عشاء کی نماز کےچارنفل پڑھ کر امام صاحب کے داہنے ہاتھ پرپچھلی صف میں بیٹھا تھا کہ محمد شریف نامی ایک غریب کاشت کار دیر سے آیا اور امام صاحب سے پوچھا کہ کیا چار رکعت نفل پڑھ سکتا ہوں۔
حافظ صاحب گھڑی آنکھوں کے قریب لائے اور کہا کہ ابھی وقت ہے چار رکعت نفل پڑھ لیں۔ وقت ہو جانے کے باوجود کیوں کہا کہ جماعت کھڑی ہونے میں وقت باقی ہے۔
متجسس ہوا اور نمازیوں پر نظر دوڑائی تو صوفی جمیل احمد صاحب مجھے نظر نہ آئے، سمجھ گیا کہ جمیل احمد لیٹ ہو گئے ہیں، اس لیے حافظ صاحب نے کہہ دیا کہ ابھی وقت ہے۔ تھوڑی دیر میں جمیل احمد صاحب کی لالٹین کی روشنی نظر آ گئی۔ حافظ صاحب نے فوراً کہا کہ جماعت کیلئے تکبیر کہہ دیں۔محمد شریف نفل نماز کی دوسری رکعت سے کھڑا ہو رہا تھا۔ امیر و غریب کی تفریق میرے لیے ناقابل برداشت تھی۔ غصے میں امام صاحب کے مصلے کے دائیں جانب کھڑے ہو کر زور دار آواز میں کہا کہ اس حافظ کی نماز اللّٰہ کیلئے نہیں بلکہ صوفی جمیل احمد کیلئے ہے۔حافظ کا رب اللّٰہ نہیں بلکہ جمیل احمد صاحب ہے۔ بآواز بلند کہا نہ اس حافظ کی نمازہے اور نہ اس کے پیچھے پڑھنے والوں کی، یہ کہہ کر مسجد سے باہر نکل گیا۔۔
یہ ایک واقعہ نہیں بلکہ زندگی ایسے ہی واقعات سےبھری ہوئی ہے۔ صرف ایک بات کہنا چاہوں گا کہ آپ اصولوں اور سچائی پرکھڑے رہ کر معاشرتی خرابیوں کا مقابلہ ضرورکریں لیکن دماغ کو ہمیشہ ٹھنڈا رکھیں۔ اللّٰہ تعالٰی نے مجھے کئی بار بڑے نقصان سے بچایا لیکن اب اسی وجہ دو جسمانی عارضوں کا سامنا کر رہا ہوں۔
رسالت مآب صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے محبت سے فرمایا گیا کہ ۔۔۔
اے محمد، شاید آپ ان کے ایمان نہ لانے پر رنج کرتے کرتے اپنی جان دیدیں گے۔
سورۃ الشعراء آیت 3
آیت مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ آپ لوگوں کے ایمان نہ لانے پر غم نہ کریں کیونکہ غم سے انسان کو فزیکلی بیماری لگتی ہے چونکہ طبیعاتی قوانین کا اطلاق سب پر یکساں ہوتا ہے اور ہاں اللّٰہ تعالٰی اگر چاہیں تو اپنے بندوں کیلئے طبیعاتی قوانین میں تصریف بھی فرماتے ہیں۔
چند روز گزرے ، ایک اور واقعے کی وجہ سے قرآن کریم سمجھ کر پڑھنا شروع کر دیا۔ قرآن مجید پڑھتا گیا۔ حیرت و استعجاب اور تجسس میں پڑھتا ہی چلا گیا ۔ رات دن پڑھتا رہتا۔ چوالیس سال پہلے گاؤں میں بجلی نہ تھی۔ راتوں میں دیا کی روشنی میں پڑھتا۔صرف ایک مہینہ میں ترجمہ کے ساتھ قرآن کریم پڑھ گیا تو میری زندگی بدل گئی۔۔۔۔ قرآن کریم میں فرقے نظر نہ آئے قرآن کریم میں مسلم اور مسلمان کےالفاظ تھے۔فرقہ پرستی کی سختی سے ممانعت پڑھی۔۔
اِنَّ الَّـذِيْنَ فَرَّقُـوْا دِيْنَـهُـمْ وَكَانُـوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْـهُـمْ فِىْ شَىْءٍ ۚ اِنَّمَآ اَمْرُهُـمْ اِلَى اللّـٰهِ ثُـمَّ يُنَبِّئُهُـمْ بِمَا كَانُـوْا يَفْعَلُوْنَ ..6/159۔
بیشک جن لوگوں نے اپنے دین کو جدا جدا کر دیا اور کئی جماعتیں بن گئےآپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں، بس ان کا معاملہ اللہ ہی کے حوالے ہے پھر وہی انہیں بتلائےگا جو کچھ وہ کرتے تھے۔
بڑے بھائی صاحب سندھ کام پر گئے اور جب واپس آئے تو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کی کافی ساری کتابیں لائے۔ چونکہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کے بارے میں اچھا نہیں سن رکھا تھا اس لیے کتابیں چولہے میں ڈال کر آگ لگادی۔ جب کتابیں جل رہی تھیں۔چولہے سے ایک کتاب اٹھائی اور پڑھنا شروع کر دی ابھی ایک صفحہ ہی پڑھا تھا جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔اب سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے کی بجائے تحقیقی ذہن سے پڑھنے کا عادی بن گیا۔
حسب دستور teen age کے دور میں دور کے رشتہ داروں میں ایک لڑکی سے ہلکی پھلکی سی محبت ہو گئی والدہ کو بتا دیا۔ والدہ نے لڑکی کے والدین سے رشتہ کیلئے کہہ دیا۔ ایک قریبی رشتے دار جو کہ لڑکی والوں کا زیادہ قریبی رشتے دار تھا۔ والدہ سے کہا کہ لڑکی پڑھ رہی ہے اس کے خیالات بہت اونچے ہیں۔ ساری گفتگو سن لی اور دل میں کہا کہ میں اب اس لڑکی شادی نہیں کروں گا مزید تعلیم کیلئےکالج میں داخلہ لے لیا۔
مشہور دانشور اور کالم نگار محترم ڈاکٹر صفدر محمود صاحب نےچند سال پہلے روزنامہ جنگ میں ایک پاکستانی کی بڑی دلچسپ کہانی لکھی جو پچاس کی دہائی میں امریکہ پڑھنے گیا، یونیورسٹی میں اس کی کلاس فیلو بہت خوبصورت تھی اور ہر ایک اس سے بات کرنے کی خواہش رکھتا تھا لیکن لڑکی بڑی سنجیدہ اور اسے کسی سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں تھی۔ پاکستانی نے فیصلہ کیا کہ میں نے اس کو بات کرنے پر مجبور کرنا ہے پاکستانی نے اپنی تعلیم پر اپنی پوری توانائی لگا دی اور جب رزلٹ آیا تو پی ایچ ڈی میں فرسٹ پوزیشن حاصل کی۔ سارے حیران رہ گئےکہ ایک دور دراز ملک سے آ کر، امریکنوں میں امریکی تاریخ اور جغرافیہ میں فرسٹ پوزیشن لے گیا اور پھر ایک دن وہ لڑکی اس کے پاس بیٹھی تھی اور بات کرنا چاہتی تھی۔ پاکستانی نے دل میں کہا کہ اس دن کیلئے تو اتنی زیادہ محنت کی۔ لڑکی امریکن تھی اور وہ وہیں رہ گئی، پاکستانی واپس پاکستان آگیا۔ تو بعض اوقات نوجوانی کی محبت بھی آگے بڑھنے کا موقع دیتی ہے۔
آپ اپنے Teen age بچے اور بچیوں میں ایسے رجحان دیکھیں اور آپ دیکھتے ہیں کہ فیصلہ درست نہیں ہے تو اس رجحان کو ڈانٹ ڈپٹ اور جبرو تشدد سے روکنے کی بجائے بچے میں دوسری قسم کے مثبت رجحانات کے دریچے کھول دیں۔
آخری گزارش ہےکہ ہمیں زندگی میں ایک بار نہیں دو بار نہیں سو بار نہیں بلکہ اپنے آپ کو ہر روز بدلتا ہے روز محاسبہ ہو کہ آج کل سے بہتر ہوا ہے کہ نہیں اگلے روز مزید بہتر ہونے کا سوچ کر سونا چاہیے۔
ہر وقت اپنے رب پر یقین ہو کہ میرا رب میری خطائیں معاف فرمائیں گے اور مجھے مزید مہلت عطا فرمائیں گے ۔۔۔ کہ میں اپنے آپ کو بہتر کر سکوں اور رب تعالیٰ کے بندوں کیلئے کچھ کر سکوں۔۔۔
اللّٰہ تعالٰی کے نزدیک پسندیدہ ترین بات یہ ہے کہ مسلمان اپنے والدین اور مسلمان بھائیوں کیلئے دعائیں مانگتا رہے ۔ 27/19,۔ 9-40/7 ، 46/15
قرآن کریم میں خوش خبری دی گئی ہے کہ فرشتے مسلمانوں کیلئے دعائیں مانگتے رہتے ہیں۔ سبحان اللّٰہ
تمھارے نام آخری خط
آج سے تقریباً پندرہ سال قبل یعنی جون 2008میں شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے ’اثبات‘ کااجرا کرتے ہوئے اپنے خطبے...