مال و دولت اور روحانیت ۔
میری تحریروں کی ایک مداح نے میری کل کی تحریر پر لکھا تھا کہ قدرت کے سُہانے مناظر بھی آپ کو امریکہ ہی نظر آ سکتے ہیں ، ہم تو روٹی روزی کے فکر میں پاکستان میں کھوئے ہوئے ہیں ۔
ایسا بلکل نہیں ، امریکہ میں شاید روٹی روزی کی دوڑ دنیا میں سب سے زیادہ تیز اور بھیانک ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ملک بہت بڑا ہے ، آبادی بہت کم تو دوڑنے والے قدرت کا ماحول کا نقصان کم کرتے ہوئے دکھائ دیتے ہیں ۔ دوسرا ریفری یا ایمپائر نیوٹرل ہیں۔
آئیے موضوع کی طرف ۔ روحانیت کا مال و دولت کے ساتھ بہت ہی گہرا رشتہ ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ رُوحانیت بزات خود ایک بہت بڑا دھندہ اور کاروبار بن گیا ہے ۔ کل میں ایک روحانیت کی ماہر خاتون Dorothy Hunt کی کتاب Ending the Search پڑھ رہا تھا ، فرماتی تھیں کہ میری کتاب جو آپ پڑھ رہیں ہیں اس سے لے کر تمام آ شرام اور یوگا سینٹرز تک ملٹی ملین ڈالر کا بزنس ہے ۔ دیپک چوپڑا جو گرجا میں آ کر روحانیت پرلیکچر دیتا ہے اُس کی چند گھنٹوں کی ایک نشست کا ٹکٹ ہی پچاس ڈالر کا ہوتا ہے ۔ میں نے ایک دفعہ اس کے ایک مرید سے پوچھا دیپک ایسا کیوں کرتا ہے ، کہنے لگا وہ گزارا کہاں سے کرے ۔ میں نے کہا میں بھی تو کر رہا ہوں ۔ میں تو اسی لیے کتاب بھی لکھنے سے گریز کر رہا ہوں کہ پھر پیسہ کا دھندہ شروع ہوجائے گا ۔ فیس بُک پر بلاگ پوسٹز تک ہی محدود ہوں ۔
تو پھر روحانیت میں پیسہ کا کیا فلسفہ ہے ؟ اسلام کا معاشی نظام ۱۰۰ فیصد روحانیت کے عین مطابق ہے ۔ میں نے کرائے کے لبرلز کو اکثر یہ مزاق اور ٹھٹھہ کرتے سنا ہے کہ اسلام کا بھی کوئ معاشی نظام ہے ؟۔ دُکھ اِس بات کا ہے کے محمد صلوعلیہ وسلم کی ہم مسلمانوں نے پُوجا پاٹ تو شروع کر دی لیکن اُن کی اسوہ حسنہ کا نہ مطالعہ کیا عمل تو درکنار۔
روحانیت یا اسلام کا مال و دولت کے بارے میں فلسفہ بہت سادہ ہے ۔ جاوید غامدی صاحب اکیڈمی میں ہمارے اُستاد تھے ایک دفعہ فرمایا کہ اسلام کا معاشی یا بینکاری کا نظام مغربی نظام سے یکسر مختلف ہے ۔ اسلام کا نظام کہتا ہے کہ، خرچ کرو ، اور مغربی نظام بچت پر زور دیتا ہے ۔
قرآن حلیم میں زکواۂ کے علاوہ اتنی زیادہ آیات میں آیا ہے کہ خرچ کرو اللہ کی راہ میں رشتہ داروں پر ، یتیموں پر ، مسکین اور نادار لوگوں پر ۔
لہٰزا ایک بہت بڑا نقطہ یہ ہے کہ پوری کائنات کا رزق ایک دوسرے کے ساتھ جُڑا ہوا ہے ، جسے ہم لکھا ہوا بھی کہتے ہیں ۔ آپ پر فرض عائید ہوتا ہے کہ اُس نظام میں رکاوٹ نہیں ڈالنی ، مثلاً زخیرہ اندوزی نہیں کرنی ، ملاوٹ سے پرہیز کرنا ہے ، سُود سے دور رہنا ہے اور مزید ہر قسم کے استحصال سے ۔ اللہ اللہ خیر صلی ۔
میں نے جب ۲۰۰۳ میں نوکری سے استعفی دیا تو تو بڑے بھائ فرمانے لگے کچھ دیر ٹھہر جاتے پینشن کے لیے کولیفائ کر جاتے ۔ میں نے کہا میرے والد کی پینشن سے والدہ کی دوائیاں تو آتی نہیں ہے ، چھوڑیں ایسی قید کو ۔
میں نے اپنی وراثت الگ کروائ اور اسے بیچ کر گزارا شروع کر دیا ۔ پھر بھائیوں نے نعرہ بلند کیا کہ چھ مہینے بعد کسی چوک میں بھیک مانگ رہا ہو گا ، آج اُس بات کو ۱۴ سال ہونے کو ہے بھیک تو کیا مانگنی بہت سارا مال اور پیسہ ضرورت مندوں کے ساتھ مل کر استمعال کیا ۔ بہت توکل ہے مجھے پروردگار پر۔
کہا جاتا ہے کہ وہ پیسہ آپ کا اپنا ہے جو آپ نے خرچ کر دیا ، میں تو کہتا ہوں صرف اُس پیسے کی ملکیت آپ کی ہے جو آپ نے کسی کو دیا ۔ باقی تو سب سوچ کا تماشا ہے ۔ آپ اگر پیسے کے پیچھے دوڑیں گے نہیں تو پیسہ خود بخود آپ کے پاس آ جائے گا ۔
مال و دولت کا سلسلہ خالصتاُ قدرت کے ہاتھ میں ہے ۔ اس میں کسی کی کوئ فنکاری نہیں ۔ بس صرف خیال رکھیں اسے اکٹھا نہ کریں ، قدرت کی پیسے کی سرکولیشن کو ہرگز روکیں نہیں ۔
اور ویسے بھی پیسہ کسی ہدف تک پہنچنے کا زریعہ تو بن سکتا ہے لیکن وہ ہدف نہیں بن سکتا ۔ ہدف ایک اچھی ، صاف ستھری اور سکون والی زندگی ہی رہے گی اور رہنی چاہیے ۔
آخر میں کہتا چلوں قناعت کا دامن نہ چھوڑیں اور قناعت سے میر قطعّا یہ مطلب نہیں کہ بہتر اور خوب تر کی جستجو ختم کر دیں ۔ وہ جاری رکھیں ۔contentment اور satisfaction میں فرق ہے اس فرق کو ضرور برقرار رکھیں ۔ بہت خوش رہیں ۔ میں ہر طرح حاضر ، بغیر معاوضہ ، آپ کے ساتھ خوشیاں اور دکھ درد شئیر کرنے کے لیے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔