزم”
بھائی ذرہ اس کی تصحیح کرکے واپس بھیجو۔اس کو آج چھپنے کیلئے بھیجنا ہے