بیسیوں صدی کے ایک سائنسی ہیرو فرانسس کرک تھے۔ ان کی زندگی، زندگی کی گتھی سلجھانے میں گزری۔ ان کے بلیک بورڈ پر درمیان میں ایک لفظ اکثر نمایاں اور دوسروں سے بڑا لکھا ہوتا تھا۔ وہ لفظ تھا “معنی”۔
معنی کا بڑا تعلق چیزوں کے آپس میں تعلق کا جنجال سے ہے جو عمر کے تجربوں کا نتیجہ ہے۔ فرض کیجئے کہ میرے پاس ایک کپڑا ہے۔ اس پر میں کچھ رنگوں سے کچھ لکیریں کھینچتا ہوں۔ کیا یہ معنی رکھتے ہیں؟ یہ تو بس کپڑا اور رنگ ہیں۔
لیکن اگر رنگوں کو اس طرح ملایا جائے جیسے ساتھ تصویر میں ہیں؟ کیا یہ معنی رکھیں گے؟
ان رنگوں کے معنی زندگی کے تجربے سے تعلق رکھتے ہیں جو ہم نے سیکھے ہیں۔ کیوبا یا سوڈان میں رہنے والے زیادہ تر افراد تو شاید اس کو پہنچانیں بھی نہیں۔ بیسویں صدی کے شروع میں پوری دنیا میں یہ رنگ کسی کے لئے بھی معنی نہیں رکھتے تھے۔ لیکن آج دنیا کے کروڑوں لوگوں کے لئے یہ رنگدار کپڑا معنی رکھتا ہے۔ یہ ان کروڑوں لوگوں کے ذہن میں کچھ خیالات کو چھیڑتے ہیں۔ اس کا تعلق زندگی کے اپنے تجربوں سے ہے اور یہ تجربہ ہر ایک کا سانجھا نہیں۔ ہم چیزوں کو اس طرح نہیں دیکھتے جیسی کہ وہ ہیں۔ ہم چیزوں کو اس طرح دیکھتے ہیں، جیسا کہ ہم خود ہیں۔
اس دنیا میں ہر ایک کا اپنا ایک منفرد راستہ ہے۔ اس کی وجہ سے ہر ایک کے ذہن کی ایک اپنی اندرونی دنیا ہے۔ ہر ذہن منفرد ہے۔ ہر ذہن کے لئے معنی منفرد ہیں۔
جس طرح دماغ کے کھرب ہا کھرب کنکشن مسلسل بنتے بگڑتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ نہ آپ جیسا پہلے کوئی کبھی رہا اور نہ آئندہ کبھی رہے گا۔ آپ خود اپنے جیسے بھی نہیں رہیں گے۔ دنیا بدل رہی ہے۔ زندگی بدل رہی ہے۔ آپ خود بدل رہے ہیں۔ نئے تجربوں کے ساتھ نئی چیزوں کو نئی معنی پہنا رہے ہیں۔ اپنی گود سے اپنے لحد تک آپ کا یہ اپنا سفر رُکنے والا نہیں۔