تبصرہ۔۔۔(بشکریہ "کشمیر عظمی۔۔۔)
تصنیف :معاصر اردو افسانہ ۔۔۔تفہیم وتجزیہ
مصنف : ڈاکٹر ریاض توحیدی،
مبصر: ڈاکٹر بشارت خان
پبلیشر : ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاوس دہلی
’’معاصر اردو افسانہ ۔۔۔تفہیم وتجزیہ‘‘ڈاکٹر ریاض توحیدی ؔ کی تازہ تنقیدی تصنیف ہے ‘جو رواں سال جون کے مہینے میں شائع ہوکر آئی ہے۔اس سے پہلے تحقیق و تنقید اور فکشن کے تعلق سے ڈاکٹر صاحب کی حسب ِ ترتیب چار کتابیں ‘جہانِ اقبالؔ(2010)‘کالے پیڑوں کا جنگل(2011)‘ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم بحیثیت اقبالؔ شناس(2013)‘اس کادوسرا ایڈیشن حال ہی میں عکس پبلکیشن پاکستان سے شائع ہوا ہے‘اور کالے دیوؤں کا سایہ(2015)شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں۔
پیش نظر کتاب ’’معاصر اردو افسانہ ‘تفہیم و تجزیہ ‘‘کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ اردو افسانے کے عصری منظر نامے کو موضوع گفتگو بنانے کی عکاسی کرتی ہے اور جب قاری کتاب کا مطالعہ کرتا ہے تو شاملِ کتاب مضامین اورتجزیوں سے پتہ چلتا ہے کہ واقعی کتاب میں نہ صرف معاصر افسانوں پر ہی گفتگو کی کئی ہے بلکہ فنِ افسانہ اور فکشن تنقید پر بھی بصیرت افروز روشنی ڈالی گئی ہے‘جس سے بہت حد تک اردو افسانے کے ارتقائے مراحل اور افسانہ نگاری کے فنی لوازمات اور تنقیدی طریقہ کار کافکرانگیز اور معلومات افزاء ڈسکورس سامنے آتا ہے۔خود مصنف بھی پیش لفظ میں یہ کتاب لکھنے کے مقاصدکااظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ’’آج بھی بیشتر احباب معاصر افسانے کے برعکس صرف پرانے افسانوں یا افسانہ نگاروں کو ہی زیر مطالعہ رکھتے ہیں۔اس میں اگرچہ کچھ زیادہ قباحت نہیں ہے لیکن اس طرح سے ایک تو معاصر افسانہ نظر انداز ہورہا ہے اور دوسرا اردو افسانے کا ارتقائی سفر بھی متاثر نظر آرہا ہے ۔اگر ہم معاصر شعر وادب کو تنقید وتجزیہ اور تحقیقی نقطہ نگاہ سے زیر مطالعہ نہیں لائیں گے تو پھر کون اس کام کو انجام دے گا۔‘‘
مذکورہ خیالات کے تناظر میں جب کتاب کاجائزہ لیا جائے تو پوری کتاب فنِ افسانہ کے لوازمات اور معاصر افسانہ کے ارتقائی سفر کا قابل غوراحاطہ کرتی نظر آتی ہے ‘جیسا کہ کتاب کے درجہ ذیل مشمٔولات سے بھی ظاہر ہوتا ہے:
مضامین :(1)افسانہ۔۔۔فن اور تکنیک(2)علامتی افسانہ۔۔۔تخلیقی مضمرات(3) مائکروفکشن(4)کشمیر کے معاصر اردوافسانوں کے تخلیقی رویّے(5)فکشن شعریات ۔۔۔ تشکیل و تنقید(6)متن‘ معنی اور تھیوری
تجزئیے /افسانے: (1)ادھا(گلزار ۔ممبئی)(2)لینڈرا(پروفیسر اسلم جمشید پوری) (3)ستیہ کے بکھرے ہوئے بال(ڈاکٹر بلند اقبال۔۔کینیڈا)(4)سمندر جہاز اور میں (ڈاکٹر افشاں ملک ۔۔علی گڑھ)(5)کیمیکل(سید تحسین گیلانی (جانس برگ ساوتھ افریقہ )(6)مرگھٹ(شمٔوئل احمد۔۔بہار)(7)شمال کی جنگ(نعیم بیگ ۔پاکستان) (8)پھانسی(قرب عباس ۔پاکستان)(9)پہلا چہرہ(زاہد مختار۔کشمیر)(10)سامری (وحشی سعید۔کشمیر) (11) ہوا (عبدالغنی لداخی) (12)منڈیر پر بیٹھا پرندہ(ڈاکٹر احمد صغیر۔بہار)
مضامین ِ کتب:(1)نور شاہ‘کشمیر کہانی کے آئینے میں(2)آنگن میں وہ (مشتاق مہدی۔کشمیر)(3)بائیں پہلو کی پسلی(احمد رشید۔علی گڑھ)(4)آزاد قیدی(فیصل نواز چودھری۔ناورے)(5)کلی کی بے کلی(شیخ بشیر احمد۔کشمیر) (6)پمپوش (دیپک کنول۔کشمیر) (7) پورٹریٹ (ڈاکٹر اقبال حسن آزاد۔بہار)
اس کے علاوہ کتاب میں دو اورمضامین شامل ہیں ‘جن میں ایک مصنف کے افسانوی مجموعے’’ کالے دیوؤں کا سایہ‘‘پر پروفیسر قدوس جاوید کا تحریر کردہ ہے اور دوسرا راقم کا ’’جنت والی چابی‘‘ایک تجزیہ ہے۔کتاب کے آخر پر کوائف بھی موجود ہے جس میں ان50رسائل وجرائد کی فہرست دی گئی ہے جن میںمصنف کے مضامین اور افسانے شامل ہوئے ہیں۔
مذکورہ مشمٔولات سے ظاہر ہے کہ کتاب میں نہ صرف کشمیر بلکہ دنیا کے کئی دوسرے ممالک میں تحریر شدہ اردو افسانوں کوبھی زیر بحث لایا گیا ہے ‘جو بذات خود معاصر اردو افسانے کے دلچسپ منظر نامے کو بھی سامنے لاتا ہے۔مختصر طور کتاب کا احاطہ کریں تو پوری کتاب میںفکشن شعریات کے پیش نظر مابعد جدیدتنقید(Post Modern Criticism) کے دائرے میں متن (Text)بین المتن(Inter text)اوربین المتونیت(Inter texuality) کے ساتھ ساتھ ساختیاتی اور عملی تنقید کے اطلاقی عوامل سے کام لیا گیا ہے ‘جس کے نتیجے میں ہر افسانے یا مجموعے کو آزادانہ فکر اور دانشورانہ نقطہ نگاہ سے موضوع بحث بنایاگیا ہے۔کتاب کا گٹ اپ خوبصورت ہے ‘کاغذ بھی معیاری ہے۔البتہ کئی جگہوں پرپروف ریڈنگ میںکوتاہی سے کام لیا گیا ہے جس کی وجہ سے قریبا دس جگہوں پر املائی اغلاط نظر آتی ہے۔بہرحال‘ مجموعی طور پر راقم کو کتاب میںنہ صرف سنجیدہ علمی مباحث بلکہ تازہ افکارجگہ جگہ نظر آئے‘بقول ڈاکٹر اقبالؔ ؎
جہانِ تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔