مادرِ فطرت کا بیٹا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حیات و موت کے مکتبی فلسفے میں مت الجھو
بہتر یہی ہے کہ کتابی قیاس آرائیوں سے اجتناب کرو
کیا اثبات اور حقیقی نفی کے درمیان کوئی بڑا فرق ہے؟
کیا ایک زور دار قہقہہ اور ایک درد بھری چیخ
ایک دوسرے سے مماثل نہیں ہیں؟
لوگوں کو خوف میں مبتلا دیکھ کر میں بھی ڈر جاتا ہوں
لیکن لوگوں کی غالب اکثریت نہ جانے کس مخمصے میں رہتی ہے
یہ لوگ زندگی سے لطف اندوز کیوں نہیں ہوتے
وہ تو دولت اور شہرت کے پیچھے بھاگتے ہوئے
انگلیوں سے
وکٹری کا نشان بناتے رہتے ہیں
مگر میں بڑا کاہل ہوں
کیونکہ میں بنک بیلنس ، شاندار املاک اور نام و نمود کا دلداہ نہیں ہوں
میں اُس بچے کی طرح ہوں جو کھلونوں سے کھیلنا نہیں سیکھ سکا
مگر لوگ کیا چاہتے ہیں:
منی لانڈرنگ ، آف شور بزنس ، امپورٹد گاڑیاں اور شوگر ملیں
اور انجام کار پانامہ کے دوزخ کا عذاب
مگر میرے پاس کچھ بھی نہیں اور میں کتنا خوش ہوں
میں کسی مجذوب کی طرح ہوں
جو دولت ، شہرت اور اقتدار کو جوتے کی نوک پر بھی نہیں مارتا
لوگ بڑے ہوشیار اور تیز طرار ہیں
مگر میں باورچی خانے کی کند چھری کی طرح ہوں
جو ڈھنگ سے پیاز بھی نہیں کاٹ سکتی
لوگ سمندر کی لہروں کی طرح ہیں
اور میں اُن کے درمیان ہواؤں کی طرح زنّاٹے میں ہوں
لوگ بڑی عجلت میں ہیں
مگر مجھے نہ کوئی جلدی ہے نہ پریشانی
میں مٹی سے لِپے پُتے فقیر کے چبوترے کی طرح
سراپا انکسار ہوں
اپنی نوعیت کا عجیب ، اجنبی بلکہ اوپرا بھکشو
جانی! یہ میں ہوں
مادر فطرت کا سگا بیٹا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“