ہمسایہ ملک افغانستان میں آنے والی تبدیلی سے ہمارا متاثر ہونا تو بالکل سمجھ میں آتا ہے کیونکہ افغانستان کی صورتحال میں پاکستان کا ہمیشہ سے ایک کردار بہرحال رہا ہے۔ خطے میں آنے والی اس تبدیلی کے نتیجے میں ہم بہت سے اندرونی اور بیرونی خطرات میں گھر چکے ہیں، ساری دنیا کی نظریں اس صورتحال میں ہمارے کردار پر لگی ہیں لیکن ہماری حکومت ان خطرات اور مسائل کا ادراک کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ ان تمام خطرات سے نمٹنے کے لیے قومی اتفاق رائے کا ہونا بہت ضروری ہے لیکن ہمارے وزیراعظم قومی ایشوز کے لیے بھی اپنی جھوٹی انا کے خول سے باہر آنے کے لیے تیار نہیں۔ ہونا تو چاہئیے تھا کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا جاتا اور ساری قومی قیادت کو اعتماد میں لیا جاتا اور ایک مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا جاتا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اس معاملے کا حل نکالنے کی بجائے اس کو قالین کے نیچے چھپانے کی کوشش میں مصروف ہے اور ہنوز دلی دور است کی کیفیت میں مبتلا نظر آتی ہے۔
خارجہ اور داخلہ دونوں محاذوں پر حکومت کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ عالمی سطح پر ہم تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں، افغان معاملے کا ایک اہم فریق ہونے کے باوجود کوئی ہم سے بات کرنے کو تیار نہہں۔ داخلی سطح پر صورتحال یہ ہے کہ موجودہ حکومت نیشنل ایکشن پلان کو سرد خانے میں ڈال چکی ہے۔ ایک دفعہ پھر بم دھماکے اور سیکیورٹی فورسز پر حملے شروع ہو چکے ہیں اور تحریک طالبان پاکستان ان حملوں کی ذمہ داری قبول کر رہی ہے۔
ایسی صورتحال میں پہلے صدر مملکت اور اب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی طرف سے یہ بیان سامنے آنا کہ حکومت تحریک طالبان پاکستان کو معافی دینے پر غور کر رہی ہے بائیس کروڑ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ وزیرخارجہ کے اس بیان کے بعد عام پاکستانیوں کے ذہن میں بہت سے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں کہ کیا عام معافی کے بعد تحریک طالبان پاکستان اپنے موقف سے ہٹ کر ریاست پاکستان کی رٹ تسلیم کر لے گی؟ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ طالبان آئندہ پاکستانی عوام اور سیکیورٹی فورسز پر حملے نہیں کریں گے؟ کیا اس عام معافی کا مطلب دہشت گردی کے خلاف آپریشنز کے نتیجے میں قائم ہونے والے امن کو تہہ و بالا کرنا تو نہیں؟ ستر ہزار پاکستانیوں کا قتل جس میں دس ہزار فوجی جن میں سپاہی سے لے کر لیفٹینٹ جنرل تک کے لوگ شامل تھے کیا ان کی قربانیاں رائیگاں چلی جائیں گی؟ کیا اے پی ایس کے معصوم بچوں کے ناحق بہائے جانےوالے خون کے اوپر بھی پانی پھیر کر اسے دھو دیا جائے گا؟ ان ماؤں کو حکومت کیا جواب دے گی جنہوں نے اپنے بچوں کو گھر سے سکول بھیجا لیکن وہ کبھی گھر واپس نہ لوٹ سکے؟ امن معاہدے پہلے بھی کیے گئے لیکن طالبان کبھی کسی معاہدے پر قائم نہ رہ سکے، اگر عام معافی کے بعد بھی طالبان اپنی روش پر قائم رہے جس کی سو فیصد توقع ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟
قوی خدشہ ہے کہ شائد معافی کے معاملات پر بات آگے بڑھ چکی ہے اور اندرون خانہ حکومت اس بارے فیصلہ کر چکی ہے۔ اسی لئے شاہ محمود قریشی نے بیان دے کر درجہ حرارت چیک کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ پتہ چلایا جا سکے کہ ایسے کسی اقدام کا کیا ردعمل سامنے آتا ہے۔ موجودہ حکومت کے ٹریک ریکارڈ اور مائینڈ سیٹ کو مدنظر رکھا جائے تو ان سے کسی بھی ایسے فیصلے کی امید کی جا سکتی ہے۔ ایسی حکومت جس کا وزیر خارجہ انٹرویو کے دوران ایک سوال کے جواب میں اسامہ بن لادن کو دہشت گرد کہنےسے گھبرا جائے اور وزیراعظم پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑا ہو کر اسامہ بن لادن کو شہید کہہ دے تو ان کے مائینڈ سیٹ کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر موجودہ حکومت کے کردار کا جائزہ لینے سے بھی اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ یہ لوگ اس طرح کا کوئی بھی سودا یا معاہدہ کر سکتے ہیں۔ اس حکومت کے جھوٹ اور پروپیگنڈہ کا یہ عالم ہے کہ اندرون خانہ ہر قسم کی سودا بازی کرلیتے ہیں لیکن پروپیگنڈہ یہ کرتے ہیں کہ ان سے بڑا مجاہد کوئی پیدا ہی نہیں ہوا، کشمیر کے معاملے پر یہی کیا گیا تھا۔ وزیراعظم کے امریکہ کے دورہ سے واپسی پر جہاں مبینہ طور پر موصوف بھارت کی جانب سے کشمیر کو اپنا حصہ بنانے کو تسلیم کر آئے لیکن عوام کو ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگانے کے لیے کہا گیا کہ میں ایک دفعہ پھر ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں۔ اس کے بعد ہر جمعہ کو آدھ گھنٹہ کھڑے ہو کر احتجاج کرنے کی بات کرکے گونگلووں سے مٹی جھاڑی گئی لیکن اس کے بعد شائد اپنے طور پر ہی یہ تصور کر لیا گیا کہ کشمیر فتح کر لیا گیا ہے۔
موجودہ وزیراعظم عمران خان نے دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کو ہمیشہ شکوک و شبہات میں مبتلا کیا ہے۔طالبان ہماری سیکیورٹی فورسز، مساجد اور عوام پر حملے کر رہے تھے، طالبان ہمارے فوجیوں کے کٹے ہوئے سروں سے فٹ بال کھیل رہے تھے اور موصوف کہہ رہے تھے کہ ہمیں طالبان کے ساتھ بات کرنی چاہئیے، نواز شریف بھی اس معاملے میں عمران خان کے ہمنوا تھے۔ اتمام حجت کے لئے پھر سوات میں صوفی محمد سے بات کی بھی گئی، معاہدہ بھی کیا گیا لیکن اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ کیا طالبان نے ریاستی رٹ کو تسلیم کیا؟ ان مذاکرات کے باوجود آخرکار طویل ملٹری آپریشن کرنے پڑے جن میں انہی طالبان دہشتگردوں سے لڑتے ہوئے ہمارے ہزاروں فوجی جوانوں نے جام شہادت نوش کیا لیکن آج ہمارا صدر پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ عمران خان کا تدبر جیت گیا اور ساری دنیا کو عمران خان کی مریدی اختیار کر لینی چاہئے۔ اب خود سوچیں کیا اس قسم کے مائینڈ سیٹ سے کسی بہتر یا ہوش مندی کے فیصلے کی توقع کی جا سکتی ہے؟
کون بھول سکتا ہے کہ وزیرستان میں آپریشن سے پہلے بھی جب طالبان کو مذاکرات کی دعوت دی گئی تو طالبان کی طرف سے مقررکی گئی تین رکنی مذاکراتی کمیٹی میں موجود ایک نام کسی اور کا نہیں بلکہ ہمارے موجودہ وزیراعظم عمران خان کا تھا۔ یہ علیحدہ بات کہ عمران خان اس مذاکراتی کمیٹی میں شامل نہیں ہوئے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ طالبان کا عمران خان پر اعتماد ہی تھا اسی لئےطالبان کی طرف سے عمران خان کا نام تجویز کیا گیا۔ اسی لئے عمران خان کو طالبان کا نمائیندہ سمجھتے ہوئے طالبان خان بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بھی سب کو یاد ہو گا کہ کیسے طالبان نے دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں عمران خان کو پوری طرح سپورٹ کیا تھا۔ پیپلزپارٹی اے این پی اور ایم کیو ایم کے جلسوں پر حملے کئے ان کے لوگ شہید کئے گئے اور کے پی کے میں تحریک انصاف کےقدم جمائے میں مدد کی گئی۔ یہی صورتحال پنجاب میں تھی جہاں ن لیگ اور پی ٹی آئی کو تو انتخابی مہم چلانے کی پوری اجازت تھی لیکن پیپلزپارٹی کی قیادت کو انتخابی مہم کے لیے باہر ہی نہیں نکلنے دیا گیا۔ تحریک طالبان پاکستان کی یہ دھمکی بھئ ریکارڈ پر موجود ہے کہ ہمیں عمران خان کے سوا کوئی اور وزیراعظم قابل قبول نہیں۔
موجودہ حکومت اور وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بھی طالبان کے بارے ہمیشہ نرم رویہ ہی سامنے آیا ہے۔ کبھی طالبان کو دفتر دینے کی بات کی گئی اور کبھی ان سے مذاکرات کی بات کی گئی، طالبان ہمارے بچوں اور بے گناہ عوام کو مارتے رہے اورخان صاحب مذاکرات پر زور دیتے رہے۔ کبھی جھوٹے منہ بھی عمران خان کے منہ سے طالبان کی مذمت میں کوئی بیان سامنے نہ آسکا۔ افغانستان میں طالبان کی آمد کے بعد دارالحکومت میں قائم جامعہ حفصہ پر طالبان کے پرچم لہراتے رہے، کوئٹہ اور پشاور میں طالبان کی حمایت میں کھلم کھلا جلوس نکالے گئے لیکن حکومت کی طرف سے کوئی ایکشن تو درکنار کوئی بیان تک جاری نہ ہو سکا،
شاہ محمود قریشی کے طالبان کو معافی والے بیان اور حکومت کے ارادوں کے ظاہر ہونے کے بعد آنے والی تباہی کا پہلا نتیجہ تو سامنے آ بھی چکا ہے جب اٹھارہ سال بعد پاکستان کے دورے پر آئی نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم نے میچ شروع ہونے سے چند لمحے قبل سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر اپنا دورہ منسوخ کر دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو فون کر کے کرکٹ ٹیم کے دورے کی منسوخی کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست بھی کی لیکن ان کی یہ درخواست تسلیم نہیں کی گئی۔ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی میں دس سال کا طویل عرصہ صرف ہوا لیکن جیسے وزیر ہوابازی غلام سرور اعوان کی جانب سے دئیے گئے ایک بیان نے پی آئی اے کے انٹرنیشنل فلائیٹ آپریشن کو ختم کرکے رکھ دیا تھا اسی طرح وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک ہی بیان سے ملک میں دس سال کی کوششوں کے بعد بحال ہونے والی انٹرنیشنل کرکٹ کو ختم کرکے رکھ دیا ہے۔
موجودہ حکومت اپنے تین سالہ دور میں عوام کو کسی قسم کا کوئی ریلیف تو دے نہیں سکی البتہ اب ستر ہزار پاکستانیوں کے قاتلوں کومعافی دینے کا فیصلہ مہنگائی اور بیروزگاری سے ستائے عوام کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈال دے گا۔ یہ فیصلہ ان ستر ہزار شہدا کے خون سے غداری تو ہو گی ہی، عالمی سطح پر ملک کی جو سُبکی ہو گی اور جو نقصان ہو گا اس کا اندازہ نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کےدورے کی منسوخی سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
حکومت کے لیے سوچنے والی بات ہے کہ کیا معافی کے فیصلے کے بعد طالبان توبہ تائب ہو کر ریاستی رٹ کو تسلیم کر لیں گے یامعافی کے فیصلے کو ریاست کی کمزوری جانتے ہوئے اسے اپنی فتح اور ریاست کی شکست تصور کریں گے اور مزید کھل کر سامنےآئیں گے۔ حکومت کو سوچنا چاہئیے کہ کہیں حکومت کا بغیر کسی مشاورت یا سوچے سمجھے بغیر عجلت میں کیا گیا ایسا کوئی بھی فیصلہ پہلےسے بنیاد پرستی میں گھرے ملک کو مزید تباہی میں تو نہیں دھکیل دے گا۔ حکومت کو یہ حقائق بھی ضرور مد نظر رکھنے چاہئیں کہ طالبان کے ساتھ پہلے کیا جانے والا کوئی بھی معاہدہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ لال مسجد آپریشن کے دوران فوج کے خلاف ہتھیار اٹھانے والا مولوی عبدالعزیز دارالحکومت اسلام آباد میں بیٹھ کر کھلم کھلا حکومت کی رٹ کو چیلنج کرتا ہے اور حکومت اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرتی یا شائد کر ہی نہیں سکتی۔
اس تحریر کے تکمیل کے مرحلے تک پہنچنے سے قبل شاہ محمود قریشی کے بیان پر تحریک طالبان پاکستان کا موقف بھی سامنے آ چکا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انہیں حکومت کی طرف سے معافی کی کوئی پیشکش قبول نہیں کیونکہ وہ حق پر ہیں اور ریاست پاکستان کےخلاف اپنی کاروائیاں جاری رکھیں گے۔ طالبان کے اس جواب کے بعد سب سے زیادہ غور کرنے والی بات اب یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کو معافی دینے کی بات آئی کہاں سے تھی؟ کیا یہ واقعی معافی دینے کی بات تھی یا یہ بھی ایک سرنڈر تھا۔۔۔ ویسا ہی سرنڈر جو ٹائیگر نیازی نے انیس سو اکہتر میں کیا تھا اور اب عمران احمد خان نیازی طالبان کے آگے کر چکا ہے۔
ذرا سوچئے ۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...