مچھلیوں کو عام طور پر زیادہ ذہین نہیں سمجھا جاتا۔ یہ بھی کئی بار کہا جاتا ہے کہ گولڈ فش کی یادداشت تین سینکنڈ تک کی ہوتی ہے لیکن یہ غلط ہے۔ یہ خیال کیوں عام رہا؟ کیونکہ مچھلیوں کا دماغ ہمارے دماغ سے بڑا مختلف ہے۔ ریڑھ کی ہڈیوں والے جانوروں میں مچھلیاں سب سے پرانی ہیں اور باقی ریڑھ کی ہڈی والی جانوروں سے کئی سو ملین سال قبل الگ ہو گئی تھیں۔ اس الگ ہو جانے کے بعد یہ بس ویسے ہی نہیں رہیں۔ ان کی دماغی صلاحیت بھی بہتر ہوتی رہی ہے۔
مچھلیوں کے دماغ میں نیوکورٹیکس نہیں۔ یہ ممالیہ کے دماغ کا باہری حصہ ہے جو بڑے سائز کا شکنوں والا حصہ ہے۔ انسانوں میں پلان بنانا، ایسٹریکٹ سوچنا اور مسائل حل کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔ اس کے بغیر خیال یہ رہا کہ مچھلیاں ایسا کام کر ہی نہیں سکتی ہوں گی۔ لیکن پچھلی چند دہائیوں میں محققین نے ان کی ذہانت کو کئی نئے طریقوں سے ٹیسٹ کیا ہے اور مچھلیاں ان امتحانوں میں اچھا سکور حاصل کرتی رہی ہیں۔
گولڈ فش کی طرح کی مچھلی کوئے، جو تالابوں میں رکھی جاتی ہے۔ اس کو رکھنے والوں کا کہنا تھا کہ یہ پہچان سکتی ہے کہ کس وقت ان کو کھانا کہاں سے ملے گا۔ اس کو ٹائم پلیس لرننگ کہا جاتا ہے۔ سائنسدانوں نے تجربہ کیا تو یہ بات ٹھیک نکلی۔ اگر ان کو صبح تالاب کے ایک طرف کھانا ملے اور شام کو تالاب کے دوسری طرف تو یہ اس پیٹرن کو پہچان لیتی ہیں۔ ٹھیک وقت میں ٹھیک جگہ پر کھانا ملنے کا انتظار کرتی ہیں۔
مچھلیاں پالووین لرننگ بھی کر سکتی ہیں جس طرح کتے اور کچھ اور جانور کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ کہ جاندار ایک چیز کے ساتھ دوسرے کو منسلک کر لے۔ جیسے پاولوو نے تجربے میں کتوں کو گھنٹی کی آواز اور کھانے کے ساتھ کیا تھا۔ چند مرتبہ کی دہرائی کی بعد کتے گھنٹی کی آواز سنتے ہی کھانے کے توقع کرنے لگتے تھے۔ رین بو مچھلی نے روشنی ہو جانے کا کھانا ملنے کے ساتھ رابط صرف چودہ مرتبہ دہرائے جانے کے بعد ہی سیکھ لیا۔ چوہوں نے اس کو چالیس مرتبہ دہرائے جانے کے بعد سیکھا۔
اور یادداشت: یہ تین سیکنڈ سے کافی زیادہ ہے۔ ایک جال میں سوراخ کونسی جگہ پر ہے؟ اس چیز کو رین بو فش نے تجربے میں ایک سال بعد بھی یاد رکھا تھا۔ (اس مچھلی کی پوری زندگی ہی دو سال ہے تو ایک سال خاصا لمبا عرصہ ہے)۔
نہ صرف یادداشت بلکہ کئی مچھلیاں سیکھ بھی جلدی جاتی ہیں۔ 2012 میں کئے گئے ایک تجربے میں ریسرچرز نے راسس مچھلیوں، کاپوچن بندروں، چمپینزیوں اور اورنگاٹن کو سیکھنے کا ایک ہی ٹیسٹ دیا۔ اس میں دو الگ رنگ کی پلیٹوں میں برابر کھانا رکھا گیا تھا۔ ان میں سے ایک رنگ کی پلیٹ ایسی تھی جس میں سے اگر وہ پہلے کھا لیتے تو دوسری پلیٹ ہٹا دی جاتی۔ انہوں نے سیکھنا تھا کہ ٹھیک رنگ کی پلیٹ سے پہلے کھائیں۔ مچھلیوں نے یہ سب سے پہلے سیکھا، پرائیمیٹ میں سے زیادہ تر یہ سیکھ ہی نہیں سکے۔ جب ریسرچرز نے ان پلیٹوں کے رنگوں کو الٹا کر دیا تو ایک مرتبہ پھر یہ مچھلیاں سب سے پہلے پہچان گئیں کہ پیٹرن بدل گیا ہے۔ اس کو ریورسل لرننگ کہتے ہیں۔ یہ خاصیت زیادہ ذہانت کے ساتھ وابستہ ہے۔
مچھلیاں جگہوں کی پیچیدہ پہچان کو بھی یاد کر لیتی ہیں۔ اس کو کوگنیٹو میپ کہا جاتا ہے، جس طرح آپ کو اپنے ارد گرد کی جگہوں کا نقشہ یاد ہو جاتا ہے۔ جزائر غرب الہند میں لہروں والے تالابوں میں رہنے والی فرلنگ گوبیز مچھلی اس کی مثال ہے جس کو تالابوں کی ٹھیک ٹھیک جگہ یاد رکھنا ہوتی ہے۔ مچھلیوں نے چالیس دن بعد بھی ہمسایہ تالاب کی جگہ یاد رکھی تھی۔ خوراک، شکاری، چھپنے کئ جگہ اور جنسِ مخالف سے تعلق رکھنے والوں کا مقام یاد رکھنے میں یہ خشکی کے جانوروں سے کم مہارت نہیں رکھتیں۔
ذہانت کے لئے ایک اور پیمانہ جو ہم استعمال کرتے ہیں، وہ اوزار کا استعمال ہے۔ یعنی کسی ایسی چیز کا استعمال جس کی مدد سے وہ کام کیا جا سکے جو صرف اپنی جسمانی قوت سے نہ ہو سکتا۔ اور کئی مچھلیاں اوزار کا استعمال بھی کرتی ہیں۔ راس مچھلی کی کئی انواع پتھروں کی مدد سے سمندری ارچن کو کھولتی ہیں۔ تارہ پانی کی کچھ مچھلیاں، جیسا کہ ککلڈ یا کیٹ فِش اپنے انڈوں کو کسی پتے یا پتھر کے ساتھ چپکا دیتی ہیں تا کہ اگر کبھی دوسری جگہ پر جانا ہو تو یہ پتہ ساتھ لے کر جانا آسان ہو۔
مچھلیاں اعداد کا ادراک رکھتی ہیں۔ کم کونسا ہے اور زیادہ کونسا، یہ بتا سکتی ہیں۔ اس کو نمیریکل کمپی ٹینیسی کہا جاتا ہے۔ اس پر ہونے والی حالیہ تحقیق میں نقطوں والے کارڈ استعمال کئے گئے۔ اس کے بعد گولڈ فش کو تربیت دی گئی کہ وہ سب سے زیادہ نقطوں والا کارڈ چنے یا سب سے کم نقطوں والا۔ بہت سی پریکٹس کے بعد یہ گولڈ فش 91 فیصد ایکوریسی کے ساتھ ایسا کر سکتی تھیں۔ دس سے پندرہ نقطوں کے درمیان تمیز کر سکتی تھیں۔ یہ دوسرے پرائمیٹ جانوروں جتنا اچھا نتیجہ تھا۔
مچھلیاں ایک دوسرے کی پہچان کر سکتی ہیں، دوسروں کو یاد رکھ سکتی ہیں اور اپنے ساتھیوں سے سیکھ سکتی ہیں۔ کچھ دوسری انواع کے ساتھ بھی تعاون کر سکتی ہیں۔ اس کا ایک متاثر کن کیس بحیرہ احمر میں گروپر کا مورے ایل کے ساتھ مل کر شکار کرنا ہے۔ ایل دن میں سوتی ہیں۔ گروپر اپنے شکاری ساتھی کو غار میں جا کر سر خاص طریقے سے ہلا کر سوتے سے اٹھائیں گی۔ یہ دونوں مل کر ریف کو نکلیں گے۔ مورے چھوٹی مچھلیوں کو ڈرا کر گھر سے باہر نکالتی ہے، گروپر ایسی مچھلیوں کا کھلے پانی میں شکار کرتی ہے۔ جبکہ جو مچھلیاں گروپر سے ڈر کر کونوں میں چھپ جاتی ہیں، وہ مورے کا نشانہ بن جاتی ہیں، ۔
گروپر شکار میں کئی بار آکٹوپس اور راس مچھلی کو بھی بلا لیتی ہے اور اپنے ساتھیوں کو سر کے اشارے سے بتاتی ہے کہ شکار کہاں پر ہے۔ یوں تعلقات بنانا سوشل کوگنیشن ہے جو دوسروں کو سمجھنا اور ان کے ساتھ معاملات کرنے کی صلاحیت ہے۔
مچھلیاں دوسروں کو پہچان سکتی ہیں لیکن کیا خود کو بھی؟ کسی جانور کے لئے یہ “آئینے کا امتحان” ہے۔ خود کا ادراک ہونا ایک ایبسٹریکٹ حس ہے۔ آئینہ دکھانے پر مانٹا رے کچھ غیرمععولی حرکتیں کرنے لگیں۔ بلبلے بنانے لگیں۔ اپنے فِن کھولنے اور بند کرنے لگیں۔ دوسری مچھلیوں کو دیکھ کر یہ ایسے حرکتیں نہیں کرتیں۔ ریسرچرز کا خیال ہے کہ یہ مچھلی کے چیک کرنے کا طریقہ ہے کہ “یہ کہیں میں تو نہیں؟” حال میں کلینر ریس کو آئینے دئے گئے اور انہوں نے بھی یہ امتحان پاس کر لیا۔
لگتا یہی ہے کہ مچھلیاں بھی اتنی ہی ذہانت رکھتی ہیں جتنی کے دوسرے غیرانسانی ریڑھ کی ہڈی والے جانور۔ ممالیہ اور پرندوں کی طرح یہ خاصی ذہانت کا مظاہرہ کر سکتی ہیں۔ خاص طور پر وہ مچھلیاں جن کی پیچیدہ سوشل لائف سٹائل ہیں۔
اس کو پہلے کیوں نہیں دیکھا گیا؟ ہم ہر چیز کو انسانوں کے موازنے میں دیکھنے کے عادی ہیں۔ اسی وجہ سے طے کر لیتے ہیں کہ کونسے جاندار دوسروں سے زیادہ سمارٹ ہوں گے۔ ابھی بھی ہم ذہانت کے ٹیسٹ میں معیار اپنی ذہانت کو بناتے ہیں کہ کون ہم سے زیادہ قریب ہے۔ لیکن ذہانت سبجیکٹو ہے۔ جب ہم اپنے امتحانات کو بدلتے ہیں تو پتا لگتا ہے کہ ہر قسم کی انواع ایسی کوگنیٹو صلاحیتیوں کا مظاہرہ کر لیتی ہیں جو بالکل غیرمتوقع ہیں۔
اب سوال یہ بن جاتا ہے کہ بغیر نیوکورٹیس کے، مچھلیاں کیسے یہ کوگنیٹو فنکشن کر سکتی ہیں؟ ان میں فور برین تو موجود ہے جو ممالیہ کے فوربرین سے چھوٹا ہے اور کم پیچیدہ بھی۔ اس چھوٹے سے دماغ سے ایسے فنکشن کیسے کر لیے جاتے ہیں۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈ کر سائنسدان یہ جان سکتے ہیں کہ دماغ کام کیسے کرتا ہے۔ ہمارا بھی۔
یہ اس ویڈیو سے