افسانہ
معذرت
بیگم نے ہفتہ کے درمیان آپ بھر کچن کے لئے سامان کی لسٹ مجھے تھماتے ہوئے تقاضہ کیا:
کم سے کم اتنا سان تو لایا کیجئے کہ مہینے بھر کو کافی ہو!
ان کے اس جملے پر مجھے بھی فطری طور ہر سوال پوچھنا پڑا :
کیا رسوئی کا سامان اس بار بھی مہینے سے پہلے ہی ختم ہو گیا؟
بیگم نے جھنجھلاتے ہوئے جواب دیا:
جی ہاں ، مسالے وغیرہ کچھ دن ابھی اور چل جائیں گے مگر آٹا بالکل ختم ہو گیا ہے۔
لمحہ بھر کے لئے تو میں بھی پریشان ہو گیا۔ اور ایک بڑا تھیلا اٹھا کر بازار کی جانب چل دیا۔
میں اندازاً دو ماہ کے کافی سامان خرید کر بیگم کو سونپتے ہوئے کہا:
لو اب دو ماہ کے بے فکر ہو جائیے اب کی بار میں کافی سمان لے آیا ہوں۔
بیگم نے کھلتے ہوئے لپک کر سامان تھا لیا پیکنگ کھول کر سامان مناسب مقامات رکھنے میں مصروف ہو گئی ۔
اگلے دوسرے ماہ کی ابھی 16 تایخ تھی ،بیگم میرے لکھنے کی میز کا کنارہ پکڑ کر کھڑی ہو گئیں۔ جب کا فی دیر تک کچھ نہ بولیں تو مجھے پوچھنا پڑا:
کیا بات ہے؟
بیگم نے کہا۔۔۔
نغمہ بی کہہ رہی ہیں دو تین وقت کا آٹا اور بچا ہے بی بی جی آٹا منگوا لیجئے گا۔
میں بھی اس معمّےکو سمجھ نہیں پا رہی ہوں یہی سوچتے ہوئے خاموش تھی کہ آٹا اتنی جلد کیسے ختم ہو گیا؟ بیگم نے بجھے ہوئے لہجے اور ڈوبی ہوئی آواز میں کہا۔
میں نے پھر استفسار کیا
آٹا اتنی جلد کیسے ٹکم ہو سکتا ہے؟—-کہیں نغمہ بی تو——
نہیں —- وہ اس قسم کی کام کرنے والی نہیں ہے، وہ غریب ضرور ہے ،لیکن چور نہیں۔۔۔وہ اکثر ضرورت کاسامان مجھ سے مانگ کر ہی لے جاتی ہے۔
اب مجھے کچھ سوال کرنے کی گنجائش بھی ختم ہو گئی تھی۔
میں چپ چاپ پھر آٹا فراہم کرنے کے بارے میں سوچنے لگا۔
اگلی شام کھانے سے فارغ جب بچّے وغیرہ تقریباً سو گئے تو اپنے مکان کے سامنے والی سڑک کنارے لگے سی سی کیمرے کو ڈرائنگ روم کے بیرونی چھجّے سے ہٹا کر رسوئی میں نصب کردیا اور اگلی صبح مناسب مقدار میں پھر آٹے کا بندوست کر دیا۔
مہینہ بھر آرام سے گزرنے والاتھا کہ بیگم پھر اسٹول کھینچ کر میری اسٹڈی میز کے کنارے تشریف فرما گئیں۔ میں نے انھیں سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وہ عجیب سا منہ بنا کر بغیر کچھ کہے اٹھ کر چلی گئیں۔ میں ان کی ناگواری اور تیوروں کو اچھی طرح سمجھ گیا۔ان کا کچھ نہ کہنا بھی مجھے ایک داستان محسوس ہوا۔
تھوڑی دیر بعد جب عصر کی نماز کے بعد نغمہ بی میرے سامنے چائے رکھ کر جانے لگیں تو میں نے نغمہ بی کو ذرا گہری نظر سےدیکھا تو وہ جھجک گئیں اور اپنی چادر کا پلّو درست کرتے ہوئے کچن کی جانب چلی گئیں ۔ اس دوران مجھے سی سی کیمرے کی رکارڈنگ کو دیکھنے کا خیال آنا۔ میں نے لیپ ٹاپ آن کیا اور کی رکارڈنگ کو آن کیاتوکچھ دن کی ریکاڈنگ تو معمول کے مطابق تھی کہیں کوئی ایسی تصویر نظر نہیں آئی جہاں کسی شک یا شبہ کی گنجائش پیدا ہوتی۔ لیکن 12تاریخ کی رکارڈنگ میں میں نے پایا۔ نغمہ بھی چار چار روٹیوں کو فولڈ کر کے اپنی چھاتیوں کے نیچے بڑے سلیقے سے رکھ رہی ہیں اور پر اوپر سے شادر کا پلّو احتیاط سے لپیٹ لیا ہے۔ پھر 14 تاریخ کی رکارڈنگ میں بھی یہی صورت نظر آئی۔
نغمہ بی ہمیں کھانا کھلانے کے بعد تقریباً آدھا پون گھنٹہ بعد واپس اپنے گھر کو خالی ہاتھ ہلاتے ہوئے چلی جاتی تھیں۔ یہ ان کا روز کا معمول تھا۔ ہمیں ان کی اس حرکت کا کبھی گمان تک نہیں ہوا۔ اب ایک ثبوت ملا تو بیگم سے بتائے بغیر مجھے سوچنے پر مجبور ہو نا پڑا کہ نغمہ بی ایسا کیوں کرتی ہے؟ نغمہ بی بڑے خلوص گھر کے سارے کام کاج انجام دیتی تھیں۔ اس ان کی کسی نادیدہ پریشانی اور تنگ حالی سے میرے ذہن میں ہمدردی پیدا ہورہی تھی،"کی ایسی نیک اور بیوہ عورت کیسی تنگ دستی اور غربت میں اپنی بچّوں کو پال رہی ہے۔
اگلے دن نغمہ بی جب نمازِ عصر کے بعد میرے لئے چائے لے کر حاضر ہوئیں تو میںنے ان کا سلام لینے کے بعد ان سے اس معلوم کرلیا:
نغمہ بی آپ کے کتنے بچّے ہیں؟
نغمہ بی نے جواب دیا
صاحب جی۔۔۔ میرے چار بچّے ہیں
دو لڑکیاں اور دو لڑکے ہیں ۔ سبھی ابھی چھوٹی جماعتوں میں پڑھ رہے ہیں
میں نے استفسار کیا۔ آپ نے بتایا تھا آپ کو شوہر کا انتقال ہوئے دوسال ہونے والے ہیں۔آپ اپنے بچّوں کا گزارا کیسے کرتی ہیں۔ کیا دوچار گھروں میں کام کے بدلے ملنے والے کچھ پیسوں سے آپ کے اخراجات پورے ہو جاتے ہیں؟
اخراجات پورے کہاں ہوتے ہیں صاحب—بس کسی طرح تنگی ترشی میں گزارہ کرنا پڑتا ہے۔
میں نے کہا
کیا میں کوئی راستہ نکالوں تو آپ قبول کریں گی؟
کیا راستہ صاحب؟
راستہ یہ ہے کہ میں کل کرانہ مرچینٹ تسلیم بھائی کی دوکان پر آٹے کے دس دس کلو کے دو بیگ خرید کر وہیں دوکان پر یہ ان سے یہ کہہ کر چھوڑ آیا ہوں کہ کل میں نغمہ بھی کو کہہ دوں گا وہ یہ آتا اٹھا کر لے جائیں گی۔
نغمہ بی نے بڑی عاجزی سے کہا ٹھیک ہے صاحب جی میں کل بچّوں کو اسکول بھیجنے کے بعد آٹے کے بیگ اٹھا لاؤں گی۔
میں نے کہا
ٹھیک ہے —لیکن ایک کام اور بھی ہے
اور کیا صاحب جی
وہ آٹے کے بیگ یہاں ہمارے لئے نہیں لانا۔
کیوں صاحب جی؟
نغمہ بی کے لہجے میں حیرت اتر آئی تھی۔
میں نے ہلکا مسکراتے ہوئے کہا
مجھے اس ماہ تنخواہ کے علاوہ بونس بھی ملا ہے۔ اس بونس میں تمہارا حصّہ بھی ہونا چاہئے اس لئے—-
اس لئے وہ آٹے کے دو بیگ تمہارا حصّہ ہیں۔
جی بہتر—
نغمہ بھی چادر کا پلّو اپنی کلائی پر لپیٹے ہوئے باہر چلی گئی۔
اگلے دن میرا نغمہ بی سے سامنا ہوا تو وہ ہاتھ جوڑ کر میرے سامنے کھڑی ہو کر سبکنے لگیں۔میرا بھی دل بھر آیا۔
نغمہ بی کہنے لگی ــ—
صاحب جی ہمیں معافی دے دیں
میں نےکہا —کس بات کی معافی؟
نغمہ بی نے کہا
صاحب آپ کو سب بات معلوم ہے، اس کے لئے ہمیں معافی دے دیں۔ آئندہ آپ کو شکایت نہیں ہو گی۔
میں نے کہا نہیں نغمہ بی۔۔۔آپ کو معافی طلب کرنےکی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جب آپ کا رزق اس رازقِ مطلق نے میرے گھر میں اتارا ہے تو میرا فرض بنتا ہے کہ اس کو آپ تک آپ کی ضرورت سے پہلے فراہم کرادوں۔ گھر میں ہر ماہ وقت سے قبل آٹا ختم ہونے کی قصور وار آپ نہیں —بلکہ میں خود ہوں کہ آپ کا رزق میں نے آپ تک نہیں پہنچایا — اس کے لئے میں تم سے معذرت طلب ہوں۔
اب آپ ہر ماہ تسلیم کِرانا مرچنٹ تسلیم میاں کی دوکان سے 2 بیگ آٹا ہر ماہ لے لیا کیجئے وہ آپ کو دیتے رہیں گے اور آپ کی طے شدہ اجرت میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔
یہ سن کر نغمہ بھی یہ کہتے ہوئے کچن کی جانب چلی گئیں—
صاحب جی، میں آپ کے لئے چائے لاتی ہوں!
"