جب نیوٹن کو پہلی بار زناٹے دار تھپڑ پڑا تو وہ ایک کھیت میں تھے۔ ان کے ماموں ان کو سمجھا رہے تھے کہ گندم کو کس ترتیب سے بونا چاہیے جبکہ نیوٹن دھوپ کو دیکھ کر سوچ رہے تھے کہ روشنی کس چیز سے بنی ہے۔ ان کی عمر سات برس تھی۔
نیوٹن کے والد کا انتقال ان کی پیدائش سے پہلے ہو گیا تھا اور ان کی والدہ نے اپنے بیٹے کو نانا کے حوالے کر کے کسی اور شخص سے شادی کر لی۔ اپنے نانا، مامووٗں اور کزنز کے درمیان اِدھر اُدھر پھرتے پھراتے رہے۔ ان کے حصے میں محبت کم ہی آئی۔
ان کے ماموں ان پڑھ تھے لیکن یہ پتا تھا کہ کھیتی باڑی کیسے کرنی ہے۔ یہ ان کی مہارت تھی اور گندم کی فصل کی قطاریں گننے نیوٹن کو ساتھ لے جاتے تھے۔ یہ وہ واحد وقت تھا جب ان کو توجہ ملتی تھی اور جس طرح کسی صحرا میں پیاسے کو پانی کی طلب ہوتی ہے۔ یہ توجہ نیوٹن کی طلب تھی۔
ماموں کا یہ بھانجا ان کے اندازے سے بھی تیز نکلا۔ آٹھ سال کی عمر میں وہ مویشیوں کی اگلے سال کی خوراک کی ضرورت کا حساب لگا لیا کرتے تھے۔ نو سال کی عمر میں یہ کیلولیشن کر لیا کرتے کہ گندم، جو اور آلو کی کاشت کتنے ایکڑ پر کی جائے۔
دس سال کی عمر میں نیوٹن نے فیصلہ کر لیا کہ کھیتی باڑی ان کے لئے نہیں اور وہ یہ کیلکولیٹ کریں گے کہ سورج مختلف موسموں میں کونسا راستہ ٹھیک ٹھیک لیتا ہے۔ ان کے ماموں کو سورج کے راستے میں کوئی دلچسی نہیں تھی کیونکہ یہ معلومات ان کے میز تک کھانا پہنچانے میں مدد نہیں کرتی تھی۔ اس پر ایک اور تھپڑ نیوٹن کا انتظار کر رہا تھا۔
سکول جا کر بھی نیوٹن کے حالات زیادہ اچھے نہیں ہوئے۔ وہ کمزور اور غیرحاضر دماغ تھے۔ ان کا دوسرے سے زیادہ میل جول نہیں تھا۔ جب دوسرے بچے کرکٹ کھیل رہے ہوتے، وہ گھنٹوں ندی کو بہتا دیکھ رہے ہوتے کہ آنکھ روشنی کو کیسے دیکھ سکتی ہے۔
اپنی نوٹ بُک میں ایک روز انہوں نے لکھا۔ “میں چھوٹا سا لڑکا ہوں۔ کمزور اور زرد رنگت۔ میرے لئے اس دنیا میں کوئی جگہ نہیں۔ میں کیا کروں؟ میں کیا کر سکتا ہوں؟ کچھ بھی نہیں، سوائے رونے کے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں تک نیوٹن کی آپ بیتی تقریباً ٹھیک ہے۔ لیکن ہم فرض کرتے ہیں کہ کسی متوازی کائنات میں نیوٹن فزکس کی دنیا کے بجائے نفسیات کی دنیا میں چھان بین کرنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ ویسا ہی تیز مشاہدہ رکھنے والے ہیں۔ اپنے ساتھیوں کا، اپنے خاندان کا اور دوسرے لوگوں کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں، ان مشاہدات کو ڈائری پر نوٹ کرتے رہتے ہیں۔ ہر لفظ کو، ہر عمل کو۔ لوگوں کی سینکڑوں صفحات پر مشتمل وہ چیزیں لکھ لیتے ہیں جن سے وہ لوگ خود آگاہ نہیں۔ اور پھر جس طرح انہوں نے اس سیب کے گرنے سے لے کر چاند اور سورج کے چکروں کے راز کھولے، اس کے بجائے وہ ہمارے اندر کی دنیا کے راز کھولتے ہیں۔ حرکت کے بجائے جذبات کے قوانین لکھتے ہیں اور ساتھ گریویٹی کے۔ فزکس کے بجائے انسانی معاشرت کی گریویٹی کے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیوٹن اپنے کمرے میں بیٹھے ہیں۔ کئی ہفتوں سے تنہا کام کر رہے ہیں۔ وقت کا احساس نہیں۔ کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں۔ مشاہدات کا تجزیہ کر رہے ہیں۔ اب انہوں نے ایک اور خالی صفحہ نکالا۔ اس بار اس میں ایک بڑا سا دائرہ بنایا۔ اس دائرے کی لکیر پر نشان لگائے اور نقطہ دار لکیریں کھینچیں۔ یہ سب لکیریں مرکز کی طرف جا کر ملتی تھیں۔ اس کے نیچے انہوں نے لکھا۔
“یہ ہماری اقدار کی ایموشنل گریویٹی ہے۔ ہم اپنے مدار میں ان کو کھینچ لیتے ہیں جن کے نزدیک ایک ہی چیز کی اہمیت ہوتی ہے۔ اور ان کو دور دھکیلتے ہیں جن کی اقدار اس سے مخالف ہوں۔ آپس میں کھینچنے کی یہ قوت ایک سا ذہن والے لوگوں کے کسی ایک اصول کے گرد مدار بنانا شروع کر دیتی ہے۔ ہر کوئی ایک ہی راستے پر کسی ایک ہی پسندیدہ شے کے گرد چلنے لگتا ہے۔ گروپ بننا شروع ہو جاتے ہیں”
اس کے بعد انہوں نے ایک اور دائرہ لگایا۔ یہ پہلے کے قریب تھا اور تقریباً اس کو چھوتا تھا۔ یہاں سے انہوں نے دونوں دائروں کے درمیان ٹینشن کی لکیر کھینچی۔ یہاں پر گریویٹی دونوں اطراف میں کھینچتی تھی۔ اس پہلے مدار کی پرفیکٹ سمٹری اس سے ٹوٹ جاتی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے لکھا۔
“لوگ بڑی تعداد میں اکٹھے ہو کر قبائل اور کمیونیٹی بناتے ہیں جس کا تعلق ہماری جذباتی وابستگی سے ہوتا ہے۔ آپ کو سائنس پسند ہے اور مجھے بھی۔ اس لئے یہ جذباتی مقناطیس ہمیں فیس بُک پر ایک گروپ میں اکٹھا کر دیتا ہے۔ ہمارا یہ مشترک شوق ہمیں قریب لے آتا ہے۔ ہم ایک دوسرے کے مدار میں داخل ہو جاتے ہیں۔ یہ دوستی کا میٹافزیکل رقص ہے۔ اقدار ہم آہنگ ہو گئیں اور ہماری کاز ایک ہو گئی”۔
لیکن نہیں۔ ہم میں سے ایک اپنے سُنی ہونے کو اہمیت دیتا ہے، دوسرا اپنے شیعہ ہونے کو۔ اب یہ گریویٹی کی ایک اور طرح کی کشش آ گئی۔ ہمارے ہم آہنگ مداروں میں ایک ٹینشن آ گئی۔ یہ شناخت کی ٹینشن ہے، جو منفی جذبات پیدا کرے گی اور ایک دوسرے سے دور دھکیلے گی۔ آپس کی کاز میں اختلاف ہے۔
“یہ ایموشنل گریویٹی، انسانی تنازعات اور کوششوں کی تنظیم کی بنیاد ہے”۔
اب آئزک نیوٹن نے ایک اور صفحہ نکالا اور مختلف سائز کے دائرے بنانا شروع کر دئے۔ “ہم جس قدر کو جتنی اہمیت دیں، یعنی باقی اقدار کی مقابلے میں اس کو زیادہ یا کم اہم سمجھیں، اس کی گریویٹی اتنی زیادہ یا کم ہو گی۔ اس کا مدار انتا ہی ٹائٹ ہو گا اور دوسری فورس کے لئے اس مدار سے ہٹانا اتنا مشکل ہو گا”۔
“جو اقدار ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہیں، ہم اس کے گرد محورِ گردش لوگوں کے ہاتھ زیادہ مضبوطی سے پکڑیں گے۔ اس سے مخالف قدر رکھنے والوں کو اتنی شدت سے دھکیلیں گے۔ یہ ایک جسم بنتا جائے گا۔ ایک مربوط جسم، جو کسی ایک قدر کے گرد چکر کاٹ رہا ہو گا۔ سائنسدان سائنسدان کے ساتھ، انسانی حقوق کا ایکٹوسٹ دوسرے ایکٹوسٹ کے ساتھ۔ جو لوگ ایک مشترک چیز سے نفرت کرتے ہوں گے، وہ بھی قریب آتے جائیں گے۔ جن کی محبت یا نفرت فرق چیزوں سے ہو گی، وہ دور جاتے رہیں گے۔ انسانی نظام اس طرح ایک توازن کی حالت پا لیں گے جس میں مشترک اقدار کے سسٹم کے گرد کہکشائیں بن جائیں گی ۔۔۔۔ لوگ جب زیادہ قریب آئیں گے تو اپنی ذاتی اقدار کو اس بڑے ویلیو سسٹم میں ضم کر لیں گے۔ ایک کہانی، ایک شناخت۔ اور یوں ایک گروہی شناخت وجود میں آ جائے گی”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب آپ نیوٹن سے پوچھیں گے کہ “نیوٹن بھیا! لوگوں کی اقدار اور اہم چیزیں تقریباً ایک ہی جیسی نہیں؟ ہر ایک کو پیٹ بھر کر روٹی اور سر پر چھت نہیں چاہیے؟ ہر ایک تنہائی، بے وفائی اور بیماری سے خوفزدہ نہیں؟ ہر کسی کو ظلم تنگ نہیں کرتا؟” آپ غلط نہیں کہہ رہے لیکن نیوٹن کے پاس اس کا جواب ہے۔
“تمام لوگ تقریباً ایک ہی جیسے ہیں۔ فرق زیادہ نہیں۔ ہم سب کی زندگی میں تقریباً ایک ہی جیسی خواہشات ہیں۔ لیکن یہ جو تقریباً کا لفظ ہے، یہ بڑا اہم ہے۔ یہ جو معمولی سے فرق ہیں، یہ جذبات پیدا کرتے ہیں۔ جذبات اہمیت پیدا کرتے ہیں۔ ہم دوسروں کو ان اختلافات کے عدسے سے دیکھتے ہیں۔ ہمارے بڑے اتفاق کے مقابلے میں معمولی اختلاف زیادہ اہم ہیں۔ اور یہ انسانوں کی ٹریجڈی ہے۔ ان معمولی اختلافات سے جنم لینے والے بڑے ٹکراوٗ۔ یہ انسانی تاریخ ہے”۔
“ایموشنل گریویٹی کی یہ تھیوری، مشترک اقدار کی مطابقت سے جنم لینے والے گروہ، انسانی تاریخ کی وضاحت کر دیتے ہیں۔ دنیا کا جغرافیہ ایک سا نہیں۔ ایک خطہ جو قدرتی طور پر دشوار گزار ہے اور بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ ہے، اس کے لوگوں کے لئے تنہائی اور نیوٹرل رہنا ان کی قدر ہے۔ انفرادیت ان کے لئے اہم ہے۔ یہ دوسروں سے زیادہ سروکار نہیں رکھتے۔ یہ ان کی گروہی شناخت بن جاتی ہے۔ ایک اور خطہ جو زرخیز ہے، یہاں پر اشیائے خورد و نوش کی فراوانی ہے۔ مہمان نوازی، تقریبات اور فیملی ان کی شناخت بن جاتی ہے۔ ایک اور خطہ جو خشک ہے، رہنا مشکل ہے جبکہ دوسروں کا یہاں پر گزر آسان ہے۔ یہاں کے لوگ جلد ہی اتھارٹی کو ویلیو کرنے لگیں گے، مضبوط عسکری قیادت ابھرے گی اور جارحانہ مزاج ان کی گروہی شناخت بن جائے گی۔
جس طرح شناخت فرد کے لئے اہم ہوتی ہے، ویسے ہی کمیونیٹی، قبیلے اور گروہوں کے لئے بھی۔ یہ کلچر اپنے آپ کو اکٹھا کر کے قوموں کی شکل میں ڈھل جائیں گے۔ پھیلیں گے۔ مزید لوگوں کو اپنی چھتری تلے اکٹھا کریں گے۔ پھر کہیں ۔۔۔ یہ قومیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں گی، مخالف اقدار کا تصادم ہو گا۔
زیادہ تر لوگ اس میں اپنی ذات کی پرواہ نہیں کرتے۔ کلچرل اور گروہی اقدار فرد سے زیادہ اہم ہوتی ہیں۔ یہ اعلیٰ ترین مقصد کے لئے جان دے دینے کی پرواہ نہیں کریں گے۔ اپنے خاندان کے لئے، اپنے پیاروں کے لئے، اپنی قوم کے نام پر۔ یہ گروہوں کا تصادم ہو گا۔ جنگ ہو گی۔
اس میں کچھ فاتح ہوں گے۔ وہ جو زیادہ پھیل سکیں گے، وہ یہ سمجھیں گے کہ یہ ان کا حق تھا۔ ان فاتحین کی کہانیاں تاریخ میں لکھی جائیں گی۔ دوسروں کو سنائی جائیں گی۔ ہر نسل کے ساتھ ان میں نئے رنگ بھرتے جائیں گے۔ وقت کے ساتھ کہانیاں نئے روپ دھاریں گی۔یہ اگلی نسلوں کے لئے امید کی کہانیاں بن جائیں گی۔ لیکن دنیا ساکن کب رہی ہے۔ اس بدلتی دنیا میں پھر کوئی اور آ جائے گا۔ نئی قوم، نئی اقدار۔ نیا دور شروع ہو جائے گا۔ تاریخ کا چکر چلتا رہے گا۔
جیسے گریوٹی اجرامِ فلکی بناتی ہے۔ مدار تشکیل دیتی ہے۔ تصادم کرواتی ہے۔ ستارے روشن کرتی ہے اور ان کو بجھا دیتے ہیں، کہکشاوٗں کی شکلیں بناتی ہے۔ ویسے ہی ایموشنل گریویٹی معاشرے تشکیل دیتی ہے۔ بڑے گروہوں کے اندر چھوٹے گروہ۔ تلخیاں اور جھڑپیں، محبت اور یگانگی۔ کسی تحریک کے لئے اکٹھا ہونے والا گروپ، اس گروپ کے خلاف اکٹھا ہو جانے والا ایک اور گروپ۔ باغبانی کے شوق سے لے کر نظام پلٹا دینے جیسے طرح طرح کے مقاصد کے گرد محوِ گردش مجمع۔ یہ معاشرے کی تنظیم ہے۔ انسانی پراگریس ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیوٹن نے اپنی تحریر ختم کر لی۔ اپنے ان صفحات کو دوبارہ پڑھا اور ایک تکلیف دہ احساس ہوا۔ ان کا اپنا کوئی مدار نہیں تھا۔ سالوں تک سوشل ناکامیوں اور ٹراما کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو ہر شخص اور ہر چیز سے الگ کر لیا تھا۔ جیسا ایک آوارہ ستارہ اپنی ہی دھن میں جا رہا ہو۔ کسی بھی اور کی کشش سے آزاد۔
انہیں اپنی تنہائی کا اب شدت سے احساس ہوا کیونکہ کوئی بھی منطق، کوئی بھی کیلکولیشن ان کو اس تکلیف دہ احساس سے آزاد نہ کروا سکتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصلی اور اس فرضی نیوٹن نے 1666 کے موسمِ گرما میں ان بڑے سوالوں کے جواب دے دئے تھے۔ کچھ ہی مہینوں کی کوشش سے اس 23 سالہ نوجوان نے اکیلے ہی ان اسرار کو حل کر دیا تھا جو فلسفیوں اور سائنسدانوں کو صدیوں سے پریشان کرتے آئے تھے۔ یہ سب ایسا کیوں ہے؟ نیوٹن کا کوڈ توڑ دیا تھا۔ لندن سے ایک روز کی مسافت پر ایک گاوٗں کے کمرے میں یہ عظیم دریافت کر لینے کے بعد، انہوں نے اپنے ان کاغذوں کو ایک کونے میں پھینک دیا۔
ان کی دریافتیں یہاں پڑی ہیں۔ دنیا کی نگاہوں سے پوشیدہ۔ گرد آلود ہو جانے والے ان کاغذوں میں۔۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...