اپنے دوست سید واجد علی کے نام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
مابعد جدیدیت جہاں فلسفیانہ مباحث کا نام ہے وہی ایک ردعمل کا نام بھی ہے ۔ جب دنیا پر مہابیانہ (Meta Narrative / Discourse) حکومت کیا کرتے تھے۔ وقت کے مخصوص لمحے ۔ ایک اکثریت جماعت ہوتی تھی اس کے مقابل اقلیت جماعت ہوتی تھی ۔ اُس معاشرے /علاقے میں موجود اقلیت کی ایذا رسانی /جمود/دیوار کے ساتھ لگانے/حاشیے کی طرف گھسیٹنے کے ردعمل سے انقلاب برپا ہوتا تھا جبکہ مخالفین اپنے مخالفین کیلیے وہی اختلافی نظام متعارف کراتے تھے پھر اُسی کی تبلیغ کی جاتی ہے اس میں بھی وہی ایذارسانی مواد موجود ہوتی تھی جس کی وجہ سے انقلاب برپا ہوا تھا اور اس انقلاب سے انسان اور انسانیت دونوں کی قربانی دی جاتی رہی صرف اور صرف مہابیانیے کیلیے۔ نتیجۃ انسان قدرت سے بھی دور ہوتا گیا۔ ان قربانیوں سے معاشرے میں دہشت پنپتی رہتی ہے اس دہشت کو ختم کرنے کیلیے مابعد جدیدی ردتشکیلیت Deconstruction کی بات کرتے ہیں ۔ فوکو کے نزدیک اصل مسئلہ طاقت کا ہے ۔معاشرہ جس طرف توجہ کرتا ہے اس پر طاقت بھی صرف کردیتا ہے اور وہی چیز ترقی بھی کرتی ہے
لیوتارڈ نے مابعدجدیدیت کو نتائجیت پسند دیکھنا چاہتا ہے کیونکہ یہ طریق کار ہمیں غلامانہ تقلید، غیر تنقیدی انداز نظر اور مہابیانیوں سے بچاتا ہے۔مابعد جدیدیت چھوٹے چھوٹے بیانیوں Mini Narrativesکو رواج دینے کی بات کرتے ہیں۔عام فہم میں "جو جہاں لگا ہوا ٹھیک ہے /اپنا مذہب چھوڑو نہیں دوسروں کو چھیڑوں نہیں"۔ مابعد جدیدیت کے رہنما خانہ بدوشی کو کسی سماجی نظریے کے تابع نہیں دیکھتے
ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے ناصر عباس نئیر کی کتاب"مابعد جدیدیت " سے مابعد جدیدیت کا خلاصہ درجہ ذیل نقات میں نقل کرتے ہیں
۱۔ جو تجربہ مقامی ہے، اپنے ہی تناظر میں قابلِ فہم اور قابلِ عمل ہے۔
۲۔ کوئی نظریہ، تصور، علم تحقیقی طو رپر غیر جانب دار اور بے قدر (value-free)نہیں ہے۔
۳۔ تاریخ کا سفر لازماً آگے کی سمت نہیں ہوتا، تاریخ میں عدم تسلسل ہوتا ہے۔
۴۔ دنیا میں نقطہ ہائے نظر(ورلڈ ویوز) تصورات اور نظریات کی کثرت ہے۔
۵۔ آفاقیت کا دعویٰ اپنی اجارہ داری یا قائم کرنے کی غرض نہیں ہے۔
۶۔ مطلق اتھارٹی کا کوئی وجود نہیں ہے۔ طاقت کا کوئی مرکز نہیں ہے بلکہ طاقت مختلف اور متعدد مراکز میں بٹی ہوئی اور منتشر ہے۔
۷۔ کسی نظریے ، نظام، اقدار ، تصور یا ورلڈ ویو کو مرکزیت حاصل نہیں ہے۔
۸۔ کوئی شے آزاد، خود مختار نہیں ہے۔ وہ دوسرے پر منحصر اور دوسروں سے جڑی ہوئی ہے۔
۹۔ حاشیے پر موجود علوم، طبقات، اصناف، ثقافتیں اتنی ہی اہم ہیں جتنی مرکز میں موجود اہم ہیں۔
۱۰۔ دنیا اور متن کی تعبیر کے کئی طریقے اور ان کی تعبیریں ممکن ہیں اور کوئی تعبیر حتمی اور آخری نہیں ہے، اس کے بعد مذہب افسانہ اور سماجی و سائنسی علوم جادو بن جاتے ہیں۔ کسی تعبیر کی قیمت پر اصرار دراصل اس تعبیر کی اجارہ داری قائم کرنا ہے۔
۱۱۔ آخری تجربے میں ہر علمی تصور، قدر سماجی تشکیل ہے چونکہ سماجی تشکیل ہے اس لیے آئیڈیالوجیکل ہے۔
مابعد جدیدیت اور مابیانیہ:
اقلیت کیلیے ضروری نہیں ہے کہ وہ کالے گورے میں تفریق ، امیر غریب میں تفرق ، Straight اور LGBT میں تفریق، سرمایہ داروں اور پرولتاریوں میں تفرق، سائنس دانوں اور کاروباری لوگوں میں تفرق، مذہبی اور ملحدوں میں تفرق وغیرہ تبلیغ سے ہو یا رویوں سے ، عقل و جذبات کے درمیان خیالات کی ردتشکیلیت Deconstruction سے تفریقی استحصال میں کمی ممکن ہے۔ معاشی دباؤ، معاشرتی دباؤ، سائنسی دباؤ، نظریاتی دباؤ، ادبی دباؤ، رشتوں کا دباؤ جیسے بیانیوں کیلیے ردتشکیلیت استعمال کی جاتی ہے۔
دنیا کو جاننے کے راستے ان لوگوں نے متعین کیے جن کے پاس طاقت تھی۔انہوں نے ہی Signifier / Signified معانی سیاق و سباق کے اندر بیان کیے۔ دریدا نے دال اور مدلول کے درمیان روایتی تعلق کو کمزور قرار دیا۔ سیاسی و مذہبی زندگی کے ہر بیانیے اور مطالبے کو نفع و نقصان کی کسوٹی پر جانچتے اور پرکھتے ہیں۔ مابعد جدیدیت میں اس کی نفی ملتی ہے۔ حالت تذبذب عقل اور خیال کے درمیان کشمکش کے ارفع پیدا ہوتی ہے جہاں فیصلے پر حکم صادر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہی سے اہانت کا پہلؤ نکلتا ہے
پروڈھون نے کہا ہے کہ انسان کی انسان پر حکومت چاہے جیسی مرضی ہو وہ غلامی ہے ۔ اس دور میں غلامی مہابیانیوں سے ممکن ہے ورنہ مابعد جدیدی دور پروفیشنلزم یا پیشہ وارایت کا دور ہے۔فوکو نے فلسفے سے بے حیثیت (اقلیت/قلیل)سمجھے جانے والےلوگوں پر زیادہ کام مرکوز کیا تھا۔ لیڈر بنانے کیلیے طاقت کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ لوگ اس کو پوج سکیں۔ پوجنا بھی اپنے نرخ رکھتا ہے
فوکو کا کہنا ہے کہ انسان زمانہ قریب کی پیداوار ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معدوم ہوجائے گا۔ ساختیاتی مارکسیوں کے دلائل ہیں کہ نظام اہم ہے فرد نہیں۔۔! مہابیانیے مسائل کا حل کرنے کے بجائے انکو مزید الجھا دیتے ہیں پھر سیکولر زبان میں یہ کہا جاتا ہے کہ موجودہ صورتِ حال تاریخ نے متعین کی ہے
مہابیانیوں کی تاریخ
مہابیانیوں کی آفاقی نظریات جو کائنات کی تشریح کی دعوے دار ہوسکتی ہے اور خود کو کائناتی سطح پر مستند تصور کرتے ہیں۔انسانی تاریخ میں خونی انقلابات مہابیانیوں کی وجہ سے ممکن ہوئے۔ تاریخ میں بڑے بڑے خون کہاں کہاں ہوئے
بھارت میں شری کرشن کی موجودگی میں ارجن کی اپنے رشتے داروں کے خلاف جنگ، مہابھارت، بھارت پرقوموں کی یلغار اور اندرونی خانہ جنگی شامل ہیں بالخصوص ہندوستان میں سلطنت کی جنگ میں مسلمان آپس میں لڑے یہی نہیں دونوں طرف ہندو بھی موجود تھے اپنے رشتےداروں کی گردن کشی ملتی ہے
انسانوں کے مائی باپ آدم و حوا کے دور میں جنس پر قتل ہونا شروع ہوا۔ حضرت نوح کے دور میں ملتا ہے حضرت موسیٰ اور فرعون کے درمیان فسادات، حضرت عیسیٰ کا صلیب پر چڑ ھ جانا ،ابتدا میں یہودیوں کے عیسائیوں پر مظالم بعد میں عیسائیوں کے یہودیوں پر مظالم و نفرت اوراس پر یہودی کا تاریخ ساز جملہ"عیسیٰ پیدائشی یہودی تھا"، عربوں پر ترقی یافتہ قوموں کی چڑھائی پھر عربوں کی دوسری قوموں پر چڑھائی، عرب علم و عمل کا مرکز معلوم ہوتا تھا اب جہالت کا گڑھا نظر آتا ہے، مارکسزم نے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف آواز اٹھائی تو جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم رونما ہوئی ،فسطائیت نے کتنے انسانوں کو جنگوں کے علاوہ بھی قتل کیے، اس دور سےپہلی دنیا کے ممالک، دوسری دنیا کے ممالک اور تیسری دنیا کے ممالک میں تقسیم ہوگئے۔ پہلی دنیا کےممالک تیسری دنیا کے ممالک پر خون چوسنے والے جانور ہیں جبکہ دوسری دنیا میں استحصال اور آمریت چھائی ہوئی ہے۔ ساری دنیا مہابیانیوں کی نظر سے کسی نا کسی طرح استحصال کرتی نظر آتی ہے جس کے پیچھے Centralized Approachہے جبکہ مابعدجدیدی لامرکزی Decentralized مانتے ہیں تاکہ لوگوں کو Trend پر نہ چلایا جاسکے۔ خانہ بدوشیت قدیم انسانی رہن سہن ہے انسان کو کسی علاقے میں قید رکھنا جیل جیسا ہے وہ اس کیلیے آزادی حاصل کرنا چاہتا ہے
اسی موضوعی پرستی کے خلاف بولنے والوں کو ایذارسانی کا نشانہ بنایا گیا۔ یا خود بھی اس کا نشانہ بن جاتے تھے جیسے انقلاب کی صورتوں میں امریکی سیاہ فام لوگوں کا احتجاج بھی مہابیانیہ کے خلاف بیانیہ تھا انہوں نے بھی ویسا ہی کرنا تھا۔یہودی نسل کشی کے بعد اسی تحریک نے اسرائیل حاصل کرکے استحصال کو عروج دیا ہے۔جدیدیت نے مذہب کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا کہ مذہب کو تاریخی لزوم میں ایسا پھنسایا کہ عبادت تک محدود کردیا بلکہ تمام مذاہب کو ایک ہی صف میں لاکھڑا کردیا اور خود اکیلانبردآزما ہوگیا وہی انقلاب برپا کیا جس کی وجہ سے مذاہب آئے تھے۔لیوتارڈ اصرار کرتا ہے کہ مہابیانیوں کو ہمیشہ چیلنج کیا جاسکتا ہے خواہ وہ کتنے ہی طاقت کیوں نہ ہوں
جدلیاتی مادیت کا دعویٰ ہے کہ تمام انسانی تاریخ دراصل طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے جیسے سبطِ حسن کی "موسیٰ سے مارکس" اور مزید کڑی ہے۔مارکسی اجارہ داری نے یہ دلیل دی کہ اگر ہم دوسرے ذرائع سے حاصل ہونے والے نظریات کو مارکسیت میں داخل کریں گے تو مارکسیت کی شناخت، وحدت اور سند کو نقصان پہنچے گا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مارکسی نظریہ اپنی اصلیت اور شناخت سے محروم ہوجائے گا۔ یہی مؤقف مذہب پرستوں میں شدت اختیار کرگیا
بیانیوں اور مہابیانیوں کی بحثوں سے استحصال کم نہیں ہوگا بلکہ استحصالیوں کیلیے نیا رستہ نکل آئے گا کیونکہ بوروژا و سرمایہ داریت کو فطری نظام بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ساختیات کے ماہر آلتھیوسے گرامچی کو بنیاد بنا کرکہتا ہےکہ مغربی سیاسی نظام دو حصوں میں تقسیم ہے (1) نظریاتی مملکتی ادارے (ISAs) اور (2) استحصالی مملکتی ادارے (RSAs)۔ نظریاتی مملکتی اداروں کا کام یہ ہے کہ آرٹس، تعلیم اور اطلاعیات کے ذریعے حکمران طبقے کے نظریاتی ضوابط کو فروغ دیں۔ عوام میں ان نظریاتی ضوابط کو اس انداز سے فروغ دیں کہ ان کو یہ احساس تک نہ ہو کہ ان کے ذہنوں کو ایک مخصوص انداز میں تبدیل (Indoctrinate) کیا جارہا ہے۔ استحصالی مملکتی نظام میں پولیس، ایجنسیوں، دہشتگردوں، فوج اور حکومتی اداروں کے ذریعے لوگوں کو تشدد کی بنیاد پر کنٹرول کیا جاتا ہے یہ اس وقت ہوتا ہے جب ISAs مطلوبہ تبدیلی لانے میں ناکام ہوجاتے ہیں
موضوع اور معروض
دنیا میں ابتدائی شعور سے لے کر اب تک جتنی تحریکیں منظر عام پر آئی ہیں سب کا مقصد فلاح و بہبود تھا۔ جب یہ تحریکیں موضوع پسندی اختیار کرلیتی تھی تو انکی جگہ دوسری تحریکیں آجاتی۔ تحریکیں اپنے اپنے مخصوص دور کیلیے منظر عام پر آتی انکی باقیات اگلی تحریک میں شامل ہوجاتی ایسے تبلیغ یا بغیر تبلیغ سے وسعتیں ہوتی تھی
موضوع اور معروض کا تعلق آپس میں انتہائی گہرا ہے دونوں کو علیحدہ کرکے سمجھنا انتہائی مشکل ہے اس میں انسان کا تعلق اس کے تحت الشعور سے بالخصوص ہے۔جہاں سے اس کی شخصیت کے شعور اور لاشعور سے اثر انداز ہوتی ہے۔زیست ایسی دنیا کا نقشہ کھینچتی ہے جہاں ضابطہ اور بے ضابطگی قدم سے قدم ملا کرچلتی ہے ان دونوں کے تناؤ کو شدت سے محسوس کیا گیا۔جودتھ کا اصرار ہے کہ شناخت ہماری ذات کا جوہر نہیں۔مابعد جدیدیت نے فرد کے بحیثیت موضوع مسترد کردیا ہے ۔ یورپ میں ہیرو اور برتر انسان کے تصور کی اندھا دھند تبلیغ انہیں تقاضوں کے مطابق کی گئی جب تک استحصال موجود نہ ہو، معین موضوع کا کوئی وجود نہیں
مابعد جدیدی مفکرین نے ٹھوس دلائل کے ساتھ موضوع کے تصور کی نفی کردی ہے جس میں انسانیت کا بلند بانگ تصور دھڑام سے زمین پر آن گرا ہے۔ مابعد انسانیت مخالف کا مطلب روشن خیالی پروجیکٹ کے اس دعوے کی مخالفت ہے کہ بنی نوع انسان کو کائنات میں مرکزیت حاصل ہو۔ بنیاد پرستی اور مستقل مزاجی کے موضوع کو لمحاتی کرنے کی کوشش سے معروضی ہونے لگی۔ بارت نے مصنف کی موت کے اعلان کیا مصنف اپنی تصنیف کے معانی کا خود ذمہ دار نہیں، مصنف کی کم تر حیثیت کے نتیجے میں قاری کو زیادہ اہمیت ہوئی ہے۔جیسے مذہب کی تشریع کوئی فرقہ حتیٰ کہ کوئی بھی شخص کرنے کی آزادی رکھتا ہے۔
علاقائیت کی بڑی بڑی مثالیں خاندان اور ملکیت ایسے ادارے ہیں ان سب نے مل کر جدید موضوع کی تخلیق کی سازش کی۔ خواہشات کو علاقائیت سے ماورا ہونا چاہیے ۔ ان خواہشات کی وجہ سے انسان پابندیوں میں گھر جاتا ہے اس لیے دونوں ایک طرح کی خانہ بدوش زندگی کو ترجیح اور فروغ دینے کی بات کرتے ہیں تاکہ انسان کو جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں سے آزادی مل سکے۔ انسان مسلسل تہذیبی پابندیوں کے خلاف عَلم بلند کرتے ہیں
تشکیلیت وردتشکیلیت اور مرکزیت ولامرکزیت کے مابین موضوع و معروض کی کشمکش ہے۔ ان کے درمیان فاصلہ صحت مندی کی علامت ہے
مابعد جدیدیت اور تاریخ:
انسان موضوع پرستی کی ایک لمبی تاریخ سے گزرہا ہے بالخصوص مادی جدلیاتی دور سے۔ اس دور نے مذہب سے بھی اس کی معروضیت چھین لی تھی۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ جدیدیت سے آفسردہ لوگوں میں مذہبی شدت پسندی عروج حاصل کرگئی ہے لیکن وہاں بھی لوگوں کے تحت الشعور اور لاشعور کی تشفی ممکن نہیں رہی۔ خود کشی کی شرح میں اضافہ،پیسہ سے مادیت پرست بنادیا
مابعد جدیدیت بھی تحت الشعور اور لاشعور کی تشفی کرنے کی کوشش اس انداز سے کرنی کی کوشش کرتی ہے کہ بیانیے مثلاً مارکسی سماج علامتی نظام کی آماج گاہ بن جاتا ہے جس میں عام انسان کو لازماً اس نظام کے مطابق ڈھلنا پڑتا ہے جبکہ مابعدجدیدیت نے انسان کے بندھے ہاتھ، بندھی آنکھیں، بندھا ہوا دماغ کھول دیا ہے
انسان سیاسی و قانونی مسائل سے زیادہ سماجی مسائل سے عاجز آتا ہے۔ اسی لیے دور جدید میں علمی سطح پر تسلیم کرلیا گیا کہ تمام ثقافتوں کے وجود کا اپنا اپنا جواز ہے۔ انکی اقدار اور عقائد کو برت کرہی درست تحقیق کرسکتا ہے کیونکہ کوئی ایسا معروضی معیار پہلے سے موجود نہیں جس کو سامنے رکھ کر دوسری اقوام کے ثقافتی اور اخلاقی نظاموں کے بارے میں تخمینہ یا حکم صادر کیا جاسکے۔مسلمان اسلام کو ثقافتی مذہب میں دیکھتے ہیں اس ثقافت کی احیاء کی کوشش کرتے ہیں ۔میں پاکستان میں پیدا ہوا آج بھی کوئی میرا رسم و رواج ہندی پاکستان سے جدا نہیں کرسکا
ماہرین ساختیات کے نزدیک ساختیوں کا نظام شفاف ہونے کے ساتھ جبریت کا آئینہ دار بھی ہے اس میں دخل انداز ی کے امکانات بہت کم ہیں۔ افرادی تبلیغ کے ذریعے گہرے ساختیے بروئے کار آتے ہیں۔ ان میں یکسانیت اور مماثلت کے بجائے اختلاف اور افتراق کو اہمیت حاصل ہے۔ ان بھنوروں، تضادات اور دراڑوں کی نہ ہی توجیہ کی جاسکتی ہے اور نہ ہی ان کے بارے میں اتنی آسانی سے پیش گوئی ممکن ہے
فرانس کے شہر پیرس میں 1968 میں کمیونسٹ پارٹی سے منکشف ہوا کہ یہ انقلاب کو فروغ دینے کیلیے نہیں بلکہ اعلیٰ سطحی مفاد کو تحفظ دیناہے۔ لیوتارڈ کے نزدیک فلسفیوں پر یہ فرض ہے کہ وہ مظلوموں کو ایسی زبان فراہم کریں جس میں وہ اپنی شکایات کو مناسب شکل و صورت دے سکیں اور اپنے حقوق کو منواسکیں ۔ اسی طرح کارل مارکس نے اشتراکیت کی بنیاد رکھی تھی لیکن مفاد پرستوں نے اسے مہابیانیہ میں تبدیل کردیا۔ مابعدجدیدی سوچ دوسری جنگ عظیم کی تباہی اور نطشے سے شروع ہوچکی تھی
لیک لاؤ اور موفے پس مارکسیت کے اہم سیاسی نظریہ ساز ہیں مارکسزم پر تنقید کرتے ہوئے جن معاملات کی خاص طور پر نشاندہی کی ان کا تعلق نسلی ، جنسی اور اقلیتی مسائل سے ہے کیونکہ یہ تغیر پذیر حالات کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ روشن خیالی کا ہمیشہ سے مقصد لوگوں کو خوف سے نجات دلانا اور عوام کو مقتدر بنانا تھا لیکن دنیا جُو اَب روشن خیالی سے بھرپور ہے میں تباہی اور خوف کی حکمرانی کیوں ہے؟ اِس پر مابعد جدیدی اپنی عمارت کھڑی کرتے ہیں۔ فوکویامہ نے تاریخ کا اختتام End of History لکھ چھوڑی
مابعد جدیدی تاریخ کے خاتمے کا مطلب ہماری مغائرت Alienation کے خاتمے کی بات ہے ساتھ ہی خود شعوری انداز میں ماضی سے مکالمے کے قائل بھی ہیں جس میں پرانی ثقافتیں ، فنی اور ادبی اقدار کی بحالی کی بات بھی کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ تاریخ میں مہابیانیے یا مہابیانیے کی طرف رجوع کی مخالفت کرتے ہوئے انسان کی سطحی ومعروضی کی بات کرتے ہیں۔ تمام مابعد جدید مؤرخ اور ثقافتی نقاد Episteme میں طاقت کے رشتے کو غلاب مفاد کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ سماجی رشتے محاکات اور تشبہیات کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں اور یہ کہ ہم اپنی سماجی زندگی میں تماشائی کردار ادا کر رہے ہیں۔ لیوتارڈ کے نزدیک جدیدیت اور مابعد جدیدیت دوری تحریکیں ہیں یہ دوری عمل تاریخ میں ہمیشہ سے جاری و ساری ہے۔ جدیدیت اور مابعد جدیدیت ایک ہی دائرے میں گھومنے والے تصورات ہیں
مابعد جدیدیت اور فن:
فن ایک بہت بڑا شعبہ ہے یہاں سے کسی بیانیے کی بالادستی قائم ہوسکتی ہے چاہے فن پاروں کی شکل میں ہو، سنگیت کی شکل ہو، متن کی شکل میں ہو
مابعد جدیدیت نے فوری موجود مواد کو نئے ڈھنگ میں ڈھالنے میں کوئی منصوبہ بندی کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ حقیقت اور امیج کے دھندلاجانے کا یہ مسئلہ مابعدجدیدی فکر میں خاصی اہمیت کا حامل ہے پیچیدگیت کو آپ ایک لحاظ سے مابعدجدیدیت کہہ سکتے ہیں
مابعدجدیدیت میں اصل اور تخلیقی کے بارے میں شک کا اظہار کیا ہے کیونکہ ماضی یا موجودہ فن میں تصرف میں لاکر تخلیق کیا جاتا رہا ہے۔ اس حوالے سے ڈگلس کریمپ کہتا ہے کہ یہاں مہارت کا مطلب ہمسری کی بجائے بہروپیت ہے اصلیت کے بجائے تکرار ہے تخلیق کے بجائے تصرف ہے۔ بنجامن کے نزدیک آرٹ پراسراریت جو یکتا تخلیقی نمونوں کو حاصل ہوا کرتی تھی وہ مفقود ہوچکی ہے مشینی دور میں آرٹ کے نمونوں کی روایت تخلیق سے محروم ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں ثقافتی ورثہ دیوالیے کا شکار ہوچکا ہے
مابعد جدیدیت اور جذبات
انسان کے جذبات کی ایک تاریخ ہے۔ عقل منطق استدلال جذبات کے بغیر نامکمل ہیں۔ انسانی جذبات مثبت اور منفی دونوں پہلؤ رکھتا ہے۔ غیر عقلی و جذباتی انسان میں اور جانورمیں زیادہ فرق نہیں۔زرعی دور کی تحریکوں نے انسانی جذبات کو بڑی تقویت دی۔ ایک تحریک سے دوسری تحریک میں جتنی مرضی عقلی و معروضی استدلال موجود ہوں لیکن ایک انسان کیلیے خاندانی پشت پناہی، سماجی ساکھ، اپنے الفاظوں کا پاس، تنہائی کا خوف،رنج، امید، انانیت، غضب کا خوف، الفت و ہمدردی،شہوت، نسلی امتیازیات، علمی نشہ، رستے کی رکاوٹ رد و قبول کا سبب بنتے تھے ۔مابعد جدیدیت نے اُن تمام جذبات کی قدر کرتی جو اسکی شناخت کا سبب بنتی ہے اس پر فوکو نے "تہذیب اور پاگل پن" جس میں اس نے دیوانگی اور ہوش مندی کے فرق اور امتیاز واضح کیا ہے۔ الفاظ خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں الفاظ کے ساتھ رویے معانی رکھتے ہیں
ہندوستانی مسلمانوں نے اسلامی ناموں کی تبدیلی کی تھی جبکہ ہندی مسلمان جذباتی طور پر کائنات کےساتھ ہندوؤی تعلق رکھتا ہےایک دوسرے کے جذبات کے ساتھ کھیلوار مابعدجدیدیت مکمل مسترد کرتی ہے۔ کرسٹیوا مسلمانوں کے اتحادپر حیرانگی کا اظہار کرتی ہے اور یورپ کو اپنانے کا مشورہ دیتی ہے۔مابعد جدیدی معمار اتحاد کے ساتھ لامرکزیتDecentralized ہونے کی بات کرتے ہیں۔ نیل سے کاشگر اور اسلام کے قلعہ پاکستان نے کتنی قربانیاں دی ہیں
ایڈی پس کا مقصد جذبات و خواہشات کو دبا دینا ہے یہ استحصالی مشن کا ایک اور رخ ہے یہ ان افراد کو سماجی طور پر مفاہمت پسندی پر مجبور کرتا ہے جن کو آسانی سے کنٹرول کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ڈیلیوزی اور گواٹری کے مطابق تحلیل نفسی ایک طرح سے سماجی کنٹرول کا طریق کار ہے، انشقاق دماغی کا شکار شخص اُصول تحکم و سند کی سب سے زیادہ مزاحمت کرتا ہے تحلیل نفسی کے ذریعے تحکم اور سند پر مبنی سماج کی بات کی جاتی ہے مابعد جدیدیت میں تحکم اور سند کی مخالفت اور مذاحمت کو جزو ایمان تصور کیا جاتا ہے
مارکسیت میں نفسیاتی محرکات کیلیے کوئی جگہ نہیں۔تحت الشعوری کا انکار جبرئیت کا آئینہ دار ہے حالانکہ مارکسیت نے انکو جذباتی استحصال تصور کیا تھا۔ انسان کو مشینوں کے ساتھ مشین تصور کیا جانے لگا۔ سرمایہ داروں کیلیے انسان بھی اس کی سرمایہ کاری ہے۔ بلکہ مین پاور کو مشین ہی تصور کیا جانے لگا۔ اس نے انسان کے شعور اور تحت الشعور جھنجوڑنا شروع کردیا
مابعد جدیدیت پر تنقید پڑھیں تو وہ انتہائی عقلی و منطقی محسوس ہوتی ہے لیکن مابعد جدیدیت جذباتی و تجریدی اپیل بھی کرتی ہے بلکہ مابعدجدیدی نقاد اس کو مذہبی عقیدہ کی طرف لے جاتے ہیں۔ ہر دور کی ایک روح ہوا کرتی ہے ویسے ہی ہے جیسے عام لوگوں کا شعور اسی مقام پر پہنچ گیا ہو۔مارکسزم یقیناً صنعتی انقلاب کے بعد ممکن تھا۔ اسی طرح مابعد جدیدی دور اس کے بعد ہی ممکن تھا یہ تاریخ کے موڑ ہیں
مابعد جدیدیت اور نظری سائنس:
مابعد جدیدیت کا یہی کہنا ہے کہ پہلے لوگ مذہب کو اندھا دھن مانتے تھے۔ اس پر بات اسی طرح سمجھ سکتے ہیں جیسے سائنس کہہ دے کہ فلاں چیز کھانے سے کولیسٹرول بڑھ جائے گا یا ہارٹ اٹیک آجائے گا کچھ وقفے بعد اس کی نفی بھی مل جاتی ہے۔ مابعد جدیدیت کیلیے کوئی بھی سائنسی مسئلہ چاہے کسی بھی سائنسی شعبے سے متعلق ہو اس کی آگاہی دینی چاہیے اس کے مفتی نہ بنے یہانتکہ ڈاکٹر مریض کو مرض سمجھائے اور ادویات بھی سمجھائے۔ سائیکیٹرس اندھا دھند ادویات تجویز کردیتے ہیں۔ مریض دن بدن پہلی جیسی تندرستی سے ہاتھ دھوتا جاتا ہے۔ اسی طرح سائنس مسائل کو اسی نظریے سے ثابت کرنے کی حتیٰ الامکان کوشش کی جاتی ہے جس پر سٹیفن ہاکنگ نے کہا تھا کہ مدارس میں علم حصول اصل علم شبیہ ہوتی ہے
سائنس کی بات کے ساتھ روحانیت کی بات کی جائے تو بہتر ہوگا کیونکہ زرعی دور تک انسان روحانیت کو مستند مانتا تھا اس دور کے انسان کو یہ بتانا انتہائی مشکل کام ہے کیونکہ اب وہ نہیں مان سکتا کہ کائنات کسی گائے کے سینگوں پر ہے۔کوئی نہیں مانتا کہ زمین گھومتی نہیں بلکہ کائنات کے دوسرے اجسام زمین کے گرد گھومتے ہیں حالانکہ کسی نے مشاہدہ نہیں کیا ہوا۔اسی طرح روحانی اور الہامی فرمودات سائنسی پیش گوئیوں کے آگے مانند پڑگئے ہیں جیسے بگ بینگ ،ارتقاء،اضافیت ، مقادیری سائنس،شماریات و ممکنات، منطق ودلائل، تانیثیتFeminism ، ساختیات،تحلیل نفسی اورمادی و سائنسی اشتراکیت/سرمایہ داری جدید الحادی مذہب کی وجہ بنی ہیں۔ ان الحادی نظریات نے اسلام، عیسائی، یہود،ہندو، سکھ مت،بدھ مت، جین مت، زرتشت مت، مانی مت، بھہائی، تاؤ مت، کنفیوشس، شنومت اور احمدیوں کو ایک دائرہ میں محصور کردیا ہے۔ ملحد خود کو مسلمان ملحد، عیسائی ملحد، ہندو ملحد سے مختلف کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنی علاقائی شناخت رکھتے ہیں۔ لیکن اب سائنس کو حقیقت کی حتمی نوعیت کے بارے میں تحقیقات کا ذریعہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔جیسے سٹیفن ہاکنگ کی خواہش تھی کہ ہم اس صدی کے اختتام تک تمام سائنسی قوانین سے واقفیت حاصل کرلیں گے۔یہ Morphogenesis تھیوری ان پابندیوں کو توڑتی ہے جو عرصہ دراز سے حسابیات پر عائد ہیں ۔ مابعدجدیدی نراجیت کو سائنسی صداقتوں کی اجارہ داری توڑنے کیلیے بروئے کار لایا تھا نراجیت Chaos Theoryکی انتہاء بے یقینی اورلا انتہاء ہے۔ مابعدجدیدی Chora کو متفرق نہیں مانتے۔
فوکو کے نزدیک مخاطبہ Discourse وہ چیز ہے جس میں مطلب اخذ کرنا اور حصول علم و قوت ماپنا ہے۔ مخاطبے کے باہر کوئی مطلب اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ مخاطبے ہمیں مجبور بھی کرتے ہیں اور کئی دفعہ یہ ہمارے اوپر حکومت بھی کرتے ہیں جب ہم کسی کلچر میں شمولیت اختیار کرتے اور اس کو بروئے کار لاتے ہیں تو اس طرح ہم دنیا کئ تشریح کے کام میں شامل ہورہے ہوتے ہیں مخاطبہ کا اہم نقطہ طاقت کا سرچشمہ ہے یہانتکہ فوکو Humanism کو بھی ایک مخاطبہ مانتا ہے۔ لیوتارڈ نے سائنسی علم کو ایک بیانیہ قراردیا ہے جیسے بگ بینگ میں کہکشاؤں کے مسلسل وجود ہونے ،ان کے پھیلنے اورکہکشاں کا اندرونی پھلاؤ نہ ہونے،ان میں موجودکشش ثقل کی ترتیب کیسے وجود میں آئی کے جوابات دینے سے قاصر ہے۔اسی طرح ارتقاء خلیہ بننے، مِسنگ لنکس وغیرہ کے جوابات دینے سے قاصر ہے۔ مقادیری سائنس الیکٹرون کی مکمل معلومات دینے سے قاصر ہے۔ ممکنات کی تفصیل موجود نہ ہونے پر بیانیہ بنانا کیسے ممکن ہوتا ہے وہ ہمیشہ معروضی تعلقات کے قیام میں گھومتا ہے۔ پس ساختیات والے کسی چیز کی کوئی متعین شناخت موجود نہیں ہوتی اس لیے زوجی تضادات لایعنی ہوجاتے ہیں کوئی بھی شناخت اس قدر طے شدہ نہیں جس قدر کہ ساختیات والے سمجھتے ہیں۔ اشتراکیت اور سرمایہ داری کی جنگ چلتی رہنی ہےان کے موضوعات سے معروضیت نکلتی رہے گی۔پہلی دنیا کے لوگ تیسری دنیا کے لوگوں کی محنت کا استحصال کرتے رہے گےجب تک تیسری دنیا میں سرمایہ داری اشتراکیت کی راہ ہموار نہیں ہونگی۔تانیثیت اور پدرانہ نظام میں میرٹ/قابلیت کو قربانی کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ تحلیل نفسی کو سائنسی بنانے کی کوشش کی گئی اس سمیت دوسری مادی اشتراکیت نے انسان انسانیت وروحانیت چھین کر شعور کی تحلیل کردی جس سے وہ سطحی ہوگیا
مابعد جدیدی مفکرین مثالیت پسندی A=A عینیت کو مسترد کرتے ہیں مستقل کو لمحاتی مانتے ہیں اس لیے نیچری مانا جاتا ہے۔۔ لیوتارڈ اور دریدا کا دعویٰ ہے کہ حقیقت کی نمائندگی ناممکن ہے
مابعد جدیدیت اور ادب:
بارت سنسنی خیز زبان میں قاری کی پیدائش اور مصنف کی موت کا اعلان کرنا ہے۔ جس کا مقصد ہر قسم کی برتری کے دعوے اور طاقت کے مراکز زمین بوس کرنا تھا۔ایسی صورت حال میں مصنف قاری پر غالب آنے اور طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتا ہےلیکن اب کوئی لکھاری یہ نہیں کہہ سکتا کہ قوم نے میری قدر نہیں کی۔ کیسے ہر شخص اپنے اپنے دائرے میں مقید ہوجاتے۔لاشعور کے علامتی پیغامات نہیں ہوتے بلکہ یہ انبساط اور خوشی کے حوصلہ پرور پیکج ہوتے ہیں
ادب اور آرٹ کو مِتھ اور پراسرایت کے پردوں سے نجات دلاسکتے ہیں اس حوالے سے دیکھا جائے تو مابعدجدیدیت قدیم متشکک فلسفے کا ہی تسلسل ہے۔ روسو کے مطابق تحریر ایک غیر فطری عمل کا نتیجہ ہے ۔ دریدا نے روسو کی اس نطق مرکز ی نظریے کی ردتشکیل کی ہے جس کے مطابق گفتار اور تحریر دونوں ایک دوسرے کے جڑواں تضاد ہیں۔ڈاکٹر عتیق اللہ رچرڈ کا قول نقل کرتے ہیں اکثر سائنسی اُصولوں اور شماریاتی طریقوں پر زور دیتا ہے۔ اس کے ہاں ایک مقام پر پہنچ کر ادبی تنقید دماغ کی نفسیات اور لسانیات کی سائنس بن جاتی ہے
دریدا ردتشکیلیت کی بات کرتا ہے۔ جس میں متن کو کثیر المعانی تصور کی حیثیت سے تسلیم کرنا ضروری ہے۔دریدا کے نزدیک زبان میں معنی کے عدم استحکام کا مسئلہ اور غیر متعین ہونے کی کیفیت ظاہر کرتی ہے کہ زبان کسی بھی لمحے مکمل معنویت کی حامل نہیں ہوتی کیونکہ وقت کی تبدیلی سے معنی کی نوعیت بھی بدل جاتی ہے۔ مکمل موجودیت اور مکمل شناخت دو بنیادی مفروضوں کو مابعد الطبیعیاتی موجودیت کی تنقید میں موضوع بحث بنتا ہے
مابعد جدیدی ادب کا مطالعہ اس کے تاریخی اور سماجی سیاق سباق کو سامنے رکھ کر کرنے کی بات کرتے ہیں۔ ادب طاقت کے گرد گھومتا رہتا ہے نو تاریخیت اور مابعد جدیدیت باہم متعلق و مختلف ہے کیونکہ آرٹ اور سوسائٹی میں اس طرح کا تاریخی تعلق نہیں جو قابل اطمینان واحد جواب فراہم کرسکے۔ متون میں مرکزی معنویت/خیال کی تلاش اور اس کا انکشاف ایک فضول کاروائی گویا صداقت کو کسی مرکزی /منطقی معنی کی تحویل میں نہیں دیا جاسکتا۔ مابعد جدیدیت کے مطابق صداقت اضافی ہے اور اس کا انحصار مترجم یا صورت حال کی منشا پر ہے
جڑوان تضاد کی نسبت کثیرالتعداد تضادات پائے جاتے ہیں یا جڑواں تضادات سے لایعنی تعصبات کو سامنے لایا جائے تاکہ سماج کو فراست کی راہ دیکھائی جاسکے۔ دریدا کے مطابق درست نہیں کیونکہ اس طرح ہم دو اختلافات کو دور کرنے کے چکر میں دو مخالف حدود کو ایک ہی زمرےمیں لاکر منطقی غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں اس طرح دونوں حدود کی اختلافیت کا تحفظ ممکن نہیں رہتا۔ جہاں اختلاف ہے اسے بزور اتفاق میں تبدیل کرنا اور جہاں نفاق ہے وہاں اتفاق قائم کرنے کا ارادہ بے سود ہے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم Otherness اور تکثیریت کو مٹانے کی کوشش کررہے ہیں۔ شناخت کے کسی نئے مسئلے کو پیدا کیے بغیر افتراقی تانیثیات ایک مخصوص قسم کی سیاست کرتی ہے
مابعد جدیدیت کے حامی Spirit Whorf Hypothesis کی ایک مخصوص صورت پر یقین رکھتے ہیں جس کے مطابق لسانی ڈھانچے ہمارے فکری انداز کو متعین کرتے ہیں ان سے دنیا کے بارے میں ہمارا ادراک بھی تشکیل پاتا ہے جیسے طنز ومزاح اور محاوروں کی مختلف صورتیں قابل ترجمہ نہیں ہوتی۔دریدا کی بھارتی مبصر گیاتری سپی واک نے کہا کہ Sign آدھا موجود ہوتا ہے اور آدھا غائب ہوتا ہے اس لیے اس کی تشریح کے بہت سے امکانات ہوتے ہیں۔ مابعدجدیدیت پسندوں کے نزدیک یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ دنیا متن سے متشکل ہوئی ہے
مغربی فلسفہ جو گفتار کو تحریر پر فوقیت دیتے ہیں جبکہ دریدا تحریر اور تقریرکے درمیان توازن کا حامی ہے، متعین معنی کا تصور لایعنی ہے کیونکہ اس پر ایمان لانا پڑتا ہے گویا مطلق صداقت کا تصور بھی لایعنی ہے۔ دریدا کہتا ہے کہ ایک اصطلاح کو دوسری اصطلاح کے بالمقابل لاکھڑا کرتا ہے اس کیلیے اس نے التوا Differance کی اصطلاح استعمال کی ہے جو دونوں معنوں کو محیط کرتا ہے۔ یہ لفظ Differ اور Defer سے اخد شدہ ہے۔دریدا بتاتا ہے کہ کس طرح کسی لفظ کے معنی درحقیقت فطری تعلق پر مبنی نہیں ہوتے، لفظ معنی کا قائم مقام ہوتا ہے زبان جان بوجھ کر مبہم ہے اور غیر متعین ہوتی ہے۔ لفظ Differance ردتشکیلیت کا متبادل ہے وہ یہ کہ وحدت معنی کو غیر معین کرتا ہے۔آئن آلمنڈ ابن عربی کی دعا نقل کرتے ہیں اے خدا! میری حیرانگی و الجھن Bewilderment میں اضافہ کردیں ساتھ ہی یہ کہتے ہیں جو جتنا سطحی ہوتا ہے وہ اتنا ہی لاتعلق ہوتا ہے اس کی توضیحات و تشریحات Hermeneutics بیان کرتے ہیں ساتھ ہی راز بھید Secretکی بات کرتے ہیں جسے دریدا کے Differance سے موازنہ کرتے ہیں
ڈاکٹر گوپی نارنگ اردو ادب پر جدیدیت کے اثرات پھر مابعدجدیدیت کے اثرات اسکی کمیوں اور استعمال کے حاملین پر نظرثانی کرتے ہیں بلکہ ان تنقیدی جائزہ بھی پیش کرتے ہیں۔وہاب اشرفی نے انتہائی زبردست طریقے سے اردو ادب و فلسفہ، معاشرتی معاملات، شاعری، فکشن،ڈرامہ، طنزومزاح،لوک کہانیاں،پسماندہ ودلت سماج،تانیثیات پر علیحدہ علیحدہ جاندار مباحث ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ وزیر آغا،نظام صدیقی،دیوندراسر، ابولاکلامقاسمی،عتیق اللہ قابل ذکر ہیں
پاکستانی ادب بالخصوص منطقی، رومانوی، اور ہیرو کی تشکیل کرنے پر مشتمل ہے۔ منطقی آفسانہ، شعریات، موسیقی، مذہب، رومانوی سطحی بنایا ہے مزید ادبی مواد پورٹریٹ، سیرگاہیں، تحزین و آرائش کو فضول کام تصور کرتے ہیں۔ ان نظریات کے ساتھ فائدہ نقصان یا حتمی سمجھنے کی روایات کمزور پڑنا شروع ہیں
مابعد جدیدیت اور ہندی فلسفہ:
کسی بھی تحریک کی روح معاشی نظام ہوتا ہے۔ معاشی نظام کے اختتام پر تحریک بھی ختم ہوجاتی ہے۔جیسے زرعی دور کے مذہبوں کے ساتھ ہوا۔ زکوٰۃ کے دولت مشترکہ نظام کی جگہ سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکیت نے لے لیے تھے۔ ہندوستانی معاشرہ زرعی دور میں بھی لامرکزیت کا شکار تھا اس لیے یہاں روحانیت ترویج پاتی رہی۔انکی مرکزیت کی بات کی جائے تو وحدۃ الوجود کے قائل ہیں یہاں تکثریت Pantheism کے قائل وجود کے کسی بھی حصے پر مہارت ظاہر کرتے نظر آتے ہیں، یہاں رگ وید، اپنشد،شیومت، کوک شاستر، بدھا کا پیٹ کا فلسفہ، مہاویر کاوجودی فلسفہ، شری کرشن کا محبت و جنگ کا فلسفہ، ارجن ہست و نیست کا فلسفہ، دیوی دیوتا اور دوسرے الہیات کے ماہرین پیدا ہوئے۔مسلمان صوفی بلھے شاہ، شاہ حسین، وارث شاہ، سلطان باہو،میاں محمد بخش،عبداللہ بھٹائی،بابا خٹک وغیرہ کو مسلمانوں سے زیادہ ہندو وسکھ مانتےہیں اسی طرح مسلمانوں کے دوسرے فرقے (بریلوی،شیعہ،دیوبندی،اہلحدیث، میمن، بروہی اور ذیلی فرقے) ہندوستانی پاکستان میں لامرکزیت کے قائل ہیں مختصراً ہندوستانی مسلمانوں کے کپڑے اتار کردیکھیں تو بیچ میں ہندی نکلیں گے
علاقائی دیوتاؤں کو مانتے ہیں صاحب استطاعت مجاوروں اور زائرین پر نذر نیاز دیتے ہیں۔ معیشت کو آگ نہیں لگاتے بلکہ لامرکزیت ہے۔اسی طرح مابعدجدیدی کوئی باقاعدہ معاشی نظام واضح نہیں کرتے بلکہ سرمایہ دارانہ اور اشراکیت کے بین پر بات کرتے ہیں تاکہ ان مہابیانیے کے جبر کو توڑا جاسکے۔ آئن آلمنڈ اپنی کتاب صوفی اور ردتشکیلیت میں ابن عربی کے خدا اور دریدا کے Differance کو منفی نظریے Negative Theory سے بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔منفی نظریہ یہ ہے کہ سب کچھ یہی ہے صرف یہ یہ اس میں نہیں ہے
ثقافتی کلچر کے ادب کو آفاقی اور لازمانی قرار دینا قنوطیت پسندی ہے جو کارل مارکس سے زیادہ فوکو کے نزدیک ہے۔سائنس نے روحانیت کی جگہ لے کر انسان کو پیچیدگیوں میں مبتلا کردیا مابعد جدیدیت قدرے واپسی کا رستہ بھی ہے۔ فوکو نے کہا تھا کہ اب دنیا پر وہ فلسفہ رائج کرے گا جو یورپ کے باہر سے آئے گا
پاکستان کا بیانیہ کسی مخصوص جماعت سے پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ تمام ماہرین بیانات ایک جیسے آتے ہیں ان جماعتوں کا مقصد تشکیلیت کرنا ہے موضوع کی طرف رجوع کرنا ہے تاکہ ذاتی مفاد کو تقویت حاصل ہوسکے۔پاکستان میں مذہبی فرقہ بندی (بریلوی، دیوبندی، شیعہ اور اہل حدیث)کی بات جائے تو فرقے کے جھنڈے تلے اکٹھے ہوجاتے ہیں جونہی اسلام کی بات ہوتو سارے اسلام کے جھنڈے تلے اکٹھے ہوجاتے ہیں ایسے ہی صوبوں کی بات کی جائے تو اپنے صوبے کیلیے مرنے مارنے پر تیار ہوجاتے ہیں لیکن پاکستان کے نام پر چاروں صوبوں والے ایک جھنڈے تلے اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ یہ تمام جھنڈے اپنا اپنا فریم ورک رکھتے ہیں لیکن انسان، انسانیت، ماحول، قدرت کی بات کوئی نہیں کرتا اس میں ان کو کتنا نقصان پہنچتا ہے۔ کوئی نہیں جانتا
مابعد جدیدیت اور اسلام:
مابعد جدیدیت کے ساتھ اسلام کا موازنہ کرنے والوں نے باہم مخالف یا دوچیزوں کو علیحدہ علیحدہ یا متضاد سمجھا ہے اور صرف اوپر سے دیکھنے کی ایسے کوشش کی کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے اور مابعدجدیدیت نہیں، اسلام نبیؐ پر اللہ نے نازل کی اور مابعدجدیدیت انسانوں کی ناقص عقل کا نتیجہ ہے، ہیومن ازم اسلام کے خلاف ہے،سرمایہ داری، اشتراکیت کو انسانیت پر ظلم قراردے کررد کرتے ہوئےمابعدجدیدیت کو بھی رد کردیتے ہیں، نسائیت کی بات پر اسلام نے جو عورت کو حقوق دئیے وہ کسی نے نہیں دیے یہ نہیں بتاتے تاریخ کیا کہتی ہے بس اسلام عورت کو تحفظ بھی ویسا ہی دیتی ہے، یورپ میں ساری تحریکیں فیل ہوگئی ہے اس لیے ایسی تحریک کی بات ہی نہ کی جائے جو فیل ہوجائے گئی،مابعدجدیدوں کا مطلق سچائی کے انکار پر اسلام کی کلیت یاد آجاتی ہے، مابعد جدیدیت خود کا ثبوت دینے سے قاصر ہےتو۔۔۔۔؟ اس لیے اللہ نے تمہارے لیے اسلام مکمل کردیا،
دریدا نے اسلام کا ذکر زیادہ واضح تو نہیں کیا لیکن مہابیانیے کی صورت میں مذہب کو موضوع بنایا بنیاد پرستی تشکیلیت کا سبب بنتی ہے۔ بنیاد پرست مذہبی تحریکوں میں پیچیدگیوں کے باوجود قدیم نظام عقائد کیلیے اب بھی میدان کھلا ہے۔ اسلامی تحریکیں فسطائیت کی شکلوں میں ہے اشترکی شکل میں بہت بڑی طاقت بن سکتی ہیں۔ہر نئی تحریک پچھلی یا پرانی تہذیب کی باقیات کو لے کر نکلتی ہے جیسے اسلام میں پارسیوں، ہندوؤں عربیوں کا احیاء ہوا اب الحاد بھی یہی کوشش کررہا ہے۔ روایات پرستی میں طلسماتی قوت کی حامل شے قدرے زیادہ اہمیت اختیار کرجاتی ہے
اسلام بھی تغیر پذیر حالات کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے جس کے خلاف آواز اٹھائی تھی نصف صدی تک مقابلہ نہ کرسکا علامتی گھیراؤ میں گھرتا گیا۔ جس کے پیچھے بنیادی نقطہ بھی یہی تھا کہ انہوں نے وقتا فوقتا جنتی دوزخی، نیکی بدی اور دوسرے معاملات کی تشکیل کرنا شروع کردی۔ دنیا میں عذاب اور جزا و سزا کے معاملات کی تشکیل ۔ جس نے اسلام کو بالخصوص اور بالعموم فرقوں کے بیانیوں میں تبدیل کردیا ۔ مابعد جدیدیت نے مذہب کی مابعد الطبیعات کی ساختیات کو بھی نہیں مانتےاور اس سے تعمیر معاشرے اور تہذیب کو بُرا بھی نہیں مانتے
"جنت کے تخیل میں بڑا پاپ گزرا۔۔۔۔ دیوانے کی زندگی کا ایک پل نہیں چین سے گزرا"
آئن آلمنڈ اپنی اشراق میں کرسٹیوا کا قول نکل کرتے ہیں کہ اسلام اپنے ماننے والے کیلیے ایسے قول دیتا ہے جو کئی بھی پایا جائے خود کو ایک قوم کا حصہ تصور کرتے ہیں حالانکہ مغربی ممالک لوگوں کی تعلیم پر خرچ کرتے ہیں وہاں بھی ایسا حاصل کرنا ایک مشکل کام ہے۔ قوم بغیر قومیت میں غلو کا شکار ہوجاتی ہے فرانسیسی معاشرے یا مغرب کو کئی اور کھڑا کردیتی ہیں۔ نطشے اسلام کو مردوں اور عیسائیت کو عورتوں کا مذہب بتاتا تھا۔ بادریلا نیو ورلڈ آرڈر کے خلاف اسلام کو واحد ہتھیار قرار دیتے ہیں۔ اسلام جتنی جدیدیت اور