21 فروری 1952 کو ڈھاکہ کی سڑکوں پر بنگلہ دیش کی بنیاد رکھی گئی
اس دن ڈھاکہ کی سڑکوں پر ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے نئی ریاست بنگلہ دیش کی بنیاد رکھی۔ سنہ 1947 میں جب برطانوی نو آبادیاتی حکمران برصغیر سے واپس لوٹے اور یہاں مذہب کی بنیاد پر دو ملک انڈیا اور پاکستان بنائے تو عدم اعتماد اس وقت بھی موجود تھا۔
دو ایسی قوموں کے ساتھ پاکستان کی تخلیق ہوئی جن میں دو ہزار میل کا فاصلہ تھا، الگ زبانیں بولتے تھے اور ثقافتی طور پر بھی یکساں نہیں تھے۔ ایسے میں نطریاتی اختلافات ہونا ناگزیر تھے۔ 21 فروری کو پیش آنے والا واقعہ اس تصادم کا حتمی اظہار تھا۔
فروری 1952 میں پیش آنے والے خونریز واقعے کی بنیاد دونوں ممالک کی تشکیل سے پہلے ہی رکھی جا چکی تھی۔ عبدالمتین اور احمد رفیق نے اپنی کتاب لینگویج موومنٹ ہسٹری اینڈ سگنیفیکنس یعنی ’تحریکِ زبان، تاریخ اور اہمیت‘ میں لکھا ’اولین مشکل تو ادب اور ثقافت تک محدود تھی۔‘
انھوں نے مزید لکھا ’زبان کی یہ تحریک محض ایک الگ واقعہ نہیں تھا۔۔۔ اس سے دہائیوں قبل مسلمان بنگالیوں میں سکیولر قوم پرست عناصر نشو و نما پا رہے تھے۔‘
جب یہ واضح ہو گیا کہ پاکستان نام کا ملک ہو گا تو اس بات پر بحث ہونے لگی کہ سرکاری زبان کیا ہوگی اردو یا بنگلہ؟ حتی کے کچھ لوگوں کے ذہنوں میں عربی اور انگریزی زبانیں بھی تھیں۔ پاکستان کے قیام کے وقت پاکستان کی کل چھ کروڑ نوے لاکھ کی آبادی میں چار کروڑ چالیس لاکھ افراد بنگالی زبان بولتے تھے۔ پاکستان کے قیام کے بعد اس وقت علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ضیا الدین احمد نے تجویز دی کہ اردو کو سرکاری زبان قرار دیا جائے۔
مادری زبان کے استعمال کا حق
پاکستان کے قیام کے چند ماہ بعد ہی بنگلہ کو ڈاک کے ٹکٹوں، سکوں، چیل کے ٹکٹوں اور پوسٹ کارڈز سے ہٹا دیا گیا۔ تمام نقوش اردو اور انگریزی میں چھاپے گئے حتیٰ کہ آبادی کی اکثریت بنگلہ بولنے والوں کی تھی۔ یہ پہلا جھٹکا تھا، یہ وہ وقت تھا جب بنگالیوں کے دلوں میں عدم اعتماد کا بیج پھوٹنے لگا۔ اس وقت یہ واضح ہو چکا تھا کے اردو ایک ایسی قوم پر مسلط کر دی جائے گی جو ایک یکسر مختلف مادری زبان بولتے تھے۔
سب سے پہلے مصنفین اور صحافیوں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ اس وقت کے مقبول اخبار ’ملت‘ نے اداریہ شائع کیا جس میں لکھا تھا ’اپنی مادری زبان کے بجائے کسی دوسری زبان کو سرکاری زبان کے طور پر قبول کرنا غلامی کے مترادف ہے۔‘
اہم دستاویزات جیسے کہ ریل کے ٹکٹ، ڈاک کی مہروں سے بنگلہ کے خارج کیے جانے کے بعد طلبا اور سول سوسائٹی نے مظاہرے کیے۔ پاکستان میں بنگالی زبان بولنے والے سرکاری ملازمین نے بھی احتجاج کیا۔ سنہ 1948 میں اس وقت کے مشرقی پاکستان کے وزیر اعلی خواجہ ناظم الدین نے کہا کہ یہ چیزیں زبان کے حوالے سے مباحثہ شروع ہونے سے پہلے ہی شائع کی جا چکی تھیں۔
سنہ 1947 اور 48 میں اہم سیاسی واقعات رونما ہوئے اس وقت تک یہ معاملہ لسانی آزادی کا نہیں رہا تھا۔ بنگالیوں نے بھی پاکستان کی ریاست میں اقتصادی اور سیاسی توازن کی تلاش شروع کر دی۔ سنہ 1947 میں روزنامہ آزادی نے ایک مضمون شائع کیا جس میں لکھا تھا ’اگر اردو سرکاری زبان بن جاتی ہے تو جن لوگوں نے اس زبان میں تعلیم حاصل کی وہ تو ملازمتوں کے لیے قابل تصور ہوں گے جبکہ بنگلہ بولنے والے لوگوں کو کم اہل سمجھا جائے گا۔‘
ٹوٹے ہوئے خواب
سنہ 1948 میں محمد علی جناح ڈھاکہ آئے۔ مشہور ریس کورس میدان میں انھوں نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ ’اردو صرف اردو ہی پاکستان کی سرکاری زبان ہو گی۔` ان کی تقریر پر مجمعے کی جانب سے فوری شدید احتجاج سامنے آیا۔ ایک طویل نو آبادیاتی نظام سے آزادی اور نئے ملک میں آزادی کی زندگی کا خواب بکھر گیا۔
ایک ایسی زبان مسلط کرنے کے فیصلے کو جو بنگالیوں کے لیے نو وارد تھی سیاسی اور اقتصادی برتری قائم کرنے اور دباؤ کا ایک حربہ سمجھا گیا۔ اس وقت کے مغربی پاکستان میں سمجھا جاتا تھا کہ بنگالی ثقافت کا ہندومت کی طرف زیادہ جھکاؤ ہے۔ جناح سرکاری زبان کے حوالے سے اپنے فیصلے پر غیر متزلزل رہے۔
بڑھتے ہوئے احتجاج
بنگالیوں کو ڈر تھا کہ اگر ان پر دوسری زبان مسلط کر دی گئی ان میں سے بیشتر اور ان کی آئندہ نسلیں ناخواندہ رہ جائیں گی۔ اور خود بنگلہ زبان کو بھی خطرہ لاحق ہو جائے گا۔
شدید ناراضگی کے عالم میں جنوری 1948 میں بااثر سیاستدانوں اور سماجی شخصیات نے مل کر ’راشٹرا واسا سنگرم پریساد‘ نامی ایک تنظیم بنائی۔ ابتدا میں انھوں نے اپنی سرگرمیاں خفیہ رکھیں۔ اس گروہ نے تاریخ کے لیے راستہ متعین کیا۔ جناح کی وفات کے بعد زبانوں کی یہ بحث سنہ 1952 تک جاری رہی۔ جب بھی پاکستان سے کوئی اہم شخصیت وہاں کا دورہ کرتی یہ مسئلہ اجاگر ہو جاتا۔
26 جنوری 1952 کو پاکستان کی اسمبلی نے اردو زبان کو سرکاری زبان قرار دینے کی حتمی منظوری دے دی، اس نے مشرقی پاکستان میں شعلے بھڑکا دیے۔ اگلے دن خواجہ ناظم الدین جو اس وقت تک گورنر جنرل بن چکے تھے انھوں نے ڈھاکہ میں ایک بڑی ریلی کے دوران جناح کا موقف دہرایا۔ وہاں کا باشندہ ہونے کی حیثیت سے خواجہ ناظم الدین کے اس بیانیے نے زبان کی تحریک کو یکسر بدل دیا۔ ان کی اس تقریر کے بعد بھی ریلی میں خوفناک مظاہرے ہوئے۔
بنگلہ دیشی ریاست کا بیج
ناظم الدین کے بیان کے بعد بنگالیوں میں دھوکہ دیے جانے کا احساس بڑھنے لگا۔ انھوں نے اس تقریر کو مسترد کرتے ہوئے مشرقی پاکستان میں عام ہڑتال اور مظاہرے شروع کر دیے، ان مظاہروں میں طلبا نے اہم کردار ادا کیا۔ سیاستدان، صحافی اور دیگر پیشہ ور افراد بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے اور یہ مظاہرے پھیلتے گئے۔
21 فروری کو ایک اور عام ہڑتال کی کال دی گئی۔ ڈھاکہ یونیورسٹی اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں دفعہ 144 نافد کر دی گئی تاکہ مجمع جمع نہ ہوسکے۔ لیکن احتجاج کو روکنے کے لیے یہ ناکافی تھا۔
ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبا دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ تب یوم شہدا کا جنم ہوا۔ پولیس نے گولی چلا دیں جس سے متعدد مظاہرین ہلاک ہو گئے۔ ان میں سے بیشتر طلبا تھے۔ اس واقعے نے زبان کے مسئلہ پر ہونے والے مظاہروں کو مزید بھڑکا دیا اور یہ تب تک کم نہیں ہوئے جب تک بنگلہ کو چار سال بعد سرکاری زبان کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔
مادری زبان کے لیے لڑائی نے یہ واضح کر دیا کہ دو قومیں ایک نہیں ہو سکتیں۔ اور اسی وجہ سے 19 سال بعد بنگلہ دیش کی ریاست وجود میں آئی۔
زبان کی اس تحریک میں کل کتنے لوگ مارے گئے یہ آج تک معلوم نہیں ہو سکا۔ کچھ مؤرخین کا کہنا ہے کہ یہ تعداد 40 تک ہے۔ ان میں سرفہرست نام سلام، برکت، رفیق، جبار اور، شفیع الرحمن تھے۔
بنگلہ دیش میں اس وقت سے 21 فروری کو یوم شہدا منایا جاتا ہے۔
یونیسکو نے سنہ 1999 کو دو بنگلہ دیشی شہریوں کی جانب سے اقوامِ متحدہ کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان کو لکھے گئے خط کے بعد 21 فروری کو مادری زبان کا بین لاقوامی دن قرار دے دیا۔
سنہ 2010 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرار داد پاس کی جس میں مادری زبان کے دن کو منانے کی منظوری دی گئی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...