Pigeon: کبوتر
5 اکتوبر 1918 کا دن تھا جب جرمن فوجوں نے Muese Arrogone (فرانس کا دریائی علاقہ) کو اپنے گھیرے میں کرکے فرانسی اور امریکی فوجوں کو قابو میں کرلیا۔ ایسے میں ایک کبوتر جسکا نام president Wilson تھا اس نے پیغام اپنے پائو ں سے باندھ کر امریکی فوج کے دوسرے یونٹ کی طرف اڑان بھری ۔ جرمن فوجوں کی گولیاں بھی کھائیں ایک ٹانگ اور چھاتی زخمی کر بیٹھا لیکن دوسری طرف فوجوں کو پیغام پہنچایا اور اس طرح سینکڑوں فوجیوں کی جانیں بچائیں۔
کبوتر کا شمار بہترین اڑان بھرنے والے پرندوں میں ہوتا ہے۔ اسکے پروں کے مسلز اس کے جسم کا تقریباً آدھا وزن رکھتے ہیں ۔ اس کے پیٹ میں ریڑھ کی بڑی اور چوڑی ہڈی (Keel) اور اسکی دم اسے پرواز کے دوران بیلنس برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ ان کے جسم پر 10,000 پر(Feathersکھنمب) ہوتے ہیں جن میں زیادہ پرواز کے لئیے اور کچھ جسم کو موسم کی سختیوں سے بچانے کے لئیے کام آتے ہیں ، حملہ کرنے پر اکثر یہ اپنے پر جھاڑ کر خود کو دشمن سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ 50 سے 60 میل( 96 کلومیٹر ) فی گھنٹہ کی رفتار سے ایک دن میں 600 میل تک اڑ سکتے ہیں۔ یعنی اسلام آباد سے لاہور ، لاہور سے اسلام آباد اور وہاں سے پھر لاہور۔ اسی لئیے یہ گھنٹوں اڑتے رہتے ہیں۔ کچھ نسلیں تو 92 میل فی گھنٹہ بھی اڑتی ہیں۔
یہ اپنئ چونچ سے بوتل کے Straw کی طرح پانی پیتے ہیں اور اپنے بچوں کو دودھ پلاتے ہیں، اصل میں ان کا دودھ جسے Crop Milk کہتے ہیں ان کی معدے میں بنتا ہے ۔ قدرت نے ان کے معدے میں یہ خاص بات رکھ دی ہے کہ کبوتر اپنی خوراک کو دودھ سے ملتے جلتے Liquid میں تبدیل کرلیتے ہیں جو پروٹین اور غذائیت سے بھرپور ہوتا ہے جسے یہ اپنے منہ سے اپنے بچے کے منہ میں ان ڈیل دیتے ہیں۔ انکے بچے کو Squab کہتے ہیں۔
یہ انتہائی ذہین پرندہ ہے جو ہزاروں سالوں سے انسان کے زیر استعمال ہے۔ اسے پیغام رسانی، جنگی پیغامات کی ترسیل, مداری جادوگروں کے کرتب، مقابلہ بازیوں، جوا ، منشیات کی اسمگلنگ حتی کہ ISI نے ایک کبوتر جاسوسی کے لئے ہندوستان بھی بھیج دیا جس نے وہاں خوف و ہراس پھیلا دیا جو بعد میں جھوٹ نکلا😆.
امریکی, رویوں کی سائنس کے ماہر اور ماہر نفسیات بی ایف سکینر نے امریکی فوج سے کہا کہ وہ کبوتروں کو میزائیل کے صحیح حدف تک پہنچانے میں Train کرسکتے ہیں اور یہ بات انہوں نے تجربات سے ثابت کی لیکن بہترین Navigation کی سہولت موجود ہونے کی وجہ سی فوج انتظامیہ نے انکار کردیا۔
ایک اور تجربے میں کبوتر کو چھوٹے Rascue جہاز کے نیچے شیشے کے باکس میں اس کے سامنے پلاسٹک کا ایک آلہ لگا کر( جسے وہ چونچ مارے)مشکل میں پھنسے انسانوں کی مدد کے لئیے استعمال کرنے کا تجربہ کیا گیا اور اس تجربے میں انسانوں نے بھی اپنی قسمت آزمائی کی۔ کبوتر انسانوں کے مقابلے میں اپنی دور اندیش نظر سے 50% زیادہ کامیاب رہا۔ تاہم پیسوں کی کمی کی وجہ سے پراجکیٹ مذید نہ چل سکا۔
کبوتر کی جو سب سے خاص اور اہم بات ہے وہ یہ کہ اسے جہاں بھی چھوڑ کر آئو یہ اپنے گھر واپس آجاتا ہے۔ یہ ایسا کیسے کرتا ہے؟ اس کے بارے میں سائینس ابھی تک محو حیرت اور مسلسل تحقیق میں ہے۔
کچھ ماہرین کے مطابق ان کا ناک جو کہ بہت حساس ہوتا ہے اس سے یہ اپنے علاقے کے چاروں کونوں کی خوشبو کی پہچان رکھتے ہیں۔ کچھ کے نزدیک ان کی نظر بہت تیز ہے اور یہ اپنے علاقے کی خاص خاص جگہوں کی نشانیاں یاد کرلیتے ہیں ۔ کچھ یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ یہ سورج کی جگہ کے حساب سے اپنے علاقے کا اندازہ لگالیتے ہیں اور کچھ یہ کہ انکے کان بہت حساس ہیں جس سے یہ اپنے علاقے کی آوازیں یاد کرلیتے ہیں اور ان کی پہچان رکھتے ہیں جبکہ ان میں سب سے بہترین تھیوری ان کی ناک اور کانوں کا زمین کی کشش ثقل Magnetic Field کے ساتھ تعلق ہونا ہے۔ ان کے ناک اور کانوں میں ایسے سیلز موجود ہیں جو زمین کی Magnetic Field سے سگنل ملنے پر ایکٹو ہوجاتے ہیں۔ ماہرین نے ان کے گھر کو مختلف جگہوں پر تبادلہ کرکے بھی دیکھا یہ پھر بھی وہاں آرام سے پہنچ گئے۔
کبوتروں کی چال بھی ایک خاص پہچان رکھتی ہے یہ اپنا سر ہلا ہلا کر(Bob) چلتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ اپنی آنکھیں نہیں گھما سکتے اسلئیے یہ وقفہ وقفہ سے سر آگے کرکے اپنے اطراف کی تصاویر باری باری اپنے دماغ میں اتارتے ہیں۔
کبوترانسانوں کے لئیے کوئی محفوظ پرندہ نہیں ہے اسکی بیٹھ(فضلہ) خشک ہوکر پیس کر ہوا میں اڑتی رہتی ہے جو کھانے یا سانس میں شامل ہوجاتی ہے اور منہ میں بھی چلی جاتی ہے۔ان کے فضلے پر ایک خاص پھپوندی بھی اگتی ہے جوسانس میں جانے پر پھیپھڑوں کی بیماری Histoplasmosis کا باعث بن سکتی ہے اس کے علاوہ ان کا فضلہ Solmonella اور E. Collie بھی پھیلا سکتا ہے۔ اسکے فضلے کو صاف کرتے وقت ماسک پہنیں اور ہاتھ بعد میں دھوئیں کھانے پینے کی چیزیں کبوتروں کے دڑبوں سے دور رکھیں۔
انسانوں کے اتنے کام آنے کے باوجود بھی کبوتروں کو بڑے پیمانے پر مارا جاتا ہے . یورپ اور امریکہ میں یہ گھروں کی چمنیوں میں گھس جاتے ہیں اسلئیے وہاں باقاعدہ کبوتروں کو مارنے اور انہیں گھروں سے نکالنے کے ادارے موجود ہیں۔ جنگلوں میں یہ عقابوں جبکہ گھروں میں اکثر بلیوں کی نظر ہوجاتے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...