{ کچھ گمشدہ واقعات اور یادیں}
::: "مدن موہن کولی"۔۔۔ ہندوستانی فلموں کے بہتریب موسیقاروں میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے فلم کے لیے بہتریں موسیقی ترتیب دی۔ طلعت محمدد، لتا منگیشکر، اور محمد رفیع نے ان کی ترتیب دی ھوئی موسیقی میں بہتریں گائے۔ خاض طور پر لتا منگیشکر نے مدن موہن کی بنائی ھوئی دھنوں پر بہتریں غزلیں گائیں۔ 1950 سے 1970 کی دہائی تک مدن موہن بولی وڈ کے سنگیت کی دنیا پر چھائے رھے۔ یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ھے کی مدن موہن کی پیدائش 25 جون، 1924 میں عراقی کردستان کے مقام " ایربیل" میں ھوئی جہان ان کے والد رائے بہادر چنی لال کردستان کی " پیش مرگا" کی پولیس میں اکاونٹنٹ جزل تھے۔ ۔
مدن موہن کی عمر کے ابتدائی سات آٹھ برس مشرق وسطی میں گزرے، اور 1932ء کے بعد ان کے والد اپنے آبائی علاقے چکوال، ضلع جہلم لوٹ آئے۔ آٹھ برس کے مدن موہن کو دادا ، دادی کے حوالے کرکے، ان کے والد صاحب بمبئی (موجودہ ممبئی) چلے آئے، تاکہ کاروبار کی سبیل نکالی جاسکے۔ جہاں ان کے والد رائے بہادر چنی لال، عراقی پولِس میں اکاونٹنٹ جنرل تھے۔ مدن موہن کی عمر کے ابتدائی سات آٹھ برس مشرق وسطی میں گذرے، ان کے پتا جی بمبئی (موجودہ ممبئی) چلے آمدن موہن کو تعلیم کے لیے لاہور بھیج دیا گیا، جہاں کم سن مدن نے انتہائی مختصر مدت میں کرتار سنگھ سے موسیقی کے اسباق لیے، اس کے علاوہ انھوں نے کبھی موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی۔ وہ محض گیارہ برس کے تھے کہ ان کے والد انھیں خاندان سمیت بمبئی لے گئے۔ مدن موہن کو بچپن سے موسیقی سے اتنا لگاو تھا، کہ ہر وقت گراموفون سے چِپکے دکھائی دیتے۔ گیارہ سال کی عمر ہی سے وہ آل انڈیا ریڈیو کے لیے بچوں کے پروگرام میں گایا کرتے۔ کیوں کہ یہ اپنا مستقبل موسیقی کی دُنیا میں دیکھ رہے تھے۔
مدن موہن کو تعلیم کے لیے لاہور بھیج دیا گیا، جہاں کم مدن مدہن نے انتہائی مختصر مدت میں کرتارسنگھ سے موسیقی کے اسباق لیے، اس کے علاوہ انھوں نے کبھی موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی۔ وہ محض گیارہ برس کے تھے کہ ان کے والد انھیں خاندان سمیت بمبئی لے گئے۔ بحیثت کارباری شراکت دار " ممبئی ٹاکیز" اور " فلمستان اسٹوڈیو" میں پیسہ لگایا۔ مدن موہن کو بچپن سے موسیقی سے اتنا لگاو تھا، کہ ہر وقت گراموفون سے چِپکے دکھائی دیتے۔ گیارہ سال کی عمر ہی سے وہ آل انڈیا ریڈیو کے لیے بچوں کے پروگرام میں گایا کرتے۔ سترہ سال کے ہوئے تو پتا جی کی خواہش کے مطابق ڈیرہ دون اکادمی سے ایک سالہ تربیت کرکے 1943ء میں فوج میں سیکنڈ لیفٹیننٹ بھرتی ہوگئے۔ دوسری عالمی نوکری چھوڑ کر بمبئی لوٹ آئے، کیوں کہ یہ اپنا مستقبل موسیقی کی دُنیا میں دیکھ رہے تھے۔
ابتدائی تعلیم ممبئی میں حاصل کرنے کے بعد انھوں نے دہلی کے کرنل براؤں کیمرج اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ ان کی والدہ کو شاعری اور موسیقی سے شعف اور ستھرا ذوق تھا۔ جس کا اثر مدن موہن پرخاصا گہرا ھوا ۔ انھون نے بہت تھوڑے عرصے کے لئے ایس ڈی برمن اور شیام سندر میوزک ڈائرکٹر کے ماتحت بھی کام کیا۔
پھر فلموں میں موسیقی دینا شروع کی اور ایسی موسیقی دی جس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ فلمی غزل بنانے میں انہیں ملکہ حاصل تھا اور ایسی ایسی فلمی غزلیں بنائیں کہ دوسرے میوزک ڈائرکٹر اس پر رشک کرتے تھے۔
ایک بار نوشاد صاحب نے مدن موہن کے بارے میں کہا کہ اگر یہ "ان پڑھ" فلم کا میوزک میرے نام کر دے تو میں اپنا سارا میوزک اس کے نام کرنے کو تیار ہوں تعلیم کے بعد انھوں نے آل انڈیا ریڈیو، لکھنو میں ملازمت شروع کی جہان پر انھون نے طلعت محمود، استاد فیاض علی خان، استاد اکبر علی خان اور بیگم اختر سے مویسقی کے رموز سیکھے۔ مدن موہن نے راج کپور، ثریا اور نرگس کے ساتھ بھی کام کیا۔ مدن موہن نےساحر لدیانوی، راجہ مہدی علی خان، مجروح سلطان پوری، کیفی اعظمی، راجندر کشن اور نقش لائل پوری وغیرہ کی شاعری کو اپنی بنائی ھوئی موسیقی میں بڑے موثر انداز میں نہایت خوبصورتی سے سمویا۔ مدن موہن کا اردو کا لہجہ بہت ھی اچھا تھا۔ اردو لکھتے بھی اچھی تھے۔وہ اردو کی غزلیات کی بہتریں موسیقی دیتے تھے۔ کیونکہ انھوں نے عراق/ کردستان میں قیام کے دوران اسکول میں عربی پڑھی تھی اور عربی شعریات کے آہنگ سے وہ واقف تھے۔ مگر ان کے لہجے میں" پھوٹوہاری" پن بھی جھلکتا تھا۔ بہت اچھی اردو میں گفتگو کرتے تھے۔ اردو غزل کی بہت سمجھ تھی۔ لتا منگیشکر نے سب سے زیادہ غزلیات مدن موہن کی ترتیب دی ھوئی موسیقی میں ھی گائیں۔ اس لیے لتا منگیشکرنےان کو ۔۔" غزل کا شہزادہ" ۔۔۔ کا لقب دیا تھا۔ 1964 میں ان کو فلم " وہ کون تھی" کے لیے فلم فیر ایورڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ 1971 میں فلم " دستک" پر نیشنل فلم ایوارڈ سے نوازہ گیا۔
شیلیش چتر ویدی ،فرسٹ پوسٹ پر لکھتے ہیں کہ اس دور میں گیتوں کی مقبولیت کیلئے بناکا گیت مالا بہت اہم تھا ۔امین سایانی اسے پیش کرتے تھے ۔مدن موہن کا کوئی گیت کبھی نمبر ون نہیں رہا ۔وہ کبھی بازار کے سنگیت کار نہیں بن پائے۔انہیں کبھی فلم فیئر ایوارڈ نہیں ملا۔ان کے بیٹے سنجیو کوہلی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ گیت مالا میں انپڑھ فلم کا گیت آپ کی نطروںنے سمجھا نمبر دو پر آیا ۔یہی ان کا بیسٹ تھا ۔مدن موہن کے دل مین ہمیشہ یہ کسک رہی کہ وہ نمبر ون نہیں ہو پائے ۔گیت مالا میں بھی اور فلم فیئر میں بھی وہ کسک اس قدر تھی کہ جب فلم دستک کیلئے انہیں نیشنل ایوارڈ ملا تو انہوں نے لینے سے انکار کر دیا۔سنجیو کمار نے انہیں منایا ۔ان سے کہا کہ اگر آپ نہیں لیں گے تو میں بھی ایوارڈ لینے نہیں جاؤں گا۔اس کے بعد مدن موہن ایوارڈ لینے کیلئے راضی ہو گئے۔
مناڈے کی زبانی یہ واقعہ سنیے:
”وہ گانے تو لاجواب بناتے تھے، ساتھ ہی ساتھ کھانا بھی بہت اچھا بنالیتے تھے۔ خاص طور پہ ایک چیز تو بہت ہی خاص بناتے تھے ’بھنڈی مٹن‘۔ اک بار مدن جی کال آئی، کہ ’منا، تو کیا کررہا ہے؟‘میں نے کہا، ’کچھ بھی نہیں کررہا‘۔ بولے، ’تو پھر آجا، میرے گھر‘۔ مناڈے کہتے ہیں، میں ان کے یہاں پہنچا، اُنھوں نے بتایا بھنڈی مٹن بنایا ہے، میں نے کہا، یہ کیا کامبینیشن ہے، بھنڈی مٹن؟ تو انھوں نے کہا کھا کے تو دیکھ۔ کھایا تو بہت ہی اچھا تھا۔ ساتھ ساتھ مدن موہن نے کہا، کہ ایک گانا ہے، جو تجھ سے گوانا ہے“۔ یہ مقبول گیت ہے، ”کون آیا میرے من کے دوارے، پائل کی جھنکار لیے“مدن موہن نے 95 سے زائد فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ کثرت شراب نوشی کے سبب ان کے گردوں نے کام کرنا ختم کردیا تھا۔ اسی سبب 14، جولائی 1975کو ممبئی میں انتقال ھوا۔ 2004 میں ان کی محفوظ دھنوں کو ان کے بیٹے سنجیو کولی نے یش چوپڑہ کی فلم " ویر زورہ" میں استعمال کیا جو بہت مقبول ھوئیں۔ مون موہن کی دھنوں میں لتا منگیشکر کی کچھ یادگار غزلیں یہ ہیں :-
* آج سوچا تو آنسو نکل آئے ۔۔۔۔۔ *اگر مجھ سے محبت ھے تو اپنے غم ۔۔۔۔۔۔۔ *بےتاب دل کی تمنا ۔۔۔۔*حال دل انھیں یوں نہ سنایا گیا۔۔۔۔۔* ھے اسی میں پیار کی آبرو ۔۔۔۔۔* ھم ہیں متاع کوچہ بازار کے طرح ۔۔۔۔۔* جانا تھا ھم سے دور ۔۔۔۔۔۔۔* جو ھم نے داستان اپنی سنائی، آپ کیوں روئے ۔۔۔۔۔۔* میرا قرار لے جا ۔۔۔۔۔۔* نہ تم بے وفا ھو ۔۔۔۔* نغمہ و شعر کی سوغات کسے پیش کرؤں ۔۔۔۔۔۔* رسم الفت کو نبھائیں کیسے ۔۔۔۔* رکے رکے سے قوم ۔۔۔* ان کو یہ شکایت تھی ۔۔۔۔۔* وہ بھولی داستان لو پھر یاد آگئی ۔۔۔۔۔* وہ چپ رہے تو ۔۔۔۔۔*یوں حسرتوں کے چراغ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔