انسانوں کی یہ بستی بھی بڑی عجیب تھی اس بستی کے لوگوں پر جو ظلم ہورہا تھا شاید کسی پر ہوا ہو، اس بستی کا بادشاہ بڑا ظالم و جابر تھا اس نے ایسے قانون بنا رکھے تھے جو کسی نے نہیں بنایا تھا، اسی بستی کے ایک گھرانہ کا واقعہ ہے جو بالکل سچ اور حقیقت ہے،
یہ کہانی ایک ماں کی کہانی ہے جس کا نام ۔۔ یوکید۔۔ تھا یوکید۔۔ کے یہاں ایک لڑکا اور ایک لڑکی کی پرورش ہورہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور بیٹا عطا کیا بیٹے کی پیدائش ہوتے ہی ماں کا دل پھٹنے لگا کیونکہ اب قانون بن چکا تھا کہ جس کے گھر میں بھی لڑکے کی پیدائش ہو اس کو فوراً قتل کر دیا جائے گا، ماں بہت خوفزدہ تھی کہ آخر بیٹے کو کس طرح بچایا جائے بادشاہ کی جاسوس عورتیں گھر گھر چکر لگاتی تھیں، لیکن باپ نے ایسا انتظام کررکھا تھا کہ کسی کو بھنک بھی نہ لگے لیکن پھر بھی ماں کا دل نہیں مان رہا تھا ماں بہت پریشان تھی اور اپنے شوہر سے کہا کرتی تھی کہ آخر ہم کب تک چھپاتے پھریں گے کسی نہ کسی دن تو بادشاہ کو خبر ہوہی جائے گی، شوہر تسلی دیتا تو یوکید کی پریشانی میں کچھ کمی آتی لیکن دل سہما ہوا تھا،
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ۔یوکید۔ اپنے کمرے میں تنہا بیٹھی کچھ سوچ رہی تھی کہ اچانک اسے محسوس ہوا کہ اس کے کان میں کوئی سرگوشی کررہا ہے لیکن اس نے سوچا کہ شاید یہ میرا وہم ہو اس جانب توجہ نہیں دی دوسری مرتبہ پھر ایسا محسوس ہوا لیکن وہم خیال کرکے پھر توجہ نہیں دی جب تیسری مرتبہ سرگوشی کی کیفیت محسوس ہوئی تو۔یوکید ۔ کو معلوم ہوگیا کہ یہ وہم نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے کچھ اشارہ ہے ۔اسے یوں لگا کہ گویا اس سے کوئی کہ رہا ہو۔۔ یوکید۔۔ جب تمہیں اپنے بیٹے کی فکر لاحق ہو تو اس کو ایک صندوق میں بند کر کے دریا میں ڈال دو میں اس کی حفاظت کرونگا۔۔۔
یوکید۔ ایک اللہ کو ماننے والی خاتون تھی اسے یقین ہوگیا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ کا وعدہ کبھی جھوٹا نہیں ہوسکتا، چنانچہ یوکید نے اپنی بیٹی مریم کو اپنا رازدار بنا یا اور ایک صندوق میں اپنے بیٹے کو بند کرکے اپنی بیٹی مریم کو حکم دیا کہ وہ اس کو دریا میں ڈال دیں بہن اپنے بھائی کو لے جارہی ہے دل میں طرح طرح کے خیالات جنم لے رہے ہیں لیکن اللہ کا حکم ہے ٹال نہیں سکتی، ادھر ماں کا جگر چھلنی ہورہا ہے، کلیجہ پھٹا جارہا ہے اور ایک تصورات کی دنیا میں گم ہے۔۔ نہ جانے بیٹے کا کیا ہوگا۔ اگر بادشاہ کو معلوم ہوگیا تو بیٹی کی جان بھی چلی جائے گی۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی کے چلے جانے کا غم کیسے برداشت کروں گی۔ کہ اچانک یوکید۔ کو خدا کا وعدہ یاد آجاتا ہے پھر کیا سارا غم اور سارے وسوسے یک لخت دور ہوجاتے ہیں، ادھر بہن خدا کا نام لے کر دریا میں اپنے ننھے بھائی کو ڈال دیتی ہے اور چھپ کر ماجرا دیکھنے لگتی ہے کافی وقت گزر جاتا ہے مریم گھر واپس نہیں آتی ماں پھر بے چین ہونے لگتی ہے کہ اچانک ہانپتے کانپتے مریم گھر میں داخل ہوتی ہے اور ماں سے کہنے لگتی ہے ۔ ماں چلو۔ ہمیں محل چلنا ہے، اتنا سنتے ہی ماں کے بدن میں کپکپی طاری ہو جاتی ہے،
کیوں؟ کیا بادشاہ کو معلوم ہوگیا کہ وہ ہمارا بچہ تھا؟
کیا بچہ چھپانے کے جرم میں ہم قتل کئے جائیں گے؟
بہن۔۔ نہیں ماں۔ بس محل چلیں،
ماں۔۔ مجھے پوری بات بتاؤ۔ کیا ماجرا ہے؟
بہن۔۔ ماں! جب میں نے بھائی کو دریا میں ڈالا تو میں چھب کر دیکھ رہی تھی ، ماں میں نے دیکھا کہ صندوق محل سے لگ گیا اور بادشاہ کی بیوی نے اسے اپنے محل میں لے آئ
ماں۔۔ پھر کیا ہوا ؟
بہن۔ جیسے ہی ملکہ نے صندوق کھولا تو اس میں میرا خوبصورت بھائی نکلا ملکہ بے اولاد ہے اس لئے ملکہ نے کہا کہ میں اس چاند جیسا خوبصورت بچہ کی پرورش کرنا چاہتی ہوں ، لیکن ماں میرا بھائی بہت رورہا ہے وہ بھوکا ہے کسی کا دودھ نہیں پی رہا ہے جگہ جگہ سے دائیآں بلائ گئیں لیکن میرے بھائی نے کسی کے چھاتی پر منہ نہیں لگایا، ماں بھائی کا رونا دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے ایک کنیز سے سرگوشی کی کہ میں ایک ایسی عورت کو جانتی ہوں اور مجھے پورا یقین ہے کہ یہ بچہ اس عورت کا دودھ پی لے گا،
جب اس کنیز نے میری یہ بات سنی تو فورا ملکہ کو جاکر سب کچھ کہ سنایا ،۔ ماں ملکہ نے آپ کو فوراً محل بلایا ہے ۔۔ چلیں ماں دیکھیں االلہ نے کیسے اپنا وعدہ پورا کیا،
جیسے ہی ماں محل پہنچتی ہے اور بچہ کو گود لیتی فوراً بچہ چپ ہوجاتا ہے اور دودھ پینے لگ جاتا ہے،
ماں سجدہ میں گر جاتی ہے اور خدا کا شکر بجا لاتی
اب ماں کو خدا کے وعدہ پر پختہ یقین ہوگیا اس کے ایمان میں بھی مضبوطی آگئ یوں اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کردیا پچہ بھی مل گیا اور اس کی پرورش بھی محل میں کرائ،
عزیز بچو،۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ بچہ کون تھا؟
وہ بچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تھا جو ایک جلیل القدر نبی تھے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کئی بار اللہ تعالیٰ سے گفتگو کی ،اللہ تعالیٰ نے یہ شرف خاص طور سے آپ کو بخشا تھا، وہ ظالم بادشاہ اس وقت کا فرعون تھا جو بڑا ظالم و جابر تھا ، اس کی وفات کے بعد اس کا بیٹا بادشاہ بنا وہ بھی اپنے باپ کی طرح تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بات اس نے نہیں مانی اللہ سے بغاوت کا راستہ اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو دریا میں غرق کردیا،
بچوں۔۔ دیکھا آپ نے اللہ پر بھروسہ کا کیا انعام ملا،
ہمیں بھی اللہ پر ایساہی بھروسہ رکھنا چاہیئے اور اس کے وعدوں پر یقین رکھنا چاہیے تاکہ ہم بھی کامیاب ہوں اور انعام کے مستحق ہوں ،