جب بھی افغانستان کا مسئلہ زیر بحث آتا ہے، ہمارے قوم پرست اور دانشور یہی رونا روتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان کی طرف سے افغانستان میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ کہنے اور سننے میں تو یہ نہایت مناسب بات ہے لیکن کیا اس کا حقیقت سے بھی کوئی واسطہ ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہرگز نہیں !
تاریخ کے وہ Known Facts جو پوری دنیا کو معلوم ہیں لیکن ہمارے قوم پرست ان کی طرف سے آنکھیں بند رکھتے ہیں، نئی نسل کی یاد دہانی کے لیے پھر سے پیش خدمت ہیں۔
افغانستان نام کا ملک قدیم تاریخ میں کوئی وجود نہیں رکھتا تھا۔ اسے اپنے وقت کی دو سپر پاورز یعنی روس اور برطانیہ نے انیسویں صدی میں اپنے درمیان ایک بفر زون کے طور پر بنایا تھا۔ اس وقت پاکستان موجود ہی نہیں تھا لیکن پھر بھی یہ ہمارا قصور ہے
افغانستان کی برطانوی ہند کے ساتھ سرحد کا تعین انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں ہوا (1893 – 1919) لیکن یہاں بھی ذمہ دار پاکستان ہے
پہلی جنگ عظیم کے بعد لیگ اَو نیشنز میں افغانستان نے کبھی ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ نہیں اٹھایا ۔۔۔۔ پاکستان نے منع کیا تھا
دوسری جنگ عظیم کے بعد افغانستان 19 نومبر 1946 کو اقوام متحدہ کا باقاعدہ رکن بنا لیکن اس نے یہاں بھی ڈیورنڈ لائن کا معاملہ نہیں اٹھایا ۔۔۔۔ پاکستان نے روکا تھا
عبدالغفار خان عرف باچا خان تین دہائیوں سے کانگریس اور گاندھی کا دم بھر رہے تھے لیکن اعلان آزادی ہند (3 جون پلان) سے پہلے انہوں نے کبھی ڈیورنڈ لائن کو مٹا کر افغانستان کو برٹش انڈیا میں شامل کرنے یا انگریزوں کی طرف سے پنجاب کو کاٹ کر بنائے گئے شمال مغربی سرحدی صوبے کو برٹش انڈیا سے الگ کر کے افغانستان میں شامل کرنے کا مطالبہ نہیں کیا۔ یہ مطالبہ پہلی بار قرارداد بنوں میں 21 جون 1947 کو سامنے آیا جب کانگریس باچا خان کو لفٹ کرائے بغیر تقسیم ہند کے منصوبے کو تسلیم کر چکی تھی۔ گویا متحدہ ہندوستان کی درجنوں قومیتوں میں رہنا قبول تھا لیکن پاکستان کی چار پانچ قومیتوں کے ساتھ نہیں
وہ افغانستان جو دہائیوں سے ڈیورنڈ لائن کو سرحد تسلیم کر چکا تھا، اسے قیام پاکستان کے بعد یاد آیا کہ پاکستان کو تسلیم نہ کر کے ڈیورنڈ لائن کو متنازعہ بنایا جانا چاہیے، شاید اس طرح کشمیر کی جنگ میں الجھا نوزائیدہ ملک انہیں کچھ علاقہ دے دے گا۔ اس مقصد کے لیے افغان حکومت نے پشتون قوم پرستوں اور علیحدگی پسندوں کو ہتھیار فراہم کرنے سلسلہ شروع کیا جس میں فقیر ایپی بھی شامل تھا۔ (بحوالہ افغانستانز پولیٹیکل سٹیبیلٹی از ڈاکٹر احمد شائق قاسم)۔ ان علیحدگی پسندوں کی مدد کے لیے افغان فوج سرحد پار سے گولہ باری بھی کرتی رہتی تھی جس کے جواب میں پاکستانی فضائیہ نے ایک افغان چوکی پر بمباری کی تو 26 جولائی 1949 کو افغان حکومت نے دعویٰ کر دیا کہ ڈیورنڈ لائن سرحد نہیں بلکہ ایک "تصوراتی اور خیالی لکیر" ہے۔ چونکہ اس وقت پاکستان اور بھارت دونوں ڈومینین سٹیٹس کے تحت تاج برطانیہ کے تحت تھے لہٰذا برطانوی حکومت نے افغانستان کو یاد دلایا کہ بین الاقوامی قوانین، ویانا کنونشن اور یو این چارٹر کے تحت ڈیورنڈ لائن ہی پاکستان اور افغانستان کی سرحد ہے اور اس کے بارے میں افغان دعوے محض رطب و یابس ہیں۔ شاید یہ پاکستان کی مداخلت تھی
افغان حکومت نے 1952 میں نہ صرف پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے بلکہ بلوچستان کے متعلق بھی دعویٰ کر دیا کہ یہ اس کا حصہ ہیں ….
If wishes were horses, beggars would ride
اس وقت پاکستان نے افغانستان میں کون سی مداخلت کی تھی؟ پچاس کی پوری دہائی میں افغانستان نے پشتون علیحدگی پسندوں کی حمایت اور مدد جاری رکھی۔ اس کام میں اسے بھارت کی آشیرواد بھی حاصل تھی۔ جب پئیرٹی کے اصول کے تحت مغربی پاکستان کو ون یونٹ بنایا گیا تو 30 مارچ 1955 کو افغان حکومت کے ایما پر کابل میں پاکستانی سفارتخانے، جلال آباد اور قندھار کے کونسلیٹس پر حملہ کر دیا گیا۔ اس کے جواب میں پاکستان نے بارڈر بند کر دیا جو اس برس ستمبر میں دوبارہ کھولا گیا۔ اس کے بعد بھی افغان حکومت اپنی حرکتوں باز نہ آئی یہاں تک 1960 میں پاکستان نے افغانستان کے لیے کراچی پورٹ کی سہولت ختم کر دی۔ یہ بھی شاید پاکستان کی افغانستان میں مداخلت تھی۔ افغان ہٹ دھرمی کے باعث حالات اس قدر کشیدہ ہوئے کہ 1961 میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع ہو گئے۔ یہ انقطاع 1963 سے 1965 کے درمیان بتدریج ختم ہوا۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد افغانستان کو پاکستان کی پوزیشن کمزور نظر آئی تو ایک بار پھر اس نے قوم پرستوں کی مردہ تحریک میں جان ڈالنے کی کوششوں کا آغاز کر دیا۔ ایک طرف "پختون زلمے" کے دہشت گردوں کی افغانستان میں تربیت اور انہیں اسلحے کی فراہمی شروع کی گئی تو دوسری جانب بلوچ علیحدگی پسندوں کو بھرپور مدد فراہم کی گئی۔ اس کام میں افغانستان کے ساتھ ساتھ بھارت اور سوویت یونین بھی شامل تھے۔ کوئی دانشور بتا دے کہ اس وقت تک پاکستان نے کسی ایک افغانی کو بھی کسی قسم کی تربیت دی تھی یا اسے افغان حکومت و ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر آمادہ کیا تھا؟ جب 9 فروری 1973 کو اسلام آباد کے عراقی سفارتخانے پر پاکستانی فورسز نے آپریشن کر کے روسی اسلحے کی بھاری کھیپ برآمد کی تو معلوم ہوا کہ پختون اور بلوچ علیحدگی پسندوں کو افغانستان کے ساتھ ساتھ سوویت یونین بھی سپورٹ کر رہا ہے۔ جب ان دہشت گردوں کے خلاف بھٹو حکومت نے فوجی آپریشن شروع کیا تو ان کے بڑے رہنماؤں نے فرار ہو کر افغانستان ہی میں پناہ لی تھی۔ یہ وہ پہلا موقع تھا جب بھٹو مرحوم نے یہ فیصلہ کیا کہ آئے روز کی افغان دخل اندازی کو روکنے کے لیے افغانستان کے اسلام پسندوں کی مدد کی جائے جو سوویت یونین کے زیر اثر افغان حکومت کو اندرونی طور پر مصروف رکھ سکیں۔ یہ افغان پالیسی جسے وزیر اعظم بھٹو، سیکرٹری خارجہ آغا شاہی اور فوجی قیادت نے طویل صلاح مشورے کے بعد وضع کیا تھا، آج بھی کار آمد ہے کیونکہ ہمیں مشرقی سرحد پر ایک بڑے دشمن کا سامنا ہے اور ہم اس دشمن کو اپنی مغربی سرحد پر بھی اثر رسوخ قائم کرنے کی کھلی اجازت نہیں دے سکتے۔
سردار داؤد کو انقلاب ثور میں قتل کر دیا جائے، نور محمد ترکئی، حفیظ اللہ امین، ببرک کارمل اور ڈاکٹر نجیب ایک دوسرے کو مارتے کاٹتے رہیں تو کیا یہ پاکستان کی مداخلت ہے؟ کارمل اور نجیب لاکھوں افغانوں کو قتل کر دیں تو کیا یہ پاکستان کا جرم ہے؟سوویت یونین افغانستان میں فوج اتار کر ہماری سرحد پر آ بیٹھے تو کیا یہ پاکستان کی مداخلت ہے؟ سوویت اور افغان سرکاری افواج پاکستان پر حملے کریں اور پینتیس لاکھ افغان مہاجرین یہاں آ بیٹھیں تو کیا یہ ہماری مداخلت ہے؟
افغانستان میں بھارتی رسوخ کے نتیجے میں کیا ہو سکتا ہے، اس کا عملی نمونہ گزشتہ بیس برس میں دیکھا گیا ہے جب افغان خفیہ ایجنسیوں، نام نہاد نیشنل آرمی، عبد الرزاق اچکزئی اور حمد اللہ محب جیسے بھارتی اور امریکی گماشتوں نے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے لیکن یہ مداخلت نہ تو قوم پرستوں کو نظر آتی ہے اور نہ دانشوروں کو۔ ان کے نزدیک بھارت جو افغانستان کا ہمسایہ بھی نہیں، وہ افغان حکومت اور اداروں میں نفوذ کر کے اپنا ایجنڈا پورا کرے تو جائز ہے لیکن اگر پاکستان جو افغانستان کے ساتھ طویل سرحد رکھنے والا پڑوسی اور افغانستان کی داخلی صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا فریق ہے، وہ اپنے مفادات کی حفاظت کرے تو یہ مداخلت ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...