معاشرہ اور اخلاقی قدریں
ایک دفعہ خالد اسحاق اڈوکیٹ مرحوم کے مشہور زمانہ فورم میں اخلاقیات کا ذکر ہورہا تھا کسی نے موجودہ (مجھے یاد نہیں کس نے کہا تھا) نسل کے اخلاق کا شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اخلاقیات کس قدر بگڑ رہے ہیں ، دوسرے شرکاء نے بھی ان کی تائید کی ۔ مگر میں نے ان سے اختلاف کیا اور کہا کہ اخلاقیات وقت کے تقاضوں اور معاشرے کے مطابق ہوتے ہیں اور اس میں تبدیلیاں بھی معاشرے کے زیر اثر ہوتی ہیں ۔ میں نے انہیں اس کی مثال دی کہ جوش ملیح آبادی اپنی بدنام زمانہ کتاب 146یادوں کی برات145 میں ایک طرف فخریہ یہ لکھتے ہیں کہ ہمارے زمانے میں اس قدر پردہ تھا کہ ہمارے زنان خانے میں لمبی سبزیاں مثلاً بھنڈیاں بیگن وغیرہ کٹ کر اندر جاتی تھیں ۔ دوسری طرف فخریہ ذکر کرتے ہیں کہ میرے داد کی تیس لونڈیاں تھیں اور انہوں نے زندگی میں چند ہی راتیں ایسی گزاریں ہیں جس میں عورت ان کی ساتھ نہ سوئی ہو ۔ اس پر سب شرکاء نے زور دار قہقہ لگایا لیکن میری رائے سے اتفاق کیا ۔
مسلمانوں کے تاریخ میں لونڈیوں اور غلاموں کا ذکر کثرت سے ملتا ہے اور ان سے آزادنہ جینسی تعلقات رکھے جاتے تھے ۔ اسے مذہبی بنیادوں پر برائی تصور نہیں کیا جاتا تھا ۔ لیکن آج کے زمانے میں لونڈی اور غلام رکھنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ مسلم معاشرے میں عورت کو بہت سے حقوق حاصل تھے جو کہ اس سے پہلے کسی معاشرے میں عورت کو نہیں ملے ۔ لیکن برصغیر کے مسلم معاشرے میں ہندوؤں کے خیالات کے زیر اثر عورت سے ہر قسم کی آزادی اور حقوق چھین لیے گئے ۔ طلاق تو درکنار اگر وہ بیوہ ہوجاتی تو اس کو دوبارہ شادی کی اجازت نہیں تھی۔ باپ ، بھائی اور شوہر کی رضامندی اس کی معراج ہوگئی تھی اور یہ تصور کیا جاتا تھا کہ اسے کسی قسم کی تعلیم کی ضرورت نہیں ۔ یہاں تک کہ سرسید اور ان کے رفقا بھی لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں نہیں تھے ۔ پہلے صرف پردہ دار عورت ہی شریف کہلاتی تھی ۔ جب کہ بے پردہ عورت چاہے اخلاقی طور پر کتنی مظبوط ہو مگر اسے ناپسند کیا جاتا تھا ۔ اب صورت حال اس کے برعکس ہے عورتیں اب قدرے آزاد ہیں اور آزادانہ باہر نکلتی ہیں ۔ اب لڑکیوں کے لیے بھی لڑکوں کی طرح تعلیم حاصل کرنا بہت ضروری سمجھا جاتا ہے ۔ لڑکیاں اب تعلیم اور ملازمت بھی کر رہی ہیں ۔ اب ایک بیوی پہلے کی طرح گھر میں بند نہیں رہتی ہے بلکہ زندگی کے ہر میدان وہ اپنے شوہر کی میں مدد گار ہے ۔
برصغیر کے معاشرے میں شریف اور کمین کی تفریق واضح تھی ۔ شریف عموماً وہ لوگ کہلاتے جو کسی قسم کا کام نہیں کرتے تھے ۔ یہ عموماً جاگیر دار یا زمیندار ہوتے تھے یا اہم ملکی عہدوں پر تعینات افراد تھے ۔ جب کہ محنت کش افراد کمین کہلاتے تھے جو عموماً مختلف طرح کے کام یا محنت مزدوری کرتے تھے ۔ شریف طبقہ صرف عیاشی کرتا تھا اور کوئی کام نہیں کرتا تھا ۔ ان محنت کشوں کو اس قابل نہیں سمجھتا تھا کہ ان سے اخلاق کے دائرے میں بات کی جائے یا ان کی عزت یا توقیر کی جائے ۔ ان کے ساتھ ہر ظلم روا رکھا جاتا تھا اور انہیں جوتے کی نوک پر رکھتا تھا ۔ آج بھی یہ تفریق ہمارے ملک میں جاگیر دار معاشرے میں رائج ہے ۔ البتہ شہروں میں یہ تفریق خاصی کم ہوکر پیشہ کی نوعیت سے رہ گئی ۔ مثلا خاکروب سے لوگ عموماً اس لیے دور رہتے ہیں کہ یہ گندے رہتے ہیں ۔ لیکن ان سے برا سلوک پھر بھی نہیں کیا جاتا ہے اور ہر کام کرنے والے کی عزت کی جاتی ہے ۔
آج ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اگر ہم جائزہ لیں تو اخلاقی قدریں اس قدر بری نہیں ہیں کہ نئی نسل پر اخلاق کے بگڑنے کا الزام لگایا جائے ۔ اگر ان میں کوئی خرابی ہے تو اس کی وجہ گھریلو تربیت پر ہے ۔ اگر اب کچھ برائیاں ہیں تو پہلے بھی کچھ برائیاں تھیں ۔ برائیوں سے پاک کوئی معاشرہ نہیں ہوسکتا ہے ۔ یہ بات اور ہے کہ وہ یاد نہیں آتی ہیں ۔ پہلے اچھے گھرانوں میں باپ اپنے بچوں سے کم ہی باتیں کیا کرتے تھے ۔ بچوں کو کچھ کہنا ہوتا تو وہ ماں کے ذریعہ کہلواتا تھا اور باپ کا کہا حکم کا درجہ رکھتا تھا ۔ کبھی بچوں کو باپ بلاتا تھا تو ان کی حالت خراب ہوجاتی تھی اور وہ باپ کے پاس جانے سے پہلے وہ اپنا حلیہ درست کرتے تھے ۔ جب کہ آج کل کے بچے اپنے باپوں سے آزادانہ اظہار رائے بلکہ اختلاف بھی کرتے ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج کل بچوں میں تعلیم اور میڈیا کی وجہ سے زیادہ شعور اور اعتماد حاصل ہوگیا ہے اور وہ اب اپنے بابوں کے زیادہ قریب آگئے ہیں پہلے اس کا تصور بھی نہیں کیا سکتا تھا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔