میڈم نورجہاں، نوراں کنجری اور میں نور
میڈم نورجہاں کو میں نے صرف ایک بار دیکھا تھا. میرے بچپن کا اختتامی زمانہ تھا. ہم حج کے لیے جدہ ائرپورٹ پر اترے تھے. اچانک وہ میرے سامنے آگئیں. سفید احرام ماتھے کو آدھے تک ڈھکے ہوئے تھا. سفید سوتی شلوار قمیص. ململ کا سفید دوپٹہ، نماز میں اوڑھنے کے انداز میں لپٹا ہوا. شفاف اور مکمل دھلا دھلایا چہرہ.
یہ ان کے انتہائی عروج کا زمانہ تھا مگر وہ اطراف کے لوگوں سے قطعی بےنیاز تھیں.
ان کا سوٹ کیس نہیں مل رہا تھا اور وہ ہر چیز سے بے نیاز پریشانی کے ساتھ اپنا سوٹ کیس ڈھونڈتی پھر رہی تھیں اور میری وہ عمر تھی جب حیرت سے منہ کھلا رہ جاتا ہے. جس طرف وہ مڑتی تھیں، اسی طرف میری گردن مڑتی تھی.
سوٹ کیس نہیں ملا تو وہ جھنجلائی ہوئی ایک شخص کے سامنے آ کھڑی ہوئیں، جو احرام باندھے ایک صوفہ پر بڑی بے نیازی سے پھیلا بیٹھا تھا اور سگریٹ کے کش لگا رہا تھا. گورا چٹا. لمبا چوڑا.
میں نے ابھی سینما کی شکل نہیں دیکھی تھی اس لیے مجھے پہچاننے میں تھوڑا سا وقت لگا. وہ یوسف خان تھا. میں نے کچھ ہی دن پہلے اخبار کے فلمی صفحے پر پڑھا تھا کہ میڈم نے یوسف خان سے شادی کرلی ہے مگر وہ اسے چھپا رہی ہیں.
نورجہاں اب پنجابی میں یوسف خان کو جھنجلائے انداز میں بتا رہی تھیں کہ سوٹ کیس نہیں مل رہا. یوسف خان نے اسی بے نیازی سے کہا کہ مل جائے گا. مگر اٹھا نہیں. میڈم کچھ دیر شاید اس امید پر کھڑی رہیں کہ وہ اٹھے گا اور سوٹ کیس ڈھونڈنے میں ان کی مدد کرے گا! مگر وہ اسی بے نیازی سے بیٹھا کش پے کش لگاتا رہا. میڈم خود ہی سوٹ کیس کی تلاش میں پلٹ گئیں اور میری نظروں سے اوجھل ہوگئیں.
پھر میں نے انہیں کبھی نہیں دیکھا.
مگر جب کبھی میڈم کا میں نے تصوّر کیا میری نظروں کے سامنے احرام میں لپٹا وہ شفاف چہرہ آگیا جو اللہ کے گھر جانے کے لیے اپنے گھر سے نکلا تھا اور جسے ابھی اللہ کے گھر کے گرد طواف بھی کرنا تھا اور روضہِ رسولﷺ کے آگے بھی پیش ہونا تھا. اتنا مجھے بھی یقین ہے کہ وہاں وہ اگر کعبہ سے لپٹی ہوں گی تو بھی کسی نے پہچان کر یہ نہیں کہا ہوگا کہ ہٹ پرے کنجری. روضہِ رسولﷺ کے سامنے اپنا سلام جب پیش کر رہی ہوں گی تو کسی نے ناپاک ناپاک کہہ کر پیچھے کو دھکیلا نہیں ہوگا.
بات چل نکلی ہے تو مجھے اسی زمانے میں اپنی زندگی کا ایک اور کردار یاد آگیا.
وہ بھی اپنے ماضی میں کنجری بھی تھیں اور ہندو بھی تھیں. میں نے جب انہیں دیکھا تو وہ مسلمان ہوکر ایک بڑے جاگیردار سے شادی کر چکی تھیں، جن کا سندھ کے فیوڈل کلاس میں بڑا رعب و دبدبہ تھا اور وہ ان کی اولاد کی ماں بن چکی تھیں. اور انتہائی باعزت زندگی گزار رہی تھیں.
اماں سے ان کی دوستی مدینے میں ہوئی تھی. وہ بھی حج پر آئی ہوئی تھیں اور جدہ سے سیدھی مدینے آئی تھیں. عین میڈم نورجہاں کی طرح ان کا سوٹ کیس بھی ائرپورٹ پر کھو گیا تھا. اب ان کے پاس پہننے کو کپڑے نہیں تھے. انہوں نے سفید سستا سا سوتی کپڑا لیا تھا اور ہاتھوں سے سی کر دو جوڑے بنا لیے تھے. اماں بہت کہا کرتی تھیں کہ یہ موٹا لٹھا کیوں لیا ہے تم نے. اچھے سے اچھا کپڑا ملتا ہے یہاں. چلو میں تمہیں دلاتی ہوں.
وہ مسکرا کر کہتیں، اس کپڑے سے زیادہ کی حیثیت نہیں ہے میری. میں اپنی حیثیت میں رہنا چاہتی ہوں یہاں.
ایک لفظ تک پڑھی ہوئی نہیں تھیں.
ان کے اور اماں کے بیچ کی گفتگو ہمیشہ میرے دل پر نقش رہی.
اماں نے پوچھا، تم جب اندر روضہِ مبارک پر جاتی ہو تو کیا پڑھتی ہو؟
کہنے لگیں، میں بس ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہوجاتی ہوں. دل ہی دل میں حضورﷺ کو مخاطب کرتی ہوں کہ سائیں! آپ کو تو پتہ ہے کہ میں ایک کنجری ہوں. پلیت ہوں. ہندو بھی تھی. ایک لفظ بھی نہیں پڑھی. آپ کے حضور کچھ بھی پیش کرنے کے لیے نہیں ہے میرے پاس. بس آپ میری حاضری قبول کر لیجیے.
وہ کہتی جارہی تھیں اور اماں روتی جارہی تھیں.
بات بات پر کہتی تھیں کہ میں تو کنجری ہوں. میری کیا حیثیت!
اماں اکثر پیار سے ڈانٹ دیتی تھیں کہ کیوں خود کو بار بار کنجری کہتی ہو! اللہ نے تمہیں اتنا عزت والا کیا ہے.
جواب میں وہ ایک بھیگی مسکراہٹ کے ساتھ کہتیں کہ خود کو اپنی اصلیت یاد دلاتی رہتی ہوں کہ کہیں بھول نہ جاؤں. کہیں تکبر مجھے کھا نہ جائے.
وہ جب تک زندہ رہیں، سادہ سے سادہ تر انداز کی زندگی گزارتی رہیں. نہ عبادت کرنا جانتی تھیں اور نہ مذہبی باتیں کرتی تھیں. صرف میلاد کرواتی تھیں سال میں ایک بار. اپنے ماضی کا تذکرہ آخری دم تک ساتھ ساتھ رکھتی آئیں. مگر میں نے زمانے میں ایسی عزت بہت ہی کم عورتوں کی دیکھی. بڑی بڑی امیر و کبیر اور پڑھی لکھی خواتین انہیں بی بی کہہ کر مخاطب کرتی تھیں اور ان کے پیر چھوُتی تھیں.
ایسا ہی ایک اور کردار اچانک یاد آگیا ہے ابھی یہ مضمون لکھتے ہوئے.
وہ بھی اپنے ماضی میں کنجری تھیں. کہتے ہیں سر پر بھرا جام رکھے یوں رقص کرتی تھیں کہ مجال ہے کہ جام زرا سا بھی چھلک جائے!
ایک زمیندار سید زادے نے ان سے شادی کرلی اور اپنے اونچی پگ والے خاندان میں لے آئے.
میں نے انہیں دور دور سے تو بہت دیکھا تھا مگر ان سے بھی قریبی ملاقات مدینے میں ہوئی. تب میں بھی شعور کی عمر کو پہنچ چکی تھی اور وہ گو کہ ابھی جوان تھیں مگر بیوہ ہوچکی تھیں. سفید سوتی کپڑوں پر ململ کا سفید دوپٹہ اوڑھتی تھیں.
مسجد نبوی میں روزانہ ساتھ ساتھ بیٹھتے اور نماز پڑھتے تھے.
میں اس زمانے میں منٹو کو پڑھ چکی تھی اس لیے مجھے ان کے لیے ایک تجسس بھری دلچسپی محسوس ہوتی تھی جو بظاہر میں چھپاتی تھی.
سجدے میں جاتیں تو دوبارہ سر نہیں اٹھاتی تھیں. رونے اور سسکیوں کی وجہ سے سجدے میں پڑا ان کا پورا وجود لرز رہا ہوتا تھا. پتہ نہیں کیوں یہ بات مجھے بہت پریشان کرتی تھی اور میں اکثر انہیں ہلکا سا جھنجوڑ کر سجدے سے چونکا دیتی. شاید انجانے میں مجھے ڈر سا لگتا تھا کہ کہیں وہ سجدے میں روتے روتے مر نہ جائیں!
ایک بار اسی کیفیت میں آنسوؤں بھرے چہرے کے ساتھ میری طرف دیکھ کر کہنے لگیں، تمہیں پتہ ہے میں کون تھی؟
گو کہ مجھے پتہ تھا مگر میں دم سادھے چپ رہی. وہ خود ہی بولیں.
میں کنجری تھی
میں بدستور دم سادھے انہیں دیکھتی رہ گئی مگر عین اس ایک لمحے مجھے منٹو کی کنجریوں کے اندر بستا بڑا انسان سمجھ آگیا.
پھر سمجھ آیا کہ کیوں بلھے شاہ کنجری بننا چاہتا ہے!
پھر جب میں نے خود نے سندھی میں کہانیاں لکھنا شروع کیں تو پتہ چلا کہ انجانے میں مجھے بھی کنجری کا کردار اور ایدھی کے جھولے میں پڑے انسانی خطاؤں کے بلونگڑوں کے کردار لکھنے کے لیے اپنی طرف کھینچتے ہیں.
سندھی میں لکھا میرا ایک جملہ آج بھی کہیں موجود ہے کہ مجھے حرامی بچوں سے پیار ہے.
یہ جملہ لکھتے وقت میری عمر اٹھارہ سال تھی اور پڑھنے والوں نے موٹے شیشے آنکھوں پر رکھ کر یہ جملہ پڑھا تھا. سوال اٹھے تھے کہ مجھے کیوں ناجائز بچوں سے پیار ہے؟
اماں نے رو رو کر سیاپا ڈال دیا اور بابا نے ہنس کر کہا کہ تم بھی لکھ دیتی ہو، جو جی میں آتا ہے! جواب میں، میں بس مسکرا دی.
اس کے بعد طویل تر عرصہ گزرا.
پچھلے دنوں جب مولوی صاحب کے ایدھی پر فقرے سنے تو مجھے ناجائز بچوں سے اپنا پیار یاد آگیا. کچھ لکھنا بھی چاہا مگر مجھ جیسا لکھاری منتظر رہتا ہے کہ الفاظ خود آئیں میرے پاس چل کر کہ مجھے لکھو. پھر میں لکھوں.
دو سال پہلے کسی جگہ ایک کہانی پڑھی …. نوراں کنجری.
کہانی تو اپنی جگہ خوبصورت تھی ہی مگر جس چیز نے میرے دل کو مٹھی میں جکڑ لیا وہ تھا کہانی کا عنوان ـــ نوراں کنجری.
ہر وقت دل سے یہ عنوان سرسراتا ہوا گزرتا محسوس ہوتا. نوراں کنجری …. نوراں کنجری …. نوراں کنجری.
برس ڈیڑھ پہلے کی سردیوں کی ایک رات میں بشریٰ اعجاز کے ساتھ لاہور میں ٹبی گلی والے فوڈکورٹ میں بیٹھی تھی. وہاں بیٹھے ہوئے مجھے نوراں کنجری کا عنوان، کنجری کے روحانی فلسفے کو محسوس کرواتا رہا.
میں نے بشریٰ اعجاز کو وہ کہانی سناتے ہوئے کہا کہ کتنی دلچسپ بات ہے کہ مسجد کے سائے میں ایک طرف جسم فروش طوائف کا بازار آباد ہوتا ہے اور مسجد کی دیوار کے عین دوسری طرف اقبال نامی شاعر بھی سو رہا ہے، جس کی شاعری سے دنیا عشقِ رسولﷺ کی لذت کشید کرتی ہے اور جو خدا سے کھل کر حجت بھرا شکوہ بھی کرتا ہے اور پھر اسی کی طرف سے اسی کا لب و لہجہ اختیار کرکے شکوہ کا جواب بھی دیتا ہے!
عرصے تک مسجد، بازار اور اقبال ساتھ ساتھ وقت کے بہاؤ میں بہتے رہے ہیں!
عجب حیرت کدہ ہے یہ جہاں!
ہیرامنڈی کی گلیوں میں بشریٰ اعجاز کے ساتھ قدم قدم چہل قدمی کرتے ہوئے میں خود کو نوراں کنجری کے عنوان کے ساتھ محسوس کرتی رہی اور مجھے غالب کا شعر نئے سرے سے نئے معنوں کے ساتھ یاد آگیا اور زیر لب ایک مسکراہٹ دیتا گیا کہ …… مسجد کے زیرِ سایہ اک گھر بنا لیا ہے ….. یہ بندهِ کمینہ ہم سایہِ خدا ہے…..
(ہمسائیگی کا بھی کیا کمال کا حق رکھا ہے خدا نے!)
ساتھ ہی ہمیشہ سے میرا پسندیدہ غالب کا شعر اپنے مزید معنی کھولتا چلا گیا مجھ پر کہ ….. ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر ….. کعبہ میرے پیچھے ہے، کلیسا میرے آگے!
ہاں تو میں بات کر رہی تھی نوراں کنجری کے عنوان کی. ایک دن میں نے یہی کہانی بیٹی کو سنانے کے بعد کہا کہ میں اس کے رائٹر سے اس عنوان کو استعمال کرنے کی اجازت لوں گی اور اس عنوان کے ساتھ ایک ڈرامہ سیریل لکھوں گی.
میری بیٹی ایکدم سے پریشان ہوکر اٹھ کر بیٹھ گئی. کہنے لگی، بلکل بھی نہیں. یہ آپ کے نام کا حصّہ ہے. سب آپ کو نور کہتے ہیں.
میں ہنس دی. میں نے کہا، اسی لیے تو مجھے یہ عنوان پرکشش لگتا ہے.
میں خود کو نوراں کنجری کے عنوان سے لکھ کر پرکھنا چاہتی ہوں کہ اپنی موجود سطح سے کتنا نیچے دکھتی ہوں میں خود کو!
میں اسے بتا رہی تھی کہ تصوف کا ایک درجہ ہے ملامت. صوفیوں نے خود کو محض اس لیے نہیں ملامت کے لیے پیش کیا کہ خود پر ملامت کروانے سے بہشت کے دروازے کھل جائیں گے اور حوریں استقبال کریں گی کہ ملامتی آگیا!
وہ اس لیے خود کو ملامتی کرتے تھے کہ ان کے اردگرد کے انسان گنہگاروں اور خطاکاروں کو سنگسار کرنے سے پہلے اپنے گناہوں اور خطاؤں کی پرکھ کریں. اپنے گریبان میں گردن ڈالنا سیکھیں اور اپنی گندگی کی بوُ سونگھا کریں کہ سنگسار مجھے ہونا چاہیے یا دوسروں کو!
افسوس ملامتی صوفی زمیں کے اندر جا سوئے اور صد افسوس کہ دوسروں پر ملامت کرنے والے ان کی جگہ اسی مسند پر آکر بیٹھ گئے اور مذہب کے نام پر سنگسار کے لیے پتھر اور کوئلہ بیچنے لگے!
مگر ابھی میں نے نوراں کنجری کے عنوان کے ساتھ کچھ لکھا بھی نہیں کہ میڈم نورجہان سے متعلق ایک مولوی صاحب کا مضمون نظر سے گزرا. سرسری نظر سے بس ایک بار دیکھتی چلی گئی اور حلق میں پھنسے کڑوے گھونٹ کو نگلتے ہوئے ایک جگہ ٹھہر گئی جہاں مولوی صاحب نے "نور" نام پر اعتراض کرتے ہوئے اللہ کی صفت نور اور نورجہان کے نام میں نور کا تقابلی جائزہ لکھا ہے.
اللہ معاف کرے.
مولوی صاحب کے منہ میں خاک.
گو کہ خود تو قبر میں جا سوئے اس طرح کی گستاخی لکھ کر لیکن اگر زندہ بھی ہوتے تو کونسا انہیں کوئی توھین مذہب کے الزام میں ٹھوکروں سے کُچلنے کی جسارت کرسکتا تھا! صاف دکھ رہا ہے کہ پتھر اور کوئلہ بیچنے کا کاروبار چمکانے کے لیے سنگسار کرنے کو شکار ڈھونڈتے تھے.
مگر جس وجہ سے میرا دل دھک سے ٹھہرا رہ گیا وہ یہ تھی کہ مجھے بھی سب نور بلاتے ہیں.
اللہ معاف کرے!
کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا!
میں جو آج کل نوراں کنجری کے عنوان کے ساتھ خود کو جوڑ کر انسانی ناپ تول میں اپنی حیثیت کی پرکھ کرتی رہتی ہوں.
مگر اس وقت فوری ردعمل میں، (میں اور فرشتہ) کے عنوان سے بس چند سطریں لکھ کر اپنی فیس بک وال پر لگا سکی تھی میں کہ ……………
میں نے اس سے پوچھا: گنہگاروں کی پہچان کیا ہے؟ تاکہ دنیا کو گنہگاروں سے پاک کیا جاسکے
اس نے کہا: ایک ترازو پکڑ. ایک پلڑے میں خود بیٹھ. دوسرے میں سارے گنہگار بٹھا. پھر اپنے گناہ گننا شروع کر اور ایک ایک کرکے گنتی چلی جا. گنتی چلی جا. جب تک تیرا پلڑا زمین سے لگ نہ جائے.
میں نے کہا: میں دوسرے گنہگاروں کی پرکھ پوچھ رہی تھی
وہ مسکرایا اور کہا: دوسرے گنہگاروں کو بندہ تب ڈھونڈتا ہے جب اس کے اپنے گناہ حد سے گزر جاتے ہیں. بندہ دوسرے گنہگاروں کو سزا دے کر اپنے گناہوں کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہے
میں نے پوچھا: اپنے گناہوں کا حساب کیسے ہو؟
اس نے کہا: گنہگاروں میں بیٹھا کر اور مسکرایا کر
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔