مآثر رحیمی کی اہمیت ہر دور میں باقی رہے گی :صدیق الرحمان قدوائی
غالب انسٹی ٹیوٹ میں بیرم خان اور عبدالرحیم خان خاناں کی سوانح ’مآثر رحیمی ‘کی رسم اجرا
نئی دہلی :غالب انسٹی ٹیوٹ ،ماتا سندری روڈ، نئی دہلی کے زیر اہتمام فارسی کی معروف تصنیف مآثر رحیمی (مصنف:عبدالباقی نہاوندی)حواشی ڈاکٹر حسن بیگ،لندن کی رسم اجرا کاانعقادہوا ۔ اس موقع پر استقبالیہ کلمات کے دوران فارسی ادبیات کے ماہر پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کہا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ کی خدمات اور کارنامے سے ہندوستان کے لوگ بخوبی واقف ہیں۔ مآثر رحیمی اپنے عہد کے لیجنڈ کے حالات وواقعات پر مبنی کتاب ہے، جس کا اردو ترجمہ سید منصور علی سہروردی مرحوم نے کیا ہے، حواشی نگاری کے لئے ڈاکٹر حسن بیگ نے ان تمام مقامات کی سیر کی ہے، کتاب میں جن مقامات کا ذکر آیا ہے۔ مآثر رحیمی پر حاشیہ آرائی کے لئے ڈاکٹر حسن بیگ نے عرق ریزی سے کام لیا ہے۔ ڈاکٹر حسن بیگ انگلینڈ میں قیام پذیر ہیں مگر اس کی حاشیہ آرائی کے لئے ہندوستان میں سخت گرمی کے موسم میں سفر کیا ۔ تاکہ کسی جگہ کا نام غلط نہ ہو ۔
اس موقع پر کتاب کے حاشیہ وضمیمہ نگار ڈاکٹر حسن بیگ نے کہا کہ مآثر رحیمی فارسی کی معروف تصنیف ہے۔ عبدالرحیم خان خاناں دور اکبری کے وہ واحد دانش ور ہیں، جنہوں نے اپنی سوانح لکھوائی۔ مآثر رحیمی تاریخ ہندوستان کی طرز پر لکھی ہوئی کتاب ہے لیکن اس کا اصل مقصد سوانح بیرم خان، عبدالرحیم خان خاناں اور ان کے اجداد واخلاف کی تاریخ کو آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ رکھنا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ مآثر رحیمی کی دوسری جلد ہے، جس کا ترجمہ سلیس اور رواں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ قارئین کو یہ ترجمہ پسند آئے گا۔
پاکستان میں ہندوستان کے سابق سفیر ڈاکٹر راگھون نے کہا کہ عبدالرحیم خان خاناں اکبر کے عہد کا بڑا سیاسی و ادبی چہرہ ہے ۔ مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹر حسن بیگ کی کاوشوں سے یہ کتاب شائع ہوئی۔ دارالمصنفین بھی مبارک باد کا مبارک ہے،جہاں سے یہ کتاب شائع ہوئی ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے اس پروگرام میں شریک ہونا میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔عبدالرحیم خان خاناں ہندوستان کی ایک مضبوط و مستحکم شخصیت کا نام ہے، جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
دارالمصنفین کے انتظامی امور کے صدر اور دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے کہا کہ مآثر رحیمی مسلم ہندوستان کی بہت ہی اہم کتاب ہے۔یہ کتاب جس شخصیت پر ہے وہ شخصیت مغلیہ عہد کا بڑا نام ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اس کی دوسری جلد کی طباعت و اشاعت دارالمصنفین سے ہوئی۔ دارالمصنفین کی تین سو کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جو دارالمصنفین کے لئے قابل فخر بھی ہیں اور اس کے اخراحات بھی چلاتی ہیں۔اس طرح کی اشاعت کے لیے ہی دارالمصنفین کا قیام عمل میں آیاتھا ۔
پروگرام کے صدر اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمان قدوائی نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ یہ خوشی کا موقع ہے کہ انگلینڈ میں رہ کر بھی ڈاکٹر حسن بیگ اپنی تہذیب وتاریخ سے الگ نہیں ہوسکے۔ انہوں نے مآثر رحیمی کی حاشیہ آرائی اور ان کی اشاعت کے لیے وقت نکالا۔غالب انسٹی اس طرح کے پروگراموں کے انعقاد کے لئے ہر وقت تیار رہتاہے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ اتنی اہم کتاب کی رسم اجرا غالب انسٹی ٹیوٹ میں ہورہی ہے۔ ڈاکٹر راگھون سے مل کر اچھالگا مجھے امید ہے کہ وہ غالب انسٹی ٹیوٹ سے آئندہ بھی مربوط رہیں گے۔ہم ان سے رابطے میں رہنے کی کوشش کریں گے۔مآثر رحیمی نہ صرف اپنے عہد کے لئے بلکہ اس زمانے کے لئے بھی اہم تصنیف ہے۔اس کی اہمیت ہر عہد میں باقی رہے گی ۔ عبدالرحیم خان خاناں کی سیاسی وادبی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اس موقع پر غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر سید رضا حیدر نے کتاب کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ مآثر رحیمی کی اشاعت سے دور اکبری کی ایک بڑی شخصیت ہمارے سامنے آئی ہے۔ یہ ایک معتبر کتاب ہے،جو عبدالباقی نہاوندی کی تصنیف ہے۔کتاب کی اشاعت پر دارالمصنفین نے بڑی توجہ دی ہے۔ کتاب کا ٹائٹل اور اس کے صفحات بہت عمدہ ہیں۔ خان خاناں اور بیرم خان کی خدمات پر مبنی تصاویر بھی اس کتاب میں موجود ہیں۔ ڈاکٹر حسن بیگ نے حاشیہ پر توجہ مرکوز کی ہے، جو ان کے تحقیقی مزاج کا عکاس ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ پروفیسر شریف حسین قاسمی اور ڈاکٹر حسن بیگ کی وجہ سے اس اہم کتاب کی رسم رونمائی کا موقع غالب انسٹی ٹیوٹ کو ملا۔غالب انسٹی ٹیوٹ خود غالب، عہد غالب اور متعلقین غالب پر کام کرتا رہاہے۔ میں ڈاکٹر حسن بیگ اور دارالمصنفین کو اس اہم کارنامے پر مبارک باد پیش کرتاہوں۔
پروگرام کے آخر میں شعبہ فارسی،دہلی یونیورسٹی کے صدر پروفیسر علیم اشرف خاں نے کہا کہ میں تمام مہمانوں،سامعین اور شرکا کا شکریہ ادا کرتاہوں۔ اس کے علاوہ میں یہ امید کرتاہوں کہ ڈاکٹر حسن بیگ مآثر رحیمی کی تیسری جلد پر بھی کام کریں گے اور اسے بھی شائع کرائیں گے تاکہ عبدالرحیم خان خاناں سے متعلق تمام باتیں اور ان کے کارنامے روشن ہوجائیں ۔
اس پروگرام میں زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق شخصیات نے شرکت ،پروفیسر علی احمد فاطمی ،پروفیسر خالد محمود ،پروفیسر سیدطلحہ رضوی برق کے علاوہ دہلی کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ اورطلبہ بھی شریک ہوئے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔