احمد بہت ذہین تھا۔ ہمیشہ اپنی جماعت میں اول مقام سے کامیاب ہوتا تھا۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ کھیل کود و دیگر تفریحی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتا اور نمایاں کامیابی حاصل کرتا۔ احمد اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔ اس کے والدین اس کی تمام ضروریات اور خواہشات پوری کرتے تھے۔ احمد اپنے والدین کا فرمانبردار بھی تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے والدین کی عزت کرتا تھا نیز اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے ساتھ بھی اس کا سلوک اچھا تھا۔ انہیں صفات کی وجہ سے احمد سب کا لاڈلا تھا۔ لوگ ہر جگہ اس کی مثال دیتے تھے۔
احمد میں جہاں اتنی ساری خوبیاں تھیں وہیں ایک بڑی خامی بھی تھی اور وہ یہ کہ احمد کبھی کسی کی مدد نہیں کرتا تھا۔ اگر اس کے دوستوں کو بھی ہوم ورک وغیرہ میں کوئی دقت پیش آتی تو وہ ان کی مدد نہیں کرتا۔ کسی کی مدد کرنا شاید وہ اپنی شان کے خلاف سمجھتا تھا۔ احمد کی اس بری عادت سے اس کے والدین سخت نالاں تھے۔ وہ احمد کو بہت سمجھاتے لیکن سب بے سود۔ اس کے کانوں پر جوں تک نہ رینگتی۔ احمد کے والدین نے ہر ممکن کوشش کی کہ احمد اپنی اس خامی کو دور کریں تاکہ اس کی شخصیت ہر نقص سے پاک ہوجائے اور وہ یقیناً ایک مثالی انسان بن جائے۔ لیکن انہیں کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ تھک ہار کر احمد کی امی نے اس کے لیے دعائیں کیں اور فیصلہ اللہ کے حوالے چھوڑ دیا۔
سالانہ امتحان قریب تھے۔ احمد بڑے زور و شور کے ساتھ امتحان کی تیاریوں میں لگا ہوا تھا۔ اس بار بھی وہ اپنی جماعت میں اپنے اول مقام کو برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ لیکن ایک دن اچانک احمد کی طبیعت خراب ہوگئی۔ اس کی طبیعت اتنی زیادہ خراب ہوئی کہ وہ دو ہفتہ تک اسکول نہ جا سکا۔ اسکول کا کام بھی ادھورا رہ گیا۔ اس نے اپنے دوستوں سے بیاضیں مانگیں تو انہوں نے اسے دینے سے انکار کر دیا کیونکہ احمد بھی ان کی مدد نہیں کرتا تھا۔ اب احمد کو احساس ہوا کہ جن کی مدد نہ کی جائے تو انہیں کتنا برا محسوس ہوتا ہے۔ امتحان کو صرف ایک ہفتہ باقی تھا اور احمد کی تیاریاں مکمل نہیں تھیں۔ وہ امتحان میں فیل ہو گیا۔ اپنا رزلٹ دیکھ کر دہاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ کبھی احمد کی والدہ نے اسے جگا دیا۔
" کیا ہوا احمد بیٹا! تم نیند میں کیوں رو رہے تھے؟" انہوں نے احمد سے رونے کی وجہ پوچھی۔ احمد نے انہیں اپنا خواب کہہ سنایا۔ اس کی والدہ مسکرا دی اور کہنے لگی۔ "میں تو تمہیں ہمیشہ یہی بات سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں نا کہ ہمیں دوسروں کی مدد کرنی چاہیے نا کہ ہمیں دوسروں کی مدد کرنی چاہیے تاکہ ضرورت کے وقت دوسرے بھی ہماری مدد کریں۔"
"جی امی جان۔ اب میں سب کی مدد کروں گا، کسی کو ناراض نہیں کروں گا۔ تاکہ دوسرے بھی ضرورت کے وقت میرے کام آئیں۔" احمد نے عزم کیا۔
یہ سن کر اس کی امی کو بہت خوشی ہوئی۔ "بہت اچھے۔ چلو، اب اٹھو۔ ناشتہ کرلو."
احمد روزانہ شام کو اپنا گھرکام مکمل کرنے کے بعد اپنے دوستوں کے ساتھ قریب کے میدان میں کھیلنے کے لئے جایا کرتا تھا۔ حسبِ معمول ایک دن وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل ہی رہا تھا کہ اس کا ایک دوست فہد بھاگتے بھاگتے گر پڑا اور اسے گھٹنے میں سخت چوٹ آئی۔ احمد نے جب یہ ماجرا دیکھا تو دوڑ کر فہد کے پاس آیا۔ اس کی چوٹ دے کر احمد فکرمند ہو گیا گویا فہد کی چوٹ کا درد اسے بھی ہوا ہے۔
" میں اپنے گھر سے فرسٹ ایڈ بکس لے آتا ہوں۔" احمد نے کہا اور دوڑ کر گھر سے فرسٹ ایڈ بکس لے آیا۔ احمد نے فہد کی مرہم پٹی کی۔
" شکریہ احمد۔ اب میں کافی بہتر محسوس کر رہا ہوں۔" فہد نے احمد کا شکریہ ادا کیا۔ اور سب مل کر کھیلنے لگے۔ کچھ دیر بعد کھیل ختم کر کے سب اپنے اپنے گھر چلے گئے۔
" امی جان! ابو ابھی تک گھر نہیں لوٹے؟" احمد گھر پہنچا تو اس نے اپنے والد سے سوال کیا۔
"نہیں بیٹا۔ حالانکہ اب تک تو انہیں آجانا چاہیے تھا۔" اس کی امی نے جواب دیا اور گھر کے کاموں میں مشغول ہو گئی۔
تقریباً آدھے گھنٹے بعد ان کے گھر کے باہر ایک ٹیکسی آکر رکی جس سے اس کے والد اترے۔ ان کے ایک ہاتھ پر پلاسٹر بندھا ہوا تھا۔ اپنے ابو کی یہ حالت دیکھ کر احمد گھبرا گیا اور دوڑ کر ان سے لپٹ گیا۔ اس کے والدہ بھی فکر مند ہو گئی۔
" یہ سب کیا ہوا اور کیسے ہوا، ابو؟" اُس نے پوچھا۔
" بیٹا! گھر میں چلو۔ اطمینان سے بتاتا ہوں۔" وہ مسکرا دیے۔
" میں آفس سے لوٹ رہا تھا کہ ایک تیز رفتار کار نے میری بائک کو ٹکر مار دی جس سے میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ ایک بھلے راہگیر نے مجھے دیکھا اور فوراً اسپتال پہنچایا۔ ہسپتال سے پلاسٹک بندھوا کر گھر آیا ہوں۔"
احمد کو یاد آ گیا۔ آج اس نے اپنے دوست فہد کی مدد کی تو کسی نے اس کے ابو کی مدد کی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا۔ کسی کی مدد کرنے کا صلہ اتنی جلدی ملے گا، اسے امید بھی نہیں تھی۔ احمد نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا۔ اور ہمیشہ لوگوں کی مدد کرنے کا پختہ عزم کیا۔ اللہ نے احمد کی والدہ کی دعا بہت جلد قبول کر لی تھی۔
ساتھیو! ہمیں ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنی چاہئے۔ ہمارے ذریعے کی گئی یہ اچھائی کسی نہ کسی صورت میں لوٹ کر ہمارے پاس آتی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...