ایک ٹی وی اینکر کی غیر محتاط گفتگو نے ایک بڑے طبقے کو مشتعل کر دیا گو کہ اقبال آفتاب نے معافی مانگ لی ہے، لیکن اس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسلامی تاریخ کے بہت سے پہلو ایسے ہیں جن کی درست اور مکمل معلومات عام طور پر بہت سے لوگوں کو نہیں ۔ مطلق لوٹ مار تو واقعی بری چیز ہے ۔۔۔۔غیر اخلاقی ۔۔۔اور غیر قانونی ہے لیکن مال غنیمت اور لوٹ مار میں بڑا فرق ہے ۔اس پوسٹ کے ذریعے وہی فرق واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔
فتح کے بعد دشمن سے چھینا ہوا مال غنیمت کہلاتا تھا ۔ اسلام سے پہلے سے یہ طریقہ ہر قوم کا تھا کہ دشمن پر غالب آنے کے بعد ان کے ہتھیار ۔۔۔۔مال مویشی ۔۔۔۔عورتوں بچوں ۔۔۔۔ہر چھوٹی بڑی چیز پر فاتح کا قبضہ ہو جاتا تھا ۔عربوں کی جنگوں میں بھی یہی طریقہ تھا ۔
جنگی معرکوں میں اس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ ہو ہی نہیں سکتا تھا ۔اگر آپ بھاگتے ہوئے دشمن کے ہتھیار اور جانوروں پر فوری قبضہ نہیں کریں گے،اور ان کے ہتھیار اور گھوڑے یونہی میدان جنگ میں چھوڑ دیں گے تو بھاگتا ہوا دشمن پلٹ کر انہی ہتھیاروں سے آپ کا قیمہ بنا دے گا ۔لہذا شکست خوردہ دشمن کے ہتھیار اور اموال پر قبضہ جنگی لازمہ تھا، ہر قوم ایسا کرتی تھی کیونکہ اس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا۔
البتہ اسلام نے اس میں ایک نظم وضبط قائم کیا ۔مال غنیمت کو کیسے اور کہاں خرچ کیا جائے، اس کے مصارف بتائے۔سورہ انفال کی 41 ویں آیت دیکھئے : اللہ تعالی فرماتے ہیں:" جان لو کہ جو کچھ مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ،اس کے رسول،اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے"۔
اس قرآنی آیت سے پہلی بات تو یہ ثابت ہوتی ہے کہ مال غنیمت کا حاصل کرنا بالکل جائز اور درست تھا ۔
دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ مال غنیمت کو جیسے دل چاہے ویسے خرچ نہیں کیا جا سکتا ،بلکہ اس کا پانچواں حصہ لازما حکومت وقت کے پاس جائے گا اور وہ اس کو ان مصارف میں خرچ کرنے کی پابند ہو گی جو اس ایت میں بتا دیئے گئے ہیں ۔
مال غنیمت کے باقی چار حصے کیسے اور کہاں خرچ ہوں گے، اسے سپہ سالار اور حکومت وقت پر چھوڑا گیا ہے ۔لہذا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خلفا عموما مال غنیمت سپاہیوں میں اس طرح تقسیم کرتے تھے کہ پیادہ کو ایک حصہ اور سوار کو دو حصے ملتے تھے
جنگ بدر کے موقع پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ اپنی اہلیہ(بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کی شدید علالت کی وجہ سے شریک نہیں ہو سکے تھے لیکن رسول اللہ نے بدر کی غنیمت میں حضرت عثمان کا حصہ بھی لگایا تھا ۔
مال غنیمت، اس کے مصارف وغیرہ پر فقہاء نے بحثیں کی ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حکومت کی آمدنی کے چند ہی ذرائع تھے مثلا فئ ۔۔۔۔زکوات اور مال غنیمت ۔بعد میں خلفا کے زمانے میں کئ ذرائع آمدنی کا اضافہ ہوا مثلا خراج۔۔۔۔۔جزیہ۔۔۔۔۔عشر۔۔۔۔۔عشور۔۔ وغیرہ ۔۔مال غنیمت ہر دور میں بہت بڑا ذریعہ آمدنی سمجھا جاتا تھا ۔
اب اس جائز ذریعہ آمدنی کو غیر قانونی لوٹ مار سے کیا نسبت؟ یا اس جنگی حربے بلکہ لازمی کارروائی کو "اخلاقی گراوٹ "کہنا کیسے درست ہو سکتا ہے؟؟؟