یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں عاصمہ جہانگیر کا دھواں دار خطاب جاری تھا۔ وقفے وقفے سے عاصمہ جہانگیر کی کسی اہم بات پر میں ڈیسک بجا کر ان کی باتوں کی تائید کر رہا تھا۔ میں جب ڈیسک بجاتا تو بھرے ہوئے آڈیٹوریم میں کچھ دوسرے لوگ بھی حوصلہ پا کر تالیاں بجانے لگتے۔ ان کے خطاب کے دوران، میں جب خوش ہو کر ڈیسک بجاتا تو میرے آگے والی نشست پر بیٹھی ہوئی دو خواتین مجھے پیچھے مُڑ کر دیکھ کے خوشی کا اظہار کرتیں۔ اُس وقت جب وہ سیمینار ابھی چل رہا تھا تو میں ان دو خواتین کے نام سے ناواقف تھا اور میں اس بات سے بھی بےخبر تھا کہ ایک سال بعد وہ مجھے تاریخ پڑھائیں گی. کلاس میں لیکچرز کے دوران میں ان کی کچھ باتوں سے اختلاف کرتے ہوئے بغیر کسی خوف کے اُن سے الجھوں گا، انہیں کہوں گا کہ نہیں میڈم ایسا نہیں ہے، یہ بات تاریخی طور پر مجھے درست محسوس نہیں ہو رہی، ایسا کیسے ممکن ہے۔ نہیں میں اس نظریے کو نہیں مان سکتا اور وہ مجھے کہیں گی "عاطف آپ سے تو بحث ہی بیکار ہے، آپ کیوں نہیں مان رہے اس بات کو، تاریخی طور پر اَس زمانے میں یہی ہوا تھا۔"
اُس وقت مجھے بار بار وہ پہلی ملاقات یاد آرہی ہے، جب میں ان کو جانتا نہیں تھا اور وہ میرے ڈیسک بجانے پر مسرور تھیں، انہیں اس بات کی بھی خوشی تھی کہ اسٹوڈنٹس میں کوئی تو ہے جو اس آڈیٹوریم میں جمعیت کے خوف کو پسِ پُشت ڈال کر عاصمہ جہانگیر کی حمایت کر رہا ہے۔
سیمینار ختم ہوا تو میں صائمہ کے ڈیپارٹمنٹ گیا، اسے حرف بہ حرف عاصمہ جہانگیر کے خطاب کی ساری روداد سنائی اور یہ بھی بتایا کہ آڈیٹوریم میں جمعیت کے اسٹوڈنٹس کا قبضہ تھا، کچھ نقاب پوش لڑکیاں حقارت سے مجھے تکتی تھیں جب میں عاصمہ جہانگیر کی کسی بات کی تائید میں ڈیسک بجاتا تھا اور پھر میں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ یہ جو خاتون ابھی تمہارے ڈیپارٹمنٹ میں آئی ہیں یہ بھی وہاں تھیں اور اتفاق سے یہ میری آگے والی نشست پر اپنی کسی دوست کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں، انہوں نے مجھے اس وقت دیکھ کر بیحد خوشی کا اظہار کیا تھا۔ میں نے اپنی بات ختم کی تو صائمہ نے مجھے بتایا کہ
"عاطف یہ میڈم نوین ہیں، ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں تاریخ کی استاد ہیں، بہت ہی بولڈ ہیں، عام استادوں سے ہٹ کر ہیں، پچھلے کچھ دنوں سے تو میں ان کے ساتھ اسلام سمیت دوسرے مذاہب کے بارے میں گفتگو کر رہی ہوں، آؤ میں تمہیں ان سے ملواتی ہوں۔ اور پھر صائمہ مجھے ان کے آفس روم میں لے کر گئی تھی۔"
آج اس بات کو گیارہ، بارہ برس بیت چکے ہیں لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کی یہ کل کی بات ہو۔ اور ہم لوگ میڈم نوین کے آفس میں ان سے عاصمہ جہانگیر کے آڈیٹوریم والے خطاب پر تبادلہ خیال کر رہے ہوں۔ اس کے بعد ہماری انگنت ملاقاتیں ہوئیں، دوسال تک ریگولر انہوں نے ہمیں پڑھایا، یونیورسٹی کی تعلیم ختم ہونے کے باوجود ہم لوگ کسی نہ کسی مسئلے پر ان سے ملتے رہے۔ شہر اور یونیورسٹی کے کسی بھی اہم اور سنسنی خیز موضوع پر ان کی رائے جان کر ہم ہمیشہ خوش ہوتے تھے… اور اب تو ہم یہ بھی نہیں کر پائیں گے کہ آپ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو چکی ہیں!!
دوہزار بیس کا اختتام ہو چکا ہے، آج تین جنوری دوہزار اکیس ہے۔ مجھے اس وقت دوہزار اٹھارہ کے دسمبر کی وہ سہانی شام یاد آرہی ہے، میری ٹیچر ارم نے مجھے فون پر بتایا تھا کہ ہم لوگ نئے سال کو خوش آمدید کہنے کے لیے اکتیس دسمبر کی شام کو میڈم نوین کے گھر پر جمع ہو رہے ہیں، کچھ نئے اسٹوڈنٹس ہوں گے، اگر تم فری ہو تو لازمی آنا۔ تمہارا وقت اچھا گزر جائے گا، ان کی بات سن کر میں نے فوراَ ہی حامی بھر لی تھی کہ ہاں میں ضرور آؤں گا۔
اکتیس دسمبر کی شام میں مِس ارم کے ساتھ جب میڈم نوین کے فلیٹ پر پہنچا تو وہاں عجیب ہی سماں تھا، کچن سے آنے والی مختلف کھانوں کی خوشبوئیں یہ بتا رہی تھی کہ میڈم نے خوب اہتمام کر رکھا ہے، کمرے کی دیواروں پر سجاوٹ کے لیے بھی رنگ رنگ کی جھنڈیاں، رِبن اور غبارے چار سو بکھرے ہوئے تھے۔ کچھ ہی دیر میں سب اسٹوڈنٹس آگئے تو پھر ہم سب نے مل کر کمرے کو نئے سرے سے سجایا تھا۔ میڈم نے ہم سب کے لیے فُل سائز کے مگ کو ٹافیوں سے بھر کر انہیں گفٹ پیپرز سے پیک کر دیا تھا اور جاتے وقت ہمیں یہ تاکید کی گئی تھی کہ ایک ایک مگ آپ لوگ اپنے ساتھ لے کر جائیں گے۔ وہ مگ آج بھی میرے پاس نشانی کے طور پر رکھا ہوا ہے اور اس میں بھری گئی ٹافیاں میں نے کچھ دنوں میں ہی کھا کر ختم کر دی تھیں۔ سال کی وہ آخری شام جب شب میں بدلی تو ہم لوگوں نے ڈنر کیا اور پھر دو گاڑیوں میں "سی ویو" کے لیے نکل گئے۔ راستے میں کہیں کہیں ٹریفک جام تھا لیکن اس کے باوجود ہم بارہ بجنے سے کچھ دیر پہلے "سی ویو" پر پہنچ گئے تھے۔ وہاں پر لوگوں کی بھیڑ تھی، ایک جم غفیر تھا جو غازی کے مزار سے ولیج اور اس سے بھی آگے تک پھیلا ہوا تھا۔ میڈم نوین اور ہم سب اس بات پر خوش تھے کہ شہر کے حالات اب اس قابل ہو گئے ہیں کہ ہم بلا خوف و خطر آرام سے گھوم پھر سکتے ہیں۔ ابھی یہی باتیں ہو رہیں تھیں کہ ایک دم پٹاخوں کی گونج دار آوازوں نے ہمیں چونکا دیا، پٹاخوں کی یہ آوازیں اس بات کا ثبوت تھیں کہ بارہ بج چکے ہیں اور دوہزار انیس کا آغاز ہو چکا ہے۔
میڈم نوین کو زندگی اور اس سے وابستہ ہر اُس چیز سے والہانہ محبت تھی جس سے ان کو خوشی ملتی تھی، اسی لیے وہ مختلف مذہبی تہوار کے ساتھ ساتھ ثقافتی تقریبات و تہواروں کو بھی شایانِ شان طریقے سے سیلیبریٹ کرتی تھیں۔ ہماری ایم اے کی کلاس کا ماحول قدامت پسندانہ تھا، زیادہ تر طالبعلموں کا رجحان مذہبی بنیاد پر تعصّب کا شکار تھا لیکن یہ میڈم نوین کی انتہائی روشن خیال فکر تھی کہ انہوں نے کلاس روم میں مذہبی ہم آہنگی و رواداری کا بیج بویا اور جب مارچ کا مہینہ آیا تو ہم سب نے اُن کے ساتھ مل کر نوروز کا تہوار بھی منایا۔ اُس دن مجھ سمیت بہت سے طالبعلم اپنی زندگی کا پہلا نوروز منا رہے تھے۔
یہ میڈم نوین ہی تھیں جنہوں نے ہر قسم کی مخالفت کے باوجود کلاس کے سب لڑکے، لڑکیوں کو اس بات کے لیے قائل کیا تھا کہ ہمیں بھی دنیا بھر میں جاری سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہونے والی "وال اسٹریٹ موومنٹ" کا حصہ بننا چاہیے، آج نہیں تو کل، اس جابرانہ نظام کا خاتمہ ہو کر رہے گا، آخر کب تک ہم آئسولیشن کا شکار رہ سکتے ہیں۔
یہ اکیسویں صدی کی نئی دنیا ہے، اگر آج کسی ایک ملک میں قیامت برپا ہو گی تو اس کا اثر یقینی طور پہ ہم پر بھی پڑے گا۔ مجھے ابھی تک یاد ہے وہ دن جب میڈم کے ان الفاط نے سارے ڈیپارٹمنٹ میں آگ لگا دی تھی، ایک کھلبلی مچ گئی تھی۔ ہم سب لڑکے، لڑکیاں میڈم کی رہنمائی میں سرمادارانہ نظام کے خلاف ہونے والے احتجاج کو حتمی شکل دینے کے لیے جُت گئے تھے، طالبعلموں کے گروپوں نے اپنے ذمے کام بانٹ لیے، کوئی میٹنگ ارینج کر رہا ہے تو کسی نے بینر اور پوسٹر بنانے کے لیے خود کو پیش کر دیا۔ ڈیپارٹمنٹ کی لائبریری اور کلاس روم میں جہاں دیکھو ہر کوئی سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ دینے کے خلاف سراپا احتجاج بنا بیٹھا تھا، میڈم نوین نے ہمیں اردو کے معتبر شاعروں کے وہ اشعار بھی بتائے جو سرمایادارانہ نظام کے خلاف تھے، میڈم کا کہنا تھا کہ یہ اشعار ہمارے پیغام کو دور دور تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کریں گے، اس لیے آپ لوگ ان اشعار کو ہرگز نظرانداز نہ کیجیئے گا۔ آخر وہ دن بھی آیا جب ہم سب لوگ اپنے اپنے احتجاجی بینرز اور پوسٹرز لیے صدر کی شاہراہ پر جمع ہوئے اور پریس کلب کی طرف مارچ کا آغاز کیا۔ اُس دن کئی لڑکے، لڑکیاں پہلی بار کسی سیاسی و سماجی تحریک کا حصہ بن کر یونیورسٹی کی محفوط چار دیواری سے نکل کر سڑکوں پر آئے تھے۔ اس بات کا بھی کریڈٹ میڈم نوین کو جاتا ہے کہ انہوں نے طالبعلموں کے جامد ذہنوں میں سیاسی شعور و مزاحمت کی شمع روشن کر کے انہیں عملی طور پر متحرک کر دیا تھا، وہ عملی طور پر کام کرنے کو ہی مقدم جانتی تھیں، انہیں ہمیشہ اس بات کو دیکھ کر دکھ ہوتا تھا کہ ہماری درسگاہوں میں اساتذہ بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں، بڑے بڑے موضوعات پر لیکچر دیتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ ہر اس چیز کی نفی کرتے ہیں جس کا اظہار وہ بذات خود اپنی تحریروں اور لیکچروں میں کرتے ہیں۔ بہت سے دانشور حضرات تو بےضمیری کی سی زندگی گزار رہے ہیں،
یہ ڈبل اسٹینڈرد ہیں اور انہی ڈبل اسٹینڈرڈ نے ہمارے معاشرے کو فکری طور پر مفلوج بنا کر رکھ ریا ہے۔ اس بات کا اظہار کر کے وہ بیحد دکھی ہو جاتی تھیں۔ میڈم نوین کلاس روم سے باہر بھی ہر وقت اپنے طالبعلموں کے لیے دستیاب رہتی تھی، ان کا کہنا تھا کہ میں ایک استاد ہوں اور اس حیثیت سے کلاس روم کے باہر بھی اگر آپ لوگ مجھ سے کسی بھی مضمون یا موضوع پر کچھ پوچھنا چاہیں تو میں حاضر ہوں اور اتوار کے دن آپ لوگ میرے گھر پر بھی آسکتے ہیں۔
میڈم نوین کو تاریخ میں عبور تو تھا ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ فن و ثقافت، موسیقی، جغرافیہ، مذاہب، جنس، صوفی ازم پر بھی دسترس رکھتی تھیں۔ ایک بار انہوں نے بہادری کا مظاہرہ کر کے جنس کے بارے ميں بیحد طویل لیکچر بھی دیا تھا، اس لیکچر کے مندرجات مذہبی صحیفوں اور ہماری نام نہاد اخلاقی قدروں سے میل کھاتے تھے لیکن انہیں رتّی برابر بھی اس بات کی پروا نہیں تھی کہ طالبعلم ان کے بارے میں کیا سوچیں گے۔ وہ تو برستی ہوئی بارش کی پہلی پھوار سے مہکتی ہوئی زمیںن کا وہ ٹکڑا تھیں جنہیں مہکنے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔
وہ تو برستی ہوئی بارش کی پہلی پھوار سے مہکتی ہوئی زمیںن کا وہ ٹکڑا تھیں جنہیں مہکنے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ وہ آخر وقت تک تاریک راہوں میں، درسگاہوں میں براجمان، طالع آزما، آمر نما دانشوروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مزاحمت کی لو کو روشن کیے ہوئے تھیں۔
الوداع میڈم نوین، الوداع!!