مندرجہ ذیل واقعہ لیونارڈو مالوڈینو نے لکھا ہے۔ اس وقت وہ سٹیفن ہاکنگ کے ساتھ کتاب پر کام کر رہے تھے۔
میں اس روز دیر سے گھر واپس آیا۔ دن اچھا نہیں گزرا تھا، بھوک لگ رہی تھی اور فریسٹریشن تھی۔ میں سیدھا اپنی والدہ کے پاس چلا گیا جو ساتھ والے گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ کھانا کھا رہی تھیں۔ پیچھے ٹی وی چل رہا تھا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ دن کیسا رہا۔ میں نے کہا، “ٹھیک”۔ انہوں نے اپنی پلیٹ سے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا اور کہا، “جھوٹ۔ بتاوٗ کیا ہوا؟ اور یہ لو کھاوٗ، روسٹ رغی بہت مزیدار ہے”۔ میری والدہ 88 برس کی ہیں۔ اونچا سنتی ہیں اور بینائی بھی زیادہ اچھی نہیں۔ لیکن جب اپنے بیٹے کے جذبات جانچنے تھے تو ان کی نگاہوں کی ایکسرے پر کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔
اس سے میرا دھیان اپنے کولیگ اور آج کی فرسٹریشن میں شریک ساتھی سٹیفن ہاکنگ کی طرف چلا گیا۔ ہاکنگ اپنا ایک مسل بھی مشکل سے ہلا سکتے تھے۔ پینتالیس سال سے موٹر نیورون بیماری کا مقابلہ کر رہے تھے۔ اس سٹیج پر وہ صرف اپنی دائیں گال کے نیچے مسل ہلا سکتے تھے۔ اس کو عینک کے ساتھ لگا سینسر ڈیٹکٹ کر لیتا تھا اور وہیل چئیر پر کمپیوٹر کو پہنچا دیتا تھا۔ ایک خاص سافٹ وئیر کی مدد سے وہ اس سے الفاظ اور حروف چن لیتے تھے اور اپنا خیال بیان کر دیتے تھے۔ اچھے دنوں میں یہ ایسا تھا کہ جیسے کوئی ویڈیو گیم کھیل رہا ہو جس میں جیتنے کا انعام اپنی سوچ دوسرے کو بتا دینا ہے۔ برے دنوں میں اس مورس کوڈ کے درمیان غلطیاں رہ جاتی تھیں جن کو انہیں واپس ٹھیک کرنا پڑتا تھا۔ ہم دونوں کے لئے یہ فریسٹریشن کا باعث بنتا تھا۔ کائنات کے ویو فنکشن کے بارے میں اظہار کرنے کے الفاظ نہ ملنا الگ بات لیکن مجھے یہ محسوس کرنے میں کبھی بھی مشکل نہیں ہوئی کہ وہ اس وقت کاسموس کے بارے میں سوچ رہے ہیں یا دھیان کسی اور طرف چلا گیا ہے یا اب کھانا کھانے کا موڈ ہے۔ مجھے ہمیشہ پتا ہوتا تھا کہ وہ مطمئن ہیں یا تھکے ہوئے ہیں یا پرجوش ہیں یا ناخوش ہیں۔ یہ صرف ان کی آنکھ پر ایک نظر ڈالنے سے پتا لگ جاتا تھا۔ ان کی پرسنل اسسٹنٹ کے پاس بھی یہ صلاحیت تھی۔ وہ بتاتی تھیں کہ پچھلے برسوں میں وہ بہت سے تاثرات کو سیکھ چکی ہیں۔ ہاکنگ کی آنکھ بتا دیتی ہے کہ وہ بات کرنے والے سے متفق نہیں۔ اس کے بعد لکھا ہوا شائستہ اختلاف میرے اس خیال کی تصدیق کر دیتا ہے۔ زبان اور الفاظ کے ذریعے دوسروں سے رابطہ کرنا اچھا ہےلیکن ہم اپنے معاشرتی اور جذباتی کنکشن الفاظ کے علاوہ بھی بتا دیتے ہیں، سمجھ لیتے ہیں اور اس کے لئے کوئی شعوری محنت بھی نہیں لگتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک گاڑی بنانی ہو تو یہ دنیا مل کر بناتی ہے۔ لوہے کو زمین سے نکالنا، پراسس کرنا، شیشہ، ربڑ، پلاسٹک کی تیاری، بیٹری، ریڈی ایٹر اور ان گنت پارٹس کی پروڈکشن، الیکٹریکل اور مکینیکل سسٹم کے ڈیزائن، اسمبلی۔ یہ سب کچھ دنیا کے مختلف حصے میں بڑی مختلف مہارتوں والے لوگ کرتے ہیں۔ کافی یا بسکٹ آپ کے کھانے کی میز تک پہنچانے میں ہزاروں لوگوں کا کام ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ بڑے اور نفیس سوشل سسٹم کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا اور یہ سسٹم ایک دوسرے سے رابطوں کے پیچیدہ طریقے کے بغیر نہیں بن سکتے تھے۔
انسان موجودہ فزیکل صورت میں تو بہت عرصے سے ہے لیکن آج سے پچاس ہزار سال قبل کے جس وقت کو “انسانوں کی عظیم چھلانگ” کہا جاتا ہے، اس میں ڈویلپ ہونے والی بڑی چیز تھیوری آف مائنڈ تھی۔ (تفصیل نیچے لنک سے)۔ دوسرے کو پڑھ لینے کی صلاحیت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھیوری آف مائنڈ کی ایک پیمائش “ارادہ” ہے۔ کوئی جاندار جو اپنی ذہنی حالت پر خود غور کر سکے، اپنے گمان اور خواہشوں کو پہچان سکے۔ “میں اپنی والدہ کا روسٹ مرغ کھانا چاہتا ہوں”۔ یہ پہلے آرڈر کا ارادہ کہلاتا ہے۔ زیادہ تر ممالیہ اس کیٹگری میں آتے ہیں جو یہ صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس کا دوسرا آرڈر یہ ہے کہ جاندار دوسرے کی ذةنی کیفیت کے بارے میں رائے قائم کر سکے۔ “میرا خیال ہے کہ میرا بیٹا یہ روسٹ کھانا چاہے گا”۔ یہ دوسرا لیول تھیوری آف مائنڈ کی ابتدائی صورت ہے۔ ہر صحت مند انسان میں یہ پایا جاتا ہے۔
اس کے بعد تیسرا آرڈر ہے۔ “میرا خیال ہے کہ میرے والدہ کو پتا لگ گیا تھا کہ میں ان کا روسٹ چکھنا چاہوں گا”۔
اس سے اگلے لیول ہیں۔ “مجھے لگتا ہے کہ میرے باس کا خیال ہے کہ پراجیکٹ منیجر کے بنائے ہوئے پلان پر اس کی ٹیم کو اعتبار نہیں”۔ چوتھے لیول کی سوچ والا یہ یہ کام ہر وقت کرتے رہتے ہیں۔ یہ انسانی سوشل تعلقات کے لئے عام ہے۔
یہ چوتھا لیول لٹریچر کے لئے ضروری ہے۔ کسی ناول یا ڈرامے میں لکھنے والا اس طرح کی چیز سوچ رہا ہوتا ہے کہ “میں نے اس سین میں جو اشارے ڈالے ہیں، ان کی مدد سے دیکھنے والا اس نتیجے تک پہنچ جائے گا کہ طیفا سمجھتا ہے کہ جیراں اس کو پسند کرتی ہے”۔ سیاستدان یا بزنس ایگیٹو اس چوتھے لیول کی سوچ کے بغیر کام ہی نہیں کر سکتے۔
روبوٹ پہلے لیول پر بھی نہیں۔ دوسرے ذہین پرائمیٹ پہلے اور دوسرے آرڈر کے درمیان کہیں پر آتے ہیں۔ انسان تیسرے اور چوتھے لیول کی سوچ ہر وقت کر رہے ہوتے ہیں۔ اور چھ لیول تک جا سکتے ہیں۔ اس چھٹے لیول کے لئے فقرے بنانا بھی مشکل ہے اور ان کے معنی شعوری طور پر سلجھانا کسی پیچیدہ مساوات کو حل کرنے سے کم نہیں، لیکن یہ ہماری سوچ کے ذخیرے کا حصہ ہیں۔ سوشل نیٹ ورک قائم کرنے کے لئے یہ ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لارج ہائیڈرون کولائیڈر، جو سوئٹزرلینڈ میں پارٹیکل ایکسرلریٹر ہے، اس کی فزکس انسانی ذہن کے شاہکار ہونے کا ثبوت ہے۔ اس ذہن کی اصل طاقت اس کے لئے آرگنائزیشن کا سکیل اور اس کی پیچیدگی ہے۔ 37 ممالک سے تعلق رکھنے والے 2500 سائنسدان، انجنیر اور ٹیکنیشن کا اکٹھے مل کر کام کرنا، تعاون کے ساتھ مسائل حل کرنا، بدلتی صورتحال کے ساتھ ایڈجسٹ ہو جانا۔ اس سب کو منظم کر لینے کی کامیابی اس کی اپنی کامیابی سے کم متاثر کن نہیں تھی۔
یہ اس کتاب سے
Subliminal: Leonard Mlodinow