محمدﷺ تو یہ چاہتے تھے کہ بنی نوع انسان کو ایک اعلیٰ درجے کے کلچر اور تہذیب سے روشناس کرایا جائے۔ اگر مغربی معاشرے کی تعمیر اسلام کی بنیاد پر ہوتی تو یورپ میں دہریے ہوتے نہ سوشلسٹ!
عورت کی حیثیت ملکیت کی تھی۔ یہ محمدﷺ تھے جنہوں نے اسے مالک بنا دیا!
یہ اقتباسات جی ڈبلیو لائٹنر (G.W.Leitner) کی تحریروں سے ہیں۔ ہنگری میں پیدا ہونے والا لائٹنر یہودی الاصل تھا۔ آٹھ سال کی عمر میں وہ قسطنطنیہ کے ایک مدرسہ میں داخل ہوا۔ دس سال کی عمر میں اسے ترکی اور عربی زبانوں پر عبور حاصل ہو چکا تھا۔ پندرہ سال کی عمر میں جب وہ برطانوی فوج میں ترجمان مقرر کیا گیا تو اس کا عہدہ کرنل کا تھا۔ پچاس زبانوں سے اس کا تعلق تھا جن میں بہت سی وہ روانی سے بولتا تھا۔ انیس برس کی عمر میں وہ عربی‘ ترکی اور جدید یونانی زبان کا لیکچرر ہو گیا۔ لندن کے کِنگز کالج میں جب وہ عربی اور اسلامی قانون کے شعبے میں فُل پروفیسر بنا تو 23 برس کا تھا!
یہ تھا گورنمنٹ کالج لاہور کا آغاز‘ کیونکہ یہی لائٹنر گورنمنٹ کالج لاہور کا پہلا پرنسپل تھا!
پنجاب یونیورسٹی کو بھی اُسی نے قائم کیا۔ اس نے لاتعداد ادبی اور علمی انجمنیں بنائیں۔ لائبریریوں کی بنیادیں رکھیں۔ تحقیقی جریدوں کا اجرا کیا۔ برصغیر کی زبانیں سیکھیں۔ اردو زبان میں دو جلدوں میں تاریخِ اسلام تصنیف کی۔ گورنمنٹ کالج اور پنجاب یونیورسٹی میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر سکالرز اور فضلا کو لایا۔ محمد حسین آزاد نے صرف اُس کے کہنے پر اورینٹل کالج میں پڑھانا شروع کیا۔ گھوڑے پر سوار ہو کر آتے تھے اور راہ چلتے‘ دونوں طرف شاگرد ہوتے جنہیں پڑھاتے جاتے۔
ایک ملٹری ڈکٹیٹر کا پوتا جب وزیر بنا تو ایک معروف کالم نگار نے دلچسپ تبصرہ کیا کہ موصوف تیسری نسل تک گھِستے گھِستے کیسے ہو گئے ہیں۔ یہی حال گورنمنٹ کالج لاہور کا ہوا ہے۔ کہاں جی ڈبلیو لائٹنر‘ محمد حسین آزاد‘ پروفیسر آرنلڈ‘ علامہ اقبال‘ پطرس بخاری اور کہاں زوال کی یہ کیفیت کہ یہ ادارہ حاکمِ وقت کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کر رہا ہے۔ پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے۔ حالی نے مسدس کے آغاز میں یونہی تو نہیں کہا تھا ؎
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جذر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے
اس کارِ خیر کا آغاز کراچی یونیورسٹی نے گزشتہ حکومت کے دوران کیا‘ جب اُس وقت کے وزیرداخلہ کو‘ جن کا تعلیم سے اور تعلیمی اداروں سے ’’گہرا تعلق‘‘ ڈھکا چھپا نہیں تھا‘ ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے کہ جن کا تعلق دانش اور شاعری سے تھا‘ دانش اور شاعری دونوں کو ٹھوکر ماری اور ببانگِ دہل وزیر صاحب کو ڈاکٹر بنایا‘ صرف اس لیے کہ وزیر صاحب لندن میں مقیم ایک سیاستدان کی خدمت میں اکثر و بیشتر حاضری دیتے تھے۔ عصبیت بھی کیا شے ہے! اچھے اچھوں کو ہوش بھلا دیتی ہے!!
گورنمنٹ کالج لاہور نے پہلا تیر تو اپنے سینے پر یہ مارا کہ اپنے نام کو بیک وقت کالج اور یونیورسٹی میں تبدیل کردیا۔ یعنی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی۔ عقل مند اسے تناقض فی الاصطلاح کہتے ہیں یعنی Contradiction in Terms۔
ادارے کے سپوتوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ گورنمنٹ کالج لاہور کی اہمیت اس کے تاریخی ہونے میں ہے۔ روایت اور تاریخ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کئی یونیورسٹیاں بھی اس گورنمنٹ کالج کا مقابلہ نہیں کر سکتیں جو 1864ء میں قائم ہوا اور ایک روایت کی رُو سے موجودہ عمارت میں 1871ء میں منتقل ہوا۔ خیر گورنمنٹ کالج لاہور جانے اور اُس کے ورثا!
تاہم اتنا کہنے کی اجازت دی جائے کہ عظیم الشان ماضی رکھنے والے اس ادارے پر جو ادبار آیا ہے‘ اس کی ایک وجہ اس کے فارغ التحصیل حضرات کا عمومی تکبر اور نخوت بھی ہے۔ یہ حضرات کسی دوسرے ادارے کے فارغ التحصیل افراد کو‘ جہاں جہاں ان کا بس چلے‘ خاطر میں نہیں لاتے رہے۔ خاص طور پر
سول سروس میں… خواہ سول سروس کے امتحان اور انٹرویو تھے‘ یا بعد میں تعیناتیاں اور ترقیاں۔ اس مُک مکا اور تعصب میں ایک بڑے شہر کی وہ برادری بھی شامل ہو گئی جو کسی زمانے میں اٹک کے اُس پار سے آئی تھی اور جس کی قابلِ احترام خواتین‘ اندرونِ شہر‘ لڑائی جھگڑے کرنے کے لیے معروف تھیں! یہ ایک Unholy Alliance تھا جس نے پاکستان سول سروس کے تمام شعبوں کو اپنی گرفت میں لیے رکھا۔ یہ فقیر تو ڈھاکہ یونیورسٹی کا پڑھا ہوا ہے جس پر اُسے فخر ہے کہ ہندو اسے تمسخر سے مکہ یونیورسٹی کہا کرتے تھے‘ ہم مشرقی پاکستان والوں کو تو یوں بھی کچھ نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن اس ادارے کے نام لیوائوں نے دوسرے اداروں سے تعلق رکھنے والوں سے بھی ہمیشہ تعصب ہی برتا۔ کراچی یونیورسٹی‘ پشاور یونیورسٹی‘ ایڈورڈ کالج‘ اسلامیہ کالج پشاور‘ گورنمنٹ کالج راولپنڈی‘ اسلامیہ کالج لاہور… ان تمام اداروں کے متعلقین سے‘ جہاں جہاں اونچی ذات والے بیٹھے تھے‘ خوب خوب ’’حسنِ سلوک‘‘ کیا گیا! نہ جانے واقعہ ہے یا لطیفہ کہ جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان آئے اور کام شروع کیا تو ایک سی ایس پی کی بیوی نے اسلام آباد کلب میں بیٹھ کر تبصرہ کیا کہ سنا ہے‘ قدیر خان بہت لائق فائق ہے‘ اگر اتنا ہی لائق تھا تو سی ایس پی کیوں نہ بنا۔ یہاں بھی یہی حال تھا کہ فلاں اگر اتنا ہی لائق ہے تو گورنمنٹ کالج لاہور کا پڑھا ہوا کیوں نہیں؟
ضمیر جعفری نے کہا تھا ؎
کوئی رومی، کوئی غالبؔ، کوئی اقبال پیدا کر
کہ شہروں کی بڑائی اُن کے میناروں سے ہوتی ہے
گورنمنٹ کالج لاہور نے اگر اپنے کسی اولڈ بوائے کو اعزازی ڈاکٹریٹ دینا ہی تھی تو کیا صاحبِ اقتدار ہونا ہی معیار تھا؟ اس سے بہتر تھا کہ محترمہ بیگم صاحبہ کو اس اعزاز سے نوازا جاتا جن کا علم و ادب سے تعلق تو ہے!
نہیں معلوم یہ اعزاز پطرس کو دیا گیا تھا یا نہیں‘ جنہوں نے اس ادارے کی خدمت کرنے کے علاوہ سفارت کاری اور انگریزی اور اردو نثر نگاری میں جھنڈے گاڑے‘ ڈاکٹر محبوب الحق بھی… جن کی کتابیں دنیا کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں‘ مستحق نہ گردانے گئے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی خدمات سائنس میں بے مثال ہیں اور جسٹس ایم آر کیانی جنہوں نے اس وقت کلمۂ حق بلند کیا جب ایوب خان کی آمریت اور کالاباغ کی نوابی نے ہونٹ سی دیے تھے اور دماغ سُن کر دیے تھے۔ یہ سب لوگ گورنمنٹ کالج ہی سے تھے لیکن افسوس ان میں سے حکمران کوئی نہ تھا!
گورنمنٹ کالج لاہور کو یہ بھی معلوم نہیں کہ عہدِ حاضر میں اردو کا عظیم ترین غزل گو اسی ادارے میں پڑھتا رہا۔ حسد اور بے توفیقی اعتراف نہ کرنے دے تو الگ بات ہے ورنہ اس حقیقت کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ ظفر اقبال اردو غزل کے زندہ لیجنڈ ہیں۔ اردو دنیا جہاں جہاں بھی ہے‘ ان کی مرہونِ احسان ہے۔ اقلیمِ سخن کا یہ بے تاج بادشاہ راوین ہے۔ کیا عجب ظفر اقبال حاکمِ وقت ہو جائیں تو ان کا گورنمنٹ کالج لاہور اُن کی عظمت کو تسلیم کر لے!