خواجہ سرا کے آخری الفاظ
جسم پہ پانی ڈالا گیا وہ مکمل جل چکا تھا، لیکن اس کے ہونٹ مکمل تھے، سرگوشی کر رہے تھے میں اس کے اوپر کھڑا کوشش کر رہا تھا کہ ان ہونٹوں کی حرارت سے اندازہ لگاؤں، بہت دیر سوچنے کے بعد میں اندازہ لگانے میں کامیاب ہوا کہ وہ ماں! کہنا چاہتا تھا، دو بار ہونٹ ملتے مجھے محسوس ہوتا تھا کہ بابا کہنا چاہتا ہے، خاموش شکایت کر رہا تھا! شاید وہ کہنا چاہتا تھا…..
اس کے ہونٹ مکمل ماں کہنے سے عاجز تھے! کہتا بھی کیسے اس کیلیے یہ لفظ نیا تھا! شاید کبھی لیکن نہیں!!! یہ اس لفظ سے مانوس نہیں تھا!!! شاید وہ کہہ رہا تھا!!!
ماں!
میں وہ بدنصیب ہوں جسے تمہاری کوکھ تو نصیب ہوئی لیکن آغوش نصیب نہیں ہوئی،
ماں!
اس معاشرے کو بچہ پیدا ہوتے وقت ٹانگوں کے بیچ دیکھ کر خوش"بیٹا" افسردہ "بیٹی" شرمندہ "خواجہ سرا" ہوتے دیکھا ہے!!!!
ماں میں نے تم کو شرمندہ ہوتے دیکھا تھا!!!
ماں!!!
میں معاشرے کا کھلونا تھا تونے پیدا کر کہ بازار میں پھینک دیا! ماں میں لوگوں کو نا بہلا سکا!!! میں ان کے سامنے ناچتا! ناچ ناچ کر گھنگرو توڑ دیتا تھک کر گرجاتا… وہ خوش ہوتے پھر رنجیدہ ہوکر مارتے! پھر میرے ہر عضو کو ناپتے، کاٹتے اور میں ان کے اندر چھپی وحشت کو ٹھنڈا کرنے کا کام کرتا لیکن ناکام رہا….
ماں!
پتا ہے جس کے اپنے نہ ہوں اس کے پرائے بھی نہیں ہوتے
ماں!
پتا ہے! پرائے کی شفقت نہیں وحشت سر پہ ہاتھ پھیرتی ہے
ماں!
کئی کئی دن یہ حسرت رہی کہ تم پکارو میں دوڑتا ہوا آوں گلے سے لگ جاوں!
ماں!
پتا ہے کبھی کبھی میرا ماں کہہ کر پکارنا اور تمہارا جی بیٹا کہہ کر جواب دینا، ان الفاظ کیلیے میرے کان ترس گئے…
ماں!
مجھے یہ معاشرہ تیل ڈال کر جلا رہا ہے ماں تم نے مجھے پیار سے کیوں نہیں مارا؟
ماں!!
پیار سے میرا گلا دبا دیتی!!
ماں!!!
بابا سے کہتی وہ یہ کام کر دیتا! ماں میں جتنے دن جیا وہ بھی ذلت سے,, مرا بھی تو ذلت سے!!!
ماں!!! میں تیرے ہاتھوں قتل ہونا چاہتا تھا…..
ماں!!!
ماں!!!
میرے پیدا ہونے سے تم شرمندہ ہوئی تھی میں اسی دن مر گیا تھا…..
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...