پرانے زمانے میں لوگ عمر کا حساب کیسے رکھتے تھے؟ مشہور لوک گلوکارہ ریشماں سے کسی نے پوچھا کہ آپ کب پیدا ہوئیں تو اُنہوں نے نہایت معصومیت سے جواب دیا:
“مینوں اے تے پتہ کوئینی کہ میں کدوں جمی ساں پر ماں کہندی اے کہ تدوں خربوزیاں دا موسم سی”
یعنی مجھے یہ تو پتہ نہیں کہ کب پیدا ہوئی مگر ماں کہتی تھی تب خربوزوں کا موسم تھا۔۔
پرانے دور میں لوگ موسموں کے حساب سے کوئی واقعات یاد رکھتے۔۔ پچھلی دس بہاریں۔۔ یا پچھلی سردیوں میں مگر مسئلہ یہ ہے کہ موسم عموماً ایک ماہ یا ایک دن کا نہیں ہوتا، کئی ماہ کا ہوتا ہے۔ سو پرانے دور کے لوگوں کی عمروں کا اندازہ اُنکی زبانی بھی صحیح طور پر معلوم نہیں ہو سکتا جب تک کہ اسے مکمل طور پر لکھا یا دستاویز کی شکل میں ریکارڈ نہ کیا جائے۔ آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ “او جی میرا دادا ہٹا کٹا 100 سال می عمر میں مرا”- لیکن جس روز سائنس دانوں نے یہ طے کر لیا کہ آپکے دادا کی عمر کو باقی آبادی کی عمر اور سائنسی ڈیٹا پر فوقیت دینی ہے اور ماضی کے انسانوں کی عمر کا تعین آپکے دادا یا عربی لکڑدادا کی عمر سے کرنا ہے، اُس دن سائنسدان لیبارٹریوں سے نکل کر گنڈیری کی ریڑھیاں لگانے لگ جائیں گے۔
عموماً انسان کی زندگی کا ایک مکمل سائیکل ہوتا ہے۔ ایک بچے کے دانت چند سال بعد نکلنا شروع ہوتے ہیں۔ پھر انسانی بچوں کے خاص عمر میں دودھ کے دانت مکمل ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں کہیں بھی چلے جائیں کم و بیش ہر انسان کے دودھ کے دانت نکلنے سے لیکر پکے دانت نکلنے میں ایک خاص عرصہ درکار ہوتا ہے۔ یہ کم و بیش ایک ہی وقت میں آتے ہیں۔ چند ماہ اوپر نیچے ہو سکتے ہیں۔
آپ نے گھروں میں یا خاندانوں میں اکثر خواتین کو ایسا مکالمہ کرتے سنا ہو گا:
” ہائمہ ہاتون تمہارے بیٹے ارتغرل کے دانت کتنے ماہ بعد نکلنا شروع ہوئے۔
کیا بتاؤں حلیمہ ہاتون !! اسکے دانت ساتویں ماہ میں ہی نکلنا شروع ہو گئے تھے۔
ارے واہ، میرے بیٹے گوندودو کے دانت بھی چھٹے مہینے میں نکلنا شروع ہو گئے تھے۔ ”
(اگر نہیں سنا تو آپ کے اسلاف ترک نہیں ہونگے)
ایسے ہی عقل داڑھ 17 سے 24 برس میں نکلتی ہے۔ یہ بات بھی تمام انسانوں میں کم و بیش مشترکہ ہے۔ ایسے ہی عمر کے مختلف حصوں میں انسانوں کے جسم میں مشترکہ تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ زچگی کے دوران عورت کے جسم اور اسکی ہڈیوں میں تبدیلی، ان میں معدنیات کا اُتار چڑھاؤ وغیرہ وغیرہ وہ نشانیاں ہیں جن سے عمر کا بہتر اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
عموماً انسان کے جسم کا ڈھانچہ اور ہڈیاں عمر کے مختلف ادوار میں تبدیل ہوتے رہتے پیں۔ ایک مرے ہوئے شخص کا پوسٹ مارٹم کر کے یہ بتایا جا سکتا ہے کہ مرتے وقت اسکی کم و بیش عمر کتنی تھی۔۔ عمر کا تعین ہڈیوں اور ڈھانچوں سے کرنا ایک مکمل سائنس ہے جو ثابت شدہ ہے۔
دنیا کے مختلف حصوں میں انسان لاکھوں سالوں سے آباد ہے۔ انسانی تہذیبوں کے آثار دجلہ و فرات، سندھ، مصر اور میکسیکو میں جگہ جگہ ملتے ہیں۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کو جگہ جگہ کھدائی کے دوران پچھلی کئی لاکھ سالوں کے انسانی ڈھانچے، اور انسانی فوسلز ملے ہیں۔ ان تمام کے تجزے سے اول تو یہ بتایا جا سکتا ہے کہ انسان ماضی میں کتنی قد کے تھے اور دوسرا یہ کہ انکی عمریں کتنی تھیں۔ سو آج ہم بہتر طور پر بتا سکتے ہیں کہ ماضی کا انسان پست قد اور کم عمر رکھتا تھا۔
آج جدید سائنسی سہولیات، کھجوروں کی بجائے پیس میکرز اور کریلے کے جوس کی جگہ انسولین، معجونوں کی جگہ ویکسین وغیرہ نے انسانوں کی اوسط عمر میں اضافہ اور وقت سے قبل مرنے کے امکانات کو کم کر دیا ہے۔
آج جدید انسانوں میں سب سے طویل قد کے لوگ یورپ کے ملک ہالینڈ یا نیدرلینڈ میں پائے جاتے ہیں جہاں مردوں کی اوسط قد تقریباً 6 فٹ جبکہ خواتین کی اوسط قد 5 فٹ 6 انچ ہے۔ دنیا کے سب سے پست قد لوگ ایسٹ تِمور جو انڈونیشیا کے پاس ہے وہاں کے ہیں جنکا اوسط قد 5 فٹ 1 انچ ہے۔
ایسے ہی دنیا کے سب سے طویل عمر پانے والے افراد
جاپان اور ہانگ کانگ کے ہیں جنکی اوسط عمر 85 سال سے اوپر ہے جبکہ سینٹرل افریقہ اور چاڈ کے باشندے محض 54 سال کی عمر میں دارِ فانی کوچ کر جاتے ہیں۔
جدید سائنس اور طب کے طریقوں میں ترقی اور پیش رفت سے اوسط عمر میں اضافہ ہو رہا یے اور یہ 73 سال سے بڑھ چکی ہے۔ وہ ممالک جہاں غربت اور خوراک اور طبی سہولیات کی قلت ہے وہاں لوگ جلدی مرتے ہیں۔
ماضی کا انسان خوراک کے حوالے سے غیر محفوظ تھا۔ آج غریب بھی چکن کھا لیتا ہے۔۔ماضی میں یا تو مرغ کی بیماری پر مرغ ذبح ہوتا یا کسی انسان کی بیماری پر۔
آج زنگر برگر سے لیکر چکن نگٹس ہر خاص و عام کی دسترس میں ہیں۔
“ہن او خوراکاں وہ تے نئی رہیا” کہنے والے خربوزوں کے موسم میں پیدا ہونے والے بابوں سے زیادہ عمریں پا کر مرتے ہیں۔ خیر پرانے خیالات کی نسبت شماریات اور سائنس کی حقیقتوں کو سمجھنے اور ہضم کرنے میں وقت لگے گا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...