پشاور پختون خوا سے عثمان علی کا اصرار ہے کہ انھیں بتایا جائے: ’’معنی کے کیا معنی ہیں؟‘‘
سوال سن کرسنّاٹے میں ہم ہی نہیں آئے، ہمارے چچا چودھری چراغ دین چکڑالوی بھی چکرا گئے۔ چکرا کر پوچھنے لگے:
’’عثمان علی صاحب کا نام کیا ہے؟‘‘
عرض کیا: ’’نام میں کیا رکھا ہے؟‘‘
فرمایا: ’’نام میں کچھ نہیں رکھا تو لوگ نام رکھتے ہی کیوں ہیں؟ ویسے ’نام رکھنے‘ کا ایک معنی ’کسی کو حقیر گرداننا‘ بھی ہے۔ چچا غالبؔ فرماتے ہیں: پیشے میں عیب نہیں رکھیے نہ فرہاد کونام‘‘۔
خیر، چچا چلاّتے رہیں، نام رکھنے کی رسم تو رائج رہے گی۔ مگر نام بامعنی رکھنا چاہیے اور چاہیے کہ صاحبِ نام کو اپنے نام کے معنی بھی معلوم ہوں۔ لیکن ہماری اِن بقراطیوںسے اس سوال کے سائل تو ٹالنے سے بھی نہیں ٹلیں گے کہ ’’معنی کے کیا معنی ہیں؟‘‘
صاحب! عربی کا ایک لفظ ہے ’’عَن‘‘۔ یہ حرفِ جر بھی ہے اورسیکڑوں الفاظ کا والدِ ماجد بھی۔ حرفِ جر کے علاوہ ’عن‘ کے پھیلے ہوئے مطالب میں سے اپنے مطلب کے چند مطالب ہم آپ کی خدمت میں پیش کیے دیتے ہیں: ’’سامنے ہونا، ظاہر ہونا، پیش آنا، نقاب اُٹھانا، پردہ ہٹانا، مطلب یا مراد لینا، نظر رکھنا، توجہ دینا اور خیال رکھنا‘‘ وغیرہ۔ خیال رکھنے کے معنوں میں ’’عن‘‘ سے تولد ہونے والا ایک لفظ ’اعتنا‘ہے جو اُردو میں ’پروا کرنے، ہمدردی کرنے اور شریکِ درد و غم ہونے‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اس کی ضد ’بے اعتنائی‘ کا استعمال زیادہ ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ہمارے ہاں ’اعتنا‘ کم کیا جاتا ہے، بے اعتنائی زیادہ۔ علاوہ ازیں ہمارے ذرائع ابلاغ پر ’’مِنّ و عن‘‘ کا استعمال (اور مِن کا غلط تلفظ کرنا یعنی ’مَن‘ بولنا) بہت عام ہے۔ اس موضوع پر ان شاء اللہ ’عَن قریب‘ ایک کالم لکھا جاوے گا۔
’عن‘ ہی کی اولاد میں سے ایک لفظ ’عنایت‘ ہے۔ ’عنایت‘کے کئی مطالب میں سے ایک مطلب ہے قصد کرنا یا ارادہ کرنا۔ ارادے سے ’مراد‘ بنا ہے۔ ’عنایت‘ [بھائی] ہی کی اولادوں میں سے’یعنی‘ اور ’معنی‘ بھی ہیں۔ معنی کے معنی ہیں کسی چیز کی حقیقت ظاہر ہونا، حقیقت سے پردہ اُٹھنا، کوئی مطلب، منشا، غرض، مُدّعا یا مراد لینا۔ جیسے ناسخؔ نے اپنے مطلب کی بات کسی نہ کسی طرح نکال ہی لی:
معنی یہ ہیں کہ باغ میں ہم مے کشی کریں
جنت میں گر شراب خدا نے حلال کی
سبب، وجہ اور علّت کے معنوں میں بھی ’معنی‘ استعمال کیا جاتا ہے، جیسے ’’تقریب میں تمھارے نہ آنے کے کیا معنی لیے جائیں؟‘‘ یا جیسے اقبالؔ نے اپنی مشہور مسدس ’’شکوہ‘‘ میں اللہ تعالیٰ سے شکوہ کرنے کو بھی لفظ ’معنی‘ ہی کاسہارا لیا:
پھر یہ آزردگیِ غیر سبب کیا معنی؟
اپنے شیداؤں پہ یہ چشمِ غضب کیا معنی؟
مجاز کی ضد، یعنی حقیقت اور اصلیت کے معنوں میں ’معنی‘ کا استعمال شاعری میں زیادہ ہے۔ تاہم نثر میں بھی اس قسم کے فقرے ملتے ہیں کہ ’’اس حکم پر لفظاً اور معناً عمل کرنا ہے‘‘۔ یہاں ’معناً‘سے مراد ہے حقیقتاً یا اصلاً۔ اقبالؔ کے درجِ ذیل شعر میں’حُسنِ معنی‘ کے معنی ’حُسنِ حقیقی‘ لیے جائیں گے۔ مگر پہلے نئی نسل کو سمجھاتے چلیں کہ ’بیوٹی پارلر‘ میں جو خدمات فراہم کی جاتی ہیں اُنھیں ہماری زبان میں مَشّاطگی کہا جاتا ہے اور برطانوی زبان میں جس خاتون کو ‘Beautician’ کہتے ہیں، وہ ہماری قومی زبان میں مَشّاطہ کہلاتی ہے۔ اقبالؔ کہتے ہیں:
مِری مَشّاطگی کی کیا ضرورت حُسنِ معنی کو؟
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی
اسی طرح اقبالؔ جب یہ کہتے ہیں کہ ’’موت کیا شے ہے، فقط عالمِ معنی کا سفر‘‘ تو یہاں بھی ’عالمِ معنی‘ سے مراد حقیقی دنیا ہے۔میرؔبھی اپنے محبوب کی تعریف میں یوں رطب اللسان ہیں:
لبا لب ہے وہ حسنِ معنی سے سارا
نہ دیکھا کوئی ایسی صورت سے اب تک
معنی سے اسمِ صفت بنا ’معنوی‘۔ معنوی کا مطلب ہے اصلی، حقیقی، اندرونی، باطنی یا روحانی۔ مولانا جلال الدین رومیؒ اِن ہی معنوں میں ’’مولویِ معنوی‘‘کہلاتے ہیں۔ معنوی اولاد یا معنوی فرزند کنایتاً رُوحانی اولاد، مرید، شاگرد یا تصنیف کو کہتے ہیں۔ تو معنی کے معنی حقیقی یا اصلی کے ہوئے۔ عربی میں یہ لفظ ’معنیٰ‘ لکھا جاتا ہے (ی پر کھڑا زبر) اِس کی جمع ’معانی‘ ہے۔ اہلِ فارس بھی عربوں کی طرح ’معنیٰ‘ بولتے اور لکھتے ہیں۔ لیکن اُن کے ہاں اس کا املا ’معنا‘ہے۔ اُردو میں ہم معنی کہتے اور لکھتے ہیں۔ مگر واحد ہی کو جمع کے طور پر بھی استعمال کرلیتے ہیں۔کچھ لوگ کہتے ہیں ’’اس کا معنی یہ ہے‘‘۔ اکثر لوگ کہتے ہیں ’’اس کے معنی یہ ہیں‘‘۔ دونوں جملے درست سمجھے جاتے ہیں۔ یہ جو ہم ایک دوسرے سے الفاظ کے معنی پوچھتے پھرتے ہیں تو در اصل اس بہانے ہم جاننا چاہتے ہیں کہ کسی لفظ کے استعمال کا موقع محل کیا ہے؟ ’معنی بیان کرنا‘ گویا سمجھانا، بتلانا، تشریح کرنا یا مطلب بیان کرنا ہے۔ اگر کہا جائے کہ ’’یہ لفظ یہاں یہ معنی دیتا ہے‘‘ تو’معنی دینے‘ کا مفہوم یہ ہوگا کہ اُس جگہ اُس لفظ کے استعمال سے کون سا مطلب لینا چاہیے یا کیا مراد لی جائے۔ جیسے شعورؔ کے اس مصرعے میں ’’خوبی یہ حُسن کی ہے، یہ معنی حیا کے ہیں‘‘ لفظ ’معنی‘ بھی ’خوبی‘ ہی کے معنی دے رہا ہے۔ نوٹ فرمائیے کہ شعورؔ نے لفظ ’معنی‘ کو بطور جمع استعمال کیا ہے۔ غالبؔ بھی جمع ہی کا صیغہ استعمال کرتے تھے اور کہتے تھے: ’’گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی، نہ سہی!‘‘
بعض اوقات الفاظ کے ہیر پھیر سے، اُلٹ پھیر سے یا سکتہ (،) آگے پیچھے کردینے سے ’’معنی اُلٹ جاتے ہیں‘‘۔ یعنی مفہوم بالکل برعکس ہوجاتا ہے۔ اس کی سب سے اچھی مثال ’’روکو مت، جانے دو‘‘ہے۔ محض سکتے کی جگہ بدل کر، آپ اپنی تمنّا پوری کرنے کی غرض سے، معنی اُلٹ سکتے ہیں کہ’’روکو، مت جانے دو‘‘۔
مُہمل، بے ہودہ، بے سروپا، لغو، بے اصل اور بے فائدہ بات کو ’بے معنی‘ بات کہا جاتا ہے۔ وہ بات جس سے کوئی مطلب، مفہوم یا مراد حاصل نہ ہو (حوالے کے لیے دیکھیے ہر ٹی وی چینل پر ہونے والے سیاسی ’’ٹاک شوز‘‘)۔ بات بامقصد و بامعنی ہو تو اس میں ’’معنویت‘‘ پیدا ہوجاتی ہے۔ جو باتیں اپنے اندرکئی مقاصد اور مرادیں پوشیدہ رکھتی ہیں یعنی کہ معانی سے پُر ہوتی ہیں وہ ’معنی خیز‘ کہلاتی ہیں۔ اسی سے اسمِ کیفیت ’معنی خیزی‘ بنا ہے۔ غالبؔ کا دعویٰ تھا کہ
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے
اشعار میں آیا ہوا کوئی لفظ حقیقت کا روپ دھا ر لے وہ ’شرمندۂ معنی‘ ہوجاتا ہے۔بالکل اسی طرح جیسے خواب حقیقت بن جائے تو کہتے ہیں کہ ’’خواب شرمندۂ تعبیر ہوگیا‘‘۔ غالبؔ ہی کہتے ہیں کہ
دہر میں نقشِ وفا وجہِ تسلی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا
جو صاحب معنی کے معنی جاننا چاہتے تھے، اُمید ہے کہ اُن کے لیے یہ کالم وجہِ تسلی ہوگیا ہوگا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...