میرے کمرے کے دونوں دروازوں سامنے بیریوں کے درخت ہیں ۔ دونوں بیریوں پر بُھونڈوں کے بڑے بڑے چھتے اور ہر چھتے میں سینکڑوں بُھونڈ۔ باہر کی نسبت کمرہ قدرے ٹھنڈا ہے تو کمرے کا دروازہ کُھلتے ہی ایک دم سے بُھونڈوں کی پوری فوج اندر آ جاتی جیسے پہلے ہی دروازہ کُھلنے کے انتظار میں ہو ۔
بیٹی ملنے آئی ہوئی تھی ۔ بیٹی کے تین بچے ہیں ۔ چھ سال کی بیٹی ۔ پانچ سال کی بیٹی اور پھر تین سال کا محمد عبداللہ ۔
کل تینوں بچے میرے پاس بیٹھے تھے تو بیٹی کمرے میں آئی ۔ دروازہ کُھلا تو ساتھ ہی دس بارہ بُھونڈ بھی ایک دم سے کمرے میں آ گئے ۔ دونوں نواسیوں نے بَھڑوں کی فوج کمرے میں دیکھی تو ڈر کے مارے چینخیں مارتیں ساتھ ہی موجود واش روم میں گُھس گئیں ۔
بیٹی بھی قدرے ڈر گئی ۔ نواسہ صاحب نے جب ماں بہنوں کو ڈرتے دیکھا تو وہ ایک دم سے ایک ذمہ دار مرد بن گیا ۔ اپنی امی کو کھینچ کر واش روم میں بند کرنے کی کوشش کی اور خود ساتھ پڑی ہاکی اُٹھا کر اپنی عقل کے مطابق بُھونڈوں کو مارنے لگ گیا ۔
ابھی نواسہ صاحب کی کوشش تھی کہ بُھونڈ امی کو نا کاٹیں ، بیٹی کی کوشش تھی کہ بُھونڈ اُس کے بیٹے کو نا کاٹیں ، ماں ہے نا ۔ بیچاری شور مچاتی رہی کہ عبداللہ ، تم بھی واش روم میں جاؤ ، بُھونڈ کاٹ لیں گے لیکن صاحبزادے نے امی کی بات نا سُنی ۔
عبداللہ صاحب کی ہاکی سے بُھونڈ تو کیا مارے جاتے لیکن قد میں ہاکی سے کافی چھوٹے اُس مردِ مجاہد نے جرآت اور ہمت کی انتہا کر دی ۔
دونوں نواسیاں ڈرتی ڈرتی واش روم کے دروازے سے باہر جھانک کر تماشا دیکھتی رہیں ۔ اُنہیں اِس بات کی کوئی فکر نا تھی کہ بُھونڈ ان کی امی کو کاٹیں یا چھوٹے بھائی کو ۔ جبکہ اُنکا بھائی ہاکی لیکر بُھونڈوں سے لڑائی کرتا رہا ۔ ساتھ ساتھ بَھڑوں کو دھمکیاں بھی دیتا رہا ۔ تمہاری یہ جرآت ۔ تُم میری امی کو کاٹتے ہو ، تُم میری بہنوں کو کاٹتے ہو ۔ میں تمہاری جان لے لوں گا ۔ نواسہ صاحب سے اُس کی عقل اور طاقت کے مطابق بُھونڈوں کے خلاف جو بھی ہو سکا اُس نے کر دکھایا ۔
یہ سب دیکھ کر میں اُٹھا اور جیسے تیسے تمام بَھڑیں باہر نکالیں ۔ نواسہ صاحب نے بیٹی کو کھینچ کر صوفے پہ بٹھایا اور کسی ماہر ڈاکٹر کی طرح اپنی امی کا مُونہہ ، ہاتھ ، پیر بغور چیک کرنے لگ گیا کہ کہیں میری امی کو بُھونڈوں نے کاٹ تو نہیں لیا ۔
تین سالہ عبداللہ صاحب جب اپنی ماں بہنوں کی حفاظت کرتا بُھونڈوں سے لڑ رہا تھا تب دونوں نواسیاں اِس تمام لڑائی جھگڑے سے لاتعلق ہو کر واش روم میں چُھپی رہیں ۔ اُنہیں اپنی امی یا چھوٹے بھائی کی کوئی فِکر نا تھی ۔ وہ صرف اپنی جان بچاتی رہیں اور باہر تب نکلیں جب تمام بھونڈ کمرے سے جا چُکے تھے ۔
اُنہیں بس یہ خوشی تھی کہ وہ خود بُھونڈوں کے ڈَنگ سے بچ گئیں ۔