سب سے پہلے اس بات پر بات کرلی جائے کہ کیا مابعد جدیدیت ایک دماغی کیفیت ہے، یا ایک رکحان، رویّہ یا اس کو تحریکہے یا ایک نظریہ یا آئیڈیالوجی ہے؟ اور کیا یہ جدیدیت کے ردعمل کی نفی دانش ہے۔ اس کے تمام اثاثے، فکر فن ، فلسفہ نظریہ، نظام، ادب ذات، تہذیب اوراقدار کو تہس نہس کررہی ہے۔ مابعد جدیدیت معاشرتی اور تاریخی نظریہ کی تمام کلی صورتوں کو مسترد کرتی ہے۔ اور عقلیت کے غاہیتہانی مناجیات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے۔ سائنس اور ترقی کی سمت۔، رفتار اور تاریخ کے خطی ارتقا کو رد کرتی ہےوہ فرد کی مرکذیت کا بھی منکر ہے۔ یہی نہیں مابعد جدیدیت نشاۃ ثانیہ اور تنویریت کی یورپی فکریات کے علاوہ ادب اور فن ک خود مختار ریاست کو بھی باہر نکال پھیکتا ہے۔مگر یہ حقیقت ہے کہ مابعد جدیدیت کسی منضبط مربوط تحریک نہیں کہا جاسکتا۔ لہذا یہ الجھا ہوا، غیر منطقی اور خود تردیدی رجحان کہا جاسکتا ہے۔
چونکہ 70 کی دہائی میں جب یہ تحریک مقبولیت کے ساتھ بڑھ رہی تھی تواسی دوران کچھ اور اہم باتیں بھی ہو رہی تھیں۔ 60 کی دہائی سے آئے ہوئے بنیاد پرست سیاسی گروہ (مثال کے طور پر ماؤنواز) نظریاتی بحران کا شکار ہو رہے تھے اورسولزھنیتسن {Solzhenitsyn}کے ترجمہ کے ساتھ اسے تشریح کیا جارہا تھا اور اس سے مشرقی یورپ کی ہولناکیوں کو تفصیل سے ظاہر کیا جارہا تھا۔ معاشرتی تبدیلی کے ہرکالے/ ایجنٹ کی حیثیت سے میڈیا کی اہمیت کا احساس کچھ زیادہ ہی کروالیا جارہا تھا اور زرائع ابلاغ عامہ کی زندگی کی پھیلتی ہوئی دنیا کو ایک اہم ثقافتی مظہر کے طور پر رائج کیا جارہا تھا اور اسے زندگی کا لازمی جز بنایا جارہا تھا۔ اب یہ رجحانات فلسفیانہ دھاروں میں گھل مل گئے ہیں
سب سے پہلے ، مارکسزم اور سوشلزم کے خلاف یہ ایک بڑا رد عمل تھا اور یہ دلیل پیش کی گئی کہ مارکسزم ایک ’’ مجموعی ‘‘ نظام تھا ، جس کی فکری استبداد پسندی لازمی طور پر "گلگ "{Gulag : سویٹ جبری کیمپ } میں منتقل ہوگئی ،اور اس کے بجائے لبرل ازم اور سرمایہ دارانہ نظام کو زیادہ کھلی طور پر تشھیر کی گئی اور اسے فروغ دیا گیا۔ اس حیثیت سے اس فکر قبول کرلیا گیا۔ دوسری بات یہ کہ سیاسی مصروفیات سے دور دانشوروں کی ایک حرکت تھی کہ (مثال کے طور پر سارتر ہمیشہ طلبا کے ساتھ مارچ کرتے رہے تھے ، اور مائیکل فوکو اکثر دوسری چیزوں کے علاوہ جیل کے حقوق کے لئے بھی مظاہرے کرتے تھے)،اور ’دانشورانہ‘ کام کی طرف واپس آتے تھے۔ آخر کار ہمارے لئے حقیقت کی وضاحت کرنے میں میڈیا کے کردار کی بہت دلچسپی تھی،اور معاشرے کا ایک تجزیہ جس میں جزوی ، نقشوں سے بھرا ہوا، منصوبے، خاکہ ہوتا تھا ، یہ سب میڈیا کے ذریعہ سیر ہوتےر ہے ، ہر چیز کو رشتہ داری،انسانی تعلقات ، زمان و مکان اور قلیل المدت بنا دیتا ہے اور انسان کو انسان میں سمیٹ دیا گیا دوسرے لفظوں میں یہی مابعد جدیدت {Postmodernism}ہے۔ جس میں ایک شعبدہ بازی اور مکر آمیزی بھرا ہوا ہے۔جو محیط ارّض سطح پر کوئی مربوط فکری آفاق تشکیل نہیں دے سکی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...