25 فروری 1948 کو دستور ساز اسمبلی نے اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دے دیا۔
وزیراعظم لیاقت علی خاں نےکہا صرف اردو ہی مغربی اور مشرقی پاکستان کو متحد رکھہ سکتی ہے ، اردو اور صرف اردو ہی پاکستان کی سرکاری زبان ہوگی۔
21 مارچ 1948 کو قائد اعظم نے ڈھاکا میں جلسہ عام میں اعلان کیا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو کے سوا کوئی زبان نہیں ہوگی۔
قراردادِ پاکستان پیش کرنے والے شیرِ بنگال مولوی فٖضل الحق نے بیان دیا ’’گورنر جنرل کا کام یہ نہیں کہ وہ بتائے کہ ملک کی سرکاری زبان کون سی ہوگی۔ یہ ٖفیصلہ عوام نے کرنا ہے، اس کیلئے ریفرنڈم کرایا جائے‘‘
24 مارچ 1948 کو قائد اعظم نے ڈھاکا یونیورسٹی کے کانووکیشن میں اپنے خطاب میں 21 مارچ والے موقف کا اعادہ کیا۔ اس تقریر پر طلبہ نے اتنا ہنگامہ کیا کہ قائد اعظم کو اپنی تحریری تقریر مکمل کئے بغیر ہال سے جانا پڑا۔
لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد وزیراعظم بننے والے خواجہ ناظم الدین خود بنگالی تھے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد وہ 26 جنوری 1952 کو پہلی بار مشرقی پاکستان گئے تو اعلان کیا کہ صرف اردو اور صرف اردو ہی پاکستان کی قومی زبان ہوگی۔
خواجہ ناظم الدین کے اس بیان پر مشرقی پاکستان کے طلبہ میں بڑی بے چینی پھیلی۔ مولانا بھاشانی کی سربراہی میں سیاسی جماعتوں نے بھی آ ل پارٹیزسنٹرل لینگویج ایکشن کمیٹی بنا لی۔ طلبہ اور ایکشن کمیٹی کی اپیل پر 21 فروری 1952 کو پورے مشرقی پاکستان میں عام ہڑتال ہوئی۔اس دوران ڈھاکا یونیورسٹی میں طلبہ کے جلوس پر پولیس کی فائرنگ سے 8 طلبہ شہید ہوگئے۔
چند روز بعد مشرقی پاکستان (اس وقت تک مشرقی بنگال) اسمبلی نےاردو کے ساتھہ بنگلہ کوبھی قومی زبان بنانے کی قرارداد منظور کرلی۔ اس طرح وہ مسٔلہ جو چند طلبہ یا ’’ غدار عناصر‘‘ کا سمجھا جارہا تھا، مشرقی پاکستان کے عوام کا متفقہ مطالبہ بن گیا۔ مگر مغربی پاکستان کی رائے عامہ اسے بدستور غداری اور قومی یکجہتی کے خلاف سازش سے ہی تعبیر کرتی رہی۔7 مارچ1952 کو کراچی کے ممتاز شہریوں کا اجلاس حسین امام کی صدارت میں ہوا ، جس میں اردو کے ساتھہ بنگلہ کو بھی قومی زبان بنانے کے مطالبے کو پاکستان کی سالمیت پر ضربِ کاری قرار دیا گیا اور اس مطالبے کی حمایت کرنے والے دو ممتاز ایڈیٹروں الطاف حسین اور زیڈ اے سلہری کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اسی دن ’’جنگ‘‘ میں رئیس امروہوی کی نظم ’’ نوحۂ اردو ‘‘ شائع ہوئی، جس کا ٹیپ کا مصرع تھا
’’ اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘‘
عوام کو باور کرایا گیا کہ اردو کے ساتھہ بنگلہ کو بھی قومی زبان بنانے کا مطالبہ اردو کے قتل کی سازش ہے۔
بنگالی کیلئے طلبہ کی تحریک 1954 میں سیاسی تحریک بن گئی۔ مشرقی پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں حکمران مسلم لیگ یونائیٹڈ فرنٹ سے بری طرح ہار گئی۔ اس شکست کے بعد وزیراعظم محمد علی بوگرہ نے بنگالی کوبھی قومی زبان قرار دے دیا ، لیکن اب بہت دیر ہوچکی تھی۔ بعد از خرابی بسیار جو کیا گیا وہ پہلے ہوجاتا تو شاید اتنا نقصان نہ ہوتا۔ آخر دنیا میں بے شمار ملکوں کی ایک سے زیادہ قومی زبانیں ہیں۔
یونائیٹڈ فرنٹ کی حکومت نے پہلی بار 21 فروری کا دن یومِ شہدائے بنگلہ کے طور پر منایا۔
1963 میں طلبہ کی شہادت کی جگہ پر ’’شہید مینار‘‘ تعمیر کیا گیا جو تمام سیاسی تحریکوں کا مرکز بن گیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی تحریک سمجھیں اس جگہ سے شروع ہوئی۔
1971 کے آپریشن سرچ لائٹ کے دوران اسے مسمار کر دیا گیا ۔ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد بنگلہ دیشی حکومت نے’’ شہید مینار ‘‘ دوبارہ تعمیر کرایا اور 21 فروری کو یوم شہدأ منانا شروع کیا ۔
17 نومبر 1999 کو یونیسکو نے بنگلہ دیش کی تحریک پر21 فروری کو مادری زبان کا دن قرار دیا۔
2008میں اقوام متحدہ نےایک قرارداد منظور کی جس کے بعد 21 فروری کو مادری زبان کا عالمی دن قرار دیا گیا۔ یہ دن اب ہر سال دنیا کے تمام ممالک میں منایا جاتا ہے، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔
[ پاکستان کرونیکل (عقیل عباس جعفری)، پاکستان کی سیاسی تاریخ، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا آغاز(زاہد چودھری) سے استفادہ ]
“