1970 میں میرے ایک دوست کراچی کے محلے ‘نرسری‘ میں رہا کرتے تھے۔ عموما میں ان کے پاس جایا کرتا تھا۔ساری دلچسپی کرکٹ کھیلنے میں رھتی تھی۔ ان کے گھر کے قریب چھوٹا سا فلیٹ تھا۔ اس فلیٹ میں میرے دوست کی والدہ کھانے پینے کی چیزیں اور دیگر اشیا بھجوایا کرتی تھیں۔ میں بھی اپنے دوست کے ساتھ یہ کھانے اشیا پہنچانے کے لیے چلا جاتا تھا۔ وہاں پر ادھیڑ عمر کی ایک باوقار چہرہ والی خاتون، موٹے کالے چشمہ لگائے ھمارا استقبال کرتے ھوئے کہتی تھی ،"آؤ پیارے بچوں، اندر آجاؤ"،۔۔۔۔ اور ھم بھجوایا ھوا سامان ان کو حوالے کرکے ، سلام کرتے اور فلیٹ سے نیچے اتر آتے۔
یہ اپنے زمانے کی مشہور و معروف اداکارہ، رقاصہ،گلوکار اور موسیقار "ببو" تھیں۔ جن کو زمانہ بھول گیا تھا ۔ تقسیم ھند سے قبل اور اس کے بعدانیس سو ساٹھ (60) کی دہائی میں انھوں نے پاکستانی فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔
ببو جس فلیٹ میں رھتی تھیں وہ ایک مقامی ایرانی رقاصہ ‘خانم‘ نے کرایہ پر لیا ھوا تھا۔ خانم نے کراچی کی کئی فلموں میں چھوٹے موٹے کردار ادا کئے۔ انھوں نے فلم "فنٹوس" میں یادگار رقص کیا تھا۔(اس رقص کو دیکھ کر کچھ لوگ کہنے لگے تھے کی خانم پاکستانی فلموں کی "ہیلن" ہیں) میں نے اس فلیٹ میں ببو کو اپنی آخری زندگی کے دنوں میں معاشی بدحالی، کسمپرسی اور بیماری کی حالت میں دیکھا۔ میں نے پرانے لوگوں سے ببو کے ماضی کی ھوشر با کہانیاں سنی تھی۔ محلے کے بچے ببو کو خالہ جی کہتے تھے۔ وہ تھکے ھوئے لہجے میں ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ گفتگو کیا کرتی تھیں۔ مجھے ان کا لٹھے کس شلوار، کالے رنگ کا چھیدوں سے بھرا روپٹہ کبھی نہیں بھولتا جو ماضی کی یہ اداکارہ سر پر ڈالے صوفے پر بیٹھی ماضی کو یاد کیا کرتی تھیں۔ میں جب بھی ان کے پاس جاتا تھا انکی قدرے تازہ فلم "ارمان" پر باتیں کرتا جس میں ببو نے زیبا(فلم کی ہیروین) کی خالہ کا کردار ادا کیا تھا۔ میں نے سنا تھا کہ ایک زمانے میں جب ان کا ستارہ بام عروج تھا ہندوستان کے کئی راجہ، مہ راجہ، نوابیں،صنعت کار، جاگیردار اور سیاست دان ان کے آگے پیچھے گھوما کرتے تھی۔ کہتے ہیں اس زمانے ببو کے جوتوں اور چپلیوں میں ہیرے جڑے ھوتے تھے۔ اور یہ" عاشقان" ببو کو نذرانے بھجوایا کرتے تھے۔
ببو دہلی کے علاقے گواری بازار، عشرت آباد کی رھنے والی تھیں۔ ان کا اصل نام عشرت جہاں تھا۔ ان کی پیدائش کا سال معلوم نہیں ھو سکا۔لیکن قیاس ھے ان کی پیدائش 1913 اور 1916 کے درمیان کی ھے۔ ان کی والدہ حفیظن بائی کا تعلق بھی موسیقی، گلوکاری اور رقص کے پیشے سے تھا۔ وہ عموما رئیسون، راجاؤں، نوابیں کے گھروں،محلوں میں اپنے "فن" کا مظاہرہ کیا کرتی تھیں۔
ببو کو قدرت نے بلا کا حسن، نزاکت اور گفتگو کرنے کا ملکہ عطا کیا تھا۔ ان کی باتوں میں نفاست اور دلبری بھری ھوتی تھی، اچھے کپڑے پہنا،اور امیرانہ سلیقہ ان کے حسن میں چار چاند لگا دیتے تھے۔
جوانی میں ان کی زندگی میں خلیل سردار نام کا خوبرو نوجوان داخل ھوا۔ کچھ دنوں بعد ببو نے خلیل سردار سے شادی کرلی۔اسی دوران ببو نے لاھور میں ایک فلم " قزاق کی بیٹی" میں اداکاری کی مگر یہ فلم فلاپ ثابت ھوئی۔ کچھ ھی دنوں بعد ببو کی اپنے شوہر سے ان بن ھوگئی اور وہ خلیل سردار سے علحیدگی اختیار کرکے ممبئی چلی آئیں اور فلموں میں اداکاری کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس زمانے میں جن لوگوں نے ببو کو دیکھا ان کا کہنا تھا کہ ان کا حسن مزاح، بزلہ سنجی بہت اعلی تھی۔ وہ محفلوں کی جان ھوا کرتی تھیں۔ ان کی دلچسپ گفتگو سے سب محظوظ ھوتے تھے۔ نت نئے ڈیزائن اور رنگوں کے رومال کا بہت شوق تھا۔ گھوڑوں کی ریس میں شرطیں لگانے کا بھی بڑا شوق تھا اس میں انھوں نے جتنا کمایا اس سے کئی زیادہ دولت گنوائی۔ اس بات کا تذکرہ انھوں نے خود مجھ سے کیا۔
یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ھے کہ فلم " عدل جہانگیری" (1934) کی موسیقی ببو نے ترتیب دی تھی۔ یوں وہ ہندوستانی فلموں کی پہلی میوزک ڈرایکٹر ٹہریں۔ انھوں نے فلموں میں اداکاری کی ابتد 1933 میں کی ۔ ببو نے اپنے وقت کے عظیم اداکاروں ماسٹر نثار، سریندرا اور کمار کے ساتھ کام کیا۔
1950 مین پاکستان نقل مکانی کی۔
ببو کی زندگی افسانوی نوعیت کی بھی ھے۔ پہیلی شادی کی ناکامی کے بعد انھوں نے کئی عرسے شادی نہیں کی اور تمام توجہ فلموں پر دی۔ لیکن کچھ ھی دنوں بعد ببو جونا گڑھ کے نواب مہابت خان جی (1900۔1959) کے "دیوان "سر شاہ نواز بھٹو(1888۔1957)۔۔۔ (سابق وزیر اعظم پاکستان زوالفقار علی بھٹو کے والد) سے شادی کی۔ حالانکہ نواب مہابت خان جی بھی ببو پر دل وجان سے فریفتہ تھے۔ ببو نے شاہنواز بھٹو سے اس شادی کو خفیہ رکھا۔ کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ اگر نواب صاحب کو اس شادی کا علم ھوگیا تو وہ نواب صاحب کے غصب و غصے اور عتاب کا شکار ھو جائے گی۔ ببو رکشے مین بیٹھ کر نواب صاحب سے ملنے جاتی تھیں مگر ان کا اصل مقصد نواب صاحب سے ملنا نہیں ھوتا تھا۔ ببو اس بہانے سے شاہ نواز بھٹو سے ملا کرتی تھی۔ زوالفقار علی بھٹو نے ستر (70) کی دہائی میں ببو کو پلاٹ دیا تھا۔
ہندوستان میں ببو کی پہلی فلم " مایا جان" (1933) اور آخری فلم "پہلا پیار" (1947) تھی۔پاکستان میں ان کی پہلی فلم "شمی"(1950) اور آخری فلم"بزدل" (1969) تھی۔
ببو اچھی پنجابی بول لیتی تھیں۔
ان کی نشت و برخاست اور زبان پر پرانی دہلی کا جمال اور جلال حاوی تھا۔ جب بھی کوئی ان کے سامنے آتا تو ببو سر پر روپٹہ اوڑھ لیا کرتی تھیں۔ ان کے انتقال کے بعد راقم الحروف نے روزنامہ "مساوات" کے فلمی میگزین میں ببو کی یادوں پر ایک مضمون ، "ببو اور دو نارنگیاں" لکھا تھا۔
جولائی 1970 سے مارچ 1972تک میں عارضی طور پر کراچی سے صادق آباد چلا گیا تھا۔ اسی دواران ببو کی طبعیت خراب ھو گئی وہ دق (ٹی۔ بی) کے عارضے میں مبتلا تھیں۔ ببو نے یکم جنوری 1972 میں دنیا سے منہ پھیر لیا۔ میرے دوست نے بتایا کہ ان کے جنازے میں گنتی کے چند لوگ شامل تھے۔ شاید فلمی صنعت کا کوئی بھی شخص ان کی موت پر پر آیا ھو۔البتہ چند اخبارات نے ان کی مرنے کی خبر شائع کیں اور چند مضامین بھی لکھے گئے۔
" ہندوستان میں ببو کی فلمین"
***********************
1933:
مایا جال
مرزا صاحبان
رنگیلا راجپوت
1934:
شہر پرستان
مل مزدور
واسوریہ
1935:
پیار کی مار
1936:
من موہن
غریب پروار
بھولے بھالے
1937:
قزاق کی لڑکی
جاگیردار
کیپٹن کرتی کپور
ساگر کا شہر
1938:
وطن
تین سو دن بعد
گراموفون سنگر
سویا سماج
ڈائنا میٹ
پوست مین
1939:
لیڈیز اونلی
سروس لمیٹد
1940:
لکشمی
من بندھن
سہاگ
1941:
میرے راجہ
اکیلا
1944:
بڑے نواب صاحب
نصیب
پہلی نظر
1947:
پہلا پیار
"پاکستان مین ببو کی فلمیں"
***********************
1950:
شمی (پنجابی فلم)
گلنار
1954:
سسی
1955:
سوہنی
قاتل
کنواری بیوہ
عمر ماروی
منڈی
1958:
جان بہار
زہرعشق (نگار ایوارڈ یافتہ)
مکھڑا
1959:
آج کل
1960:
سلمہ
1961:
غالب
1963:
فانوس
دلہن
عشق پر زور نہیں
1966:
ارمان (پاکستان کی پہلی اردو پلاٹینم جوبلی فلم)
1969:
بزدل:::