ڈاکٹر ریاض توحیدی ؔکا نام سنتے ہی جموں وکشمیر کے ایک معتبر افسانہ نگار کا نام ذہن میں آتا ہے اور کیوں نہ آئے کیونکہ ڈاکٹر ریاض توحیدی پہلے ایک اچھے اور کامیاب افسانہ نگار ہیں‘ بعد میں تنقید نگار‘اوروہ سب سے پہلے اپنے آپ کو افسانہ نگار ہی کہلوانا پسندکرتے ہیں۔لیکن اتنی بات طے ہے کہ ڈاکٹر توحیدی صاحب تنقیدی بصیرت بھی رکھتے ہیں‘ جس کااندازہ ان کی تنقیدی نگارشات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔وہ مدلل بحث کرتے ہوئے کسی بھی موضوع پر روشنی ڈالتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ ایک فنکار کی اپنے فن پر زیادہ گہری نظر ہوتی ہے ‘اس لیے ان کی رائے معتبر مانی جاتی ہے ‘حالانکہ حرف آخر نہیں۔اس تعلق سے حال ہی میں ڈاکٹر ریاض توحیدی کی ایک اہم کتاب ’’ معاصر اردو افسانہ (تفہیم و تجزیہ) شائع ہوئی ہے‘جو ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہورہی ہے۔
کتاب کا پہلا باب’ افسانہ: فن و تکنیک‘‘ ہے۔اس باب میں ڈاکٹر ریاض توحیدی نے افسانے کے فن پر سیر حاصل گفتگو کی ہے اور افسانے کے فن اوراجزا ء پر نئے تناظر میں بھرپور روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ مختلف افسانوی اصطلاحات کی وضاحت بھی کی ہے۔اس باب کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ افسانے کی مختلف مابعد جدید اصناف کے نام بھی گنائے گئے ہیں‘جیسے فلیش فکشن، نینو فکشن، مائکرو فکشن وغیرہ۔
کتاب کے دوسرے باب میں علامتی افسانے کے فنی مضمرات پر بحث چھیڑی گئی ہے اور یقینا یہ باب ایک منفرد باب ہے کہ غالباََا ب تک اردو میں علامتی افسانے کے فن پر بہت کم لکھاگیا ہے۔یوں تو علامت و علامتی افسانے کانام سب نے سنا ہوگا لیکن بہت کم ایسے ہوں گے جو علامتی افسانے کے صحیح مفہوم سے واقف ہوں گے۔علامت کی تعریف میں ڈاکٹر توحیدی فرماتے ہیں:
’’ کسی بھی لفظ یا شے کے علامتی اظہار کا مدار ماحول کی کیفیت میں مضمر ہوتا ہے۔اب شعر و ادب میں علامت نگاری کی بات کریں تو شعر و ادب میں علامت کا استعمال تخلیقی اظہار کا ایک معنی خیز وسیلہ ہے۔اسی بنیاد پر علامت کو’’ تخیلی تجربات کی گاڑی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔کیوں کہ علامتی اسلوب کسی بھی تخلیق کی امکان خیز معنویت میں توانا کردار ادا کرتا ہے اور تخلیق کی معنوی جہات میں وسعت پیدا کرنے کا تخلیقی وسیلہ بنتا ہے۔‘‘
کتاب کا تیسرا باب ’’مائکرو فکشن‘‘ ہے۔اس باب میں مصنف نے آج کے دور کی ایک اہم صنف مائکرو فکشن پر گفتگو کی ہے۔ڈاکٹر توحیدی کے مطابق مائکروف یا مائکرو فکشن میں بیان کے برعکس بیانیہ کا زیر نظر رہنا ضروری ہے اور پلاٹ چست ہونے کے ساتھ ساتھ کہانی میں خیالات کا ربط ہونا ضروری ہے۔مضمون میں مائکرو فکشن پر اگرچہ معلومات افزء خیالات پیش ہوئے ہیں‘ تاہم سوشل میڈیا کے ادبی فورمز پر پیش ہورہی ادبی تحریرات پرموصوف کے چند خیالات سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے ‘کیونکہ ان فورمز پر براہ راست ادب پیش کرنا ادب کے لیے نیک شگون نہیں اوران فورمز پر پیش ہورہی چیزوں کی عمر زیادہ نہیں ہوسکتی۔
کتاب کا اہم باب ’’ کشمیر کے معاصر اردو افسانوں کے تخلیقی رویے‘‘ ہے۔ اس باب میں مجموعی طور پر ڈاکٹر توحیدی نے کشمیر میں مزاحمتی فکشن کے حوالے سے بات کی ہے اورکشمیر کے متعدد افسانہ نگاروں کے افسانوں پرفکر انگیز تجزیہ کیاہے۔ان افسانہ نگاروں میں عمر مجید، نو ر شاہ، منصور احمد منصور ، وحشی سعید، طارق شبنم ،راجہ یوسف،پرویز مانوس بٹ ، جان محمد آزاد، مشتاق مہدی،ایثار کشمیری، ڈاکٹر ریاض توحیدی، ترنم ریاض ، زاہد مختار، دیپک کنول، غلام نبی شاہد، شیخ بشیر احمد، وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں ( فہرست سازی مقصود نہیں)۔ ڈاکٹر توحیدی کے مطابق کشمیر کے اردو افسانے میں اس خوف کی فضا کا احساس واضح طور پر ہوتا ہے جو خوف و ڈریہاں پر ۹۰ کی دہائی سے پھیلا ہواہے۔بقول توحیدی صاحب،’’ خوف ــ‘‘ کشمیر کے معاصر اردو افسانے کا تخلیقی استعارہ بن گیا ہے‘‘۔منصور احمد منصور کے افسانے ’’سند باد جہازی کی ڈائری ‘‘ سے یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ اس شہر کے بیچوں بیچ ایک بڑی شاہراہ ہے جو شاہراہ ستم کہلاتی ہے۔یہ شہر کی قابل دید شاہراہ ہے۔اس شاہراہ پر خواجہ سگ پرست کی حکمرانی ہے۔اس لیے آدمی قید ہیں اور کتے آزاد۔ شاہراہ ستم کے ایک طرف آہنی پنجرہ ہے جس میں پیر و جوان قید ہے۔‘‘
کُتے کی علامت سے یہاں کیا مراد ہے۔۔۔؟ شاہراہ ستم کہاں پر واقع ہے۔۔۔؟ ان چیزوں سے شائد ہی کوئی کشمیری ناواقف ہو اورخواجگان سگ پرست نے یہاں کتنے جوانوں کو ٹنل کے اُس پار قید کرکے رکھا ہے ‘سب پر عیاں ہے، یہاں تک کہ بزرگوں تک کو نہیں بخشا گیا۔
اس کے بعد کتاب کا ایک ہم حصہ شروع ہوتا ہے‘ جس میں ڈاکٹر ریاض توحیدی نے نہ صرف ریاست بلکہ دنیا بھر میں لکھے گئے متعدد افسانوں کے تجزئے پیش کیے ہیں۔ان میں اَدھا (گلزار)، لینڈرا( اسلم جمشید پوری)، سمند ر،جہاز اور میں( افشاں ملک)، کمیکل(تحسین گیلانی)، مرگھٹ(شموئل احمد)،شمال کی جنگ( نعیم بیگ)، پھانسی(قرب عباس)، پہلا چہرہ( زاہد مختار)، سامری(وحشی سعید)، ہوا(عبدالغنی شیخ)، منڈیر پر بیٹھا پرندہ( ڈاکٹر احمد صغیر)، جنت والی چابی( ڈاکٹر ریاض توحیدی۔۔تجزیہ ڈاکٹر بشارت خان)۔ان افسانوں کے تجزئے پڑھ کر قاری یقینا معاصر اردو افسانے کے منظرنامے اور اس کے خدو خال سے واقف ہوجاتا ہے۔مثلا َافسانہ مرگھٹ(شموئل احمد)پر ڈاکٹر توحیدی کی رائے ملاحظہ ہو:
’’افسانہ مرگھٹ ، شموئل احمد کا ایک علامتی افسانہ ہے ۔ اگر متن کی ردتشکیل کرکے فوکس کریں تو یہ ان دہشت پسند لوگوں کی خوں آشام کہانی کا بیانیہ ہے جو مختلف جگہوں یا ملکوں میں مذہب یا سیاست کے نام پر اپنے ہی لوگوں یا عام معصوم لوگوں کو قتل کرتے جارہے ہیں، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ جس مقصد کے لیے وہ یہ انسانیت سوز کام انجام دے رہے ہیں ، کیا وہ صحیح ہیں۔‘‘
وحشی سعید کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ پچھلی کئی دہائیوں سے وہ افسانے لکھ رہے ہیں اور آج ان کا شمار جموں و کشمیر کے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔وحشی سعید کے افسانے ’’سامری‘‘ پر اس طرح اظہار خیال کیا گیا:
’’سامری کے پس منظرسے ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسا تواریخی کردار ہے جوحضرت موسیٰ ؑکی قوم کا ایک مشہور جادوگر تھا جس نے لوگوں کو راہ راست سے بھٹکانے کے لیے ایک سنہری بچھڑا بنایا تھا اور لوگوں کو گمراہ کرکے بچھڑے کی پوجا کرانے میں کامیاب ہوا تھا۔‘‘
ڈاکٹر توحیدی نے ا س افسانے کو موجودہ حالات کے تناظر میں پرکھا ہے اور یقینا یہ افسانہ خطوں سے ماوریٰ اور عالمی سطح پر ’’منتخب ڈکٹیٹر شپ‘‘ (Elected dictatorship)کے پس منظر میں لکھا گیا ہے‘ جہاں حکمرانوں نے سیاسی کرتب بازیوں سے عوام کو اپنے جال میں پھنسایا ہے اور پھر ان کا استحصال کررہے ہیں۔
کتاب کے آخری حصے میں کئی اہم کتابوں پر تبصرے/تجزئیے شامل ہیں ۔ان مضامین میں بھی ڈاکٹر توحیدی نے اپنے تنقیدی خیالات پیش کیے ہیں، جو بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور آج کے ادب بالخصوص افسانے کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔
مجموعی طور پر کتاب کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈاکٹر ریاض توحیدی صرف نہ جموں و کشمیر کے ایک کامیاب افسانہ نگار ہیں بلکہ وہ ایک اچھے تنقید نگار بھی ثابت ہورہے ہیں۔ اب کتاب میں بہت سی جگہوں پر اردو اصطلاحات کے ساتھ ساتھ بریکٹ میں انگریزی ترجمہ بھی ساتھ ہے جس کی فہرست(یا انگریزی ترجمہ) اگر آخر پر موجود ہوتی تو اچھا رہتا ۔ ’’کتاب کے تعارفی صفحہ پرمصنف‘‘ کی جگہ ’تخلیق کار ‘آیا ہے جو درست نہیں بلکہ یہاں’’ مصنف‘‘ ہونا چاہئے۔ بہرحال معاصر اردو افسانہ کے منظر نامے کو سمجھنے کے لئے یہ کتاب بڑی اہم قرار دی جاسکتی ہے اور اس کا مطالعہ ہر با ذوق قاری اور طالب علم کے لیے ضروری محسوس ہوتاہے۔