بخت سیاہ ہو تو کچھ کام نہیں آتا۔ تعلیم نہ دولت۔ ہم پاکستانی ساری زندگیاں ترقی یافتہ ملکوں کے ان معاشروں میں گزار دیتے ہیں جو نظم و ضبط، سچائی اور دیانت سے عبارت ہیں لیکن اپنا دامن بچا کر رکھتے ہیں۔ سچائی اور دیانت کو قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتے۔ اس لئے کے بخت سیاہ ہو تو کچھ کام نہیں آتا۔ تعلیم نہ دولت۔ گرین کارڈ نہ کینیڈا کی شہریت!
فرض کریں میں آپ سے کہتا ہوں کہ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے یا کراچی کے تاجروں کی انجمن نے پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز کو اپنی سالانہ تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر بلایا تو کیا آپ یقین کر لیں گے؟ کبھی نہیں۔ کوئی غیرت مند پاکستانی، یا پاکستانیوں کی کوئی انجمن، بقائمی ہوش و حواس، پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز کو بلانے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ یہ کام جن مرد کے بچوں نے کیا ہے وہ ہمارے تارکین وطن بھائی ہیں۔ کینیڈا پاکستان بزنس کونسل نے اپنی سالانہ تقریب میں شوکت عزیز کو مہمان خصوصی کا اعزاز دیا ۔
یہ شوکت عزیز وہی ہیں جو آٹھ سال تک اس ملک پر مسلط رہے‘ پہلے وزیر خزانہ کے طور پر اور بعد میں وزیراعظم کی صورت میں، وہی شوکت عزیز جنہوں نے لال مسجد ایکشن کی آخری فیصلہ کن رات کو خصوصی طور پر دکان کھلوا کر قلفیاں کھائی تھیں، وہی شوکت عزیز جن کے وزیرقانون کے صاحبزادے نے باپ کی موجودگی میں کراچی کے ہوائی اڈے پر ایک شریف شہری کو مار مار کر لہولہان کر دیا تھا اور وزیراعظم کے کان پر جوں رینگی نہ ماتھے پر شکن ابھری۔ وہی شوکت عزیز جس نے بدعنوان وزیروں کاساتھ دینے کیلئے دیانتدار افسروں کو سزائیں دیں۔ ان دیانت دار افسروں میں خواتین بھی شامل تھیں اور سب سے بڑھ کریہ کہ وہی شوکت عزیز جس کی آٹھ سالہ مہارت اور وزارت کا ثمر آج پاکستانی قوم کھا کر مزے کر رہی ہے۔ بجلی ناپید ہے۔ گیس کی راشن بندی ہے۔ امن و امان عنقا ہے۔ موت گلی گلی رقص کر رہی ہے اور شوکت عزیز برونائی اور عرب کے شہزادوں سے بھی زیادہ عیش و عشرت والی زندگی گزار رہا ہے۔ سفر کیلئے ذاتی جہاز خرید لیا ہے‘ کبھی امریکہ، کبھی کینیڈا اور کبھی برطانیہ! پنجابی کا محاورہ ہے کہ ماں پِنے تے پتر گھوڑے گھنے۔ ماں بھیک مانگ رہی اور بیٹا گھوڑوں کی خریداری میں مصروف ہے۔ ملک کی اینٹ سے اینٹ بج رہی ہے۔ لوگ سسک رہے ہیں۔ بلک رہے ہیں اور شوکت عزیز ساری دنیا میں مشورے اور لیکچر دیتے پھر رہے ہیں۔
کینیڈا پاکستان بزنس کونسل کی سالانہ تقریب سے بطور مہمان خصوصی موصوف نے دو نکات پر بہت زور دیا۔ ایک یہ کہ ’’اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میں وزارت عظمیٰ کے منصب پر پہنچا۔‘‘ شوکت عزیز کی اگر تربیت ہوئی ہوتی تو انہیں معلوم ہوتا کہ فرعون، ہامان، چنگیز، ہٹلر اور نظام سقہ ہر ایک کو یہی گمان بلکہ یقین تھا کہ اسکے اقتدار کے پیچھے دست غیب کی کارفرمائی ہے۔ یہ تو کوئی بھی نہیں کہتا کہ یہ قوم کے گناہوں کا بوجھ ہے یا اس کا اپنا امتحان ہے۔ شوکت عزیز کسی آزادانہ انتخابات کے نتیجے میں وزیراعظم بنے ہوتے تو کوئی بات بھی تھی۔ وہ ایک آمر کو پسند آئے اس لئے کہ آمر کو کٹھ پتلی درکار تھی اور شوکت عزیز بہترین کٹھ پتلی تھے۔ کسی کو شک ہو تو اقتدار کے آخری ایام میں انکی وہ تقریر سن لے جو انہوں نے ہزارہ میں عمر ایوب خان کے ساتھ کھڑے ہو کر کی تھی۔ اس تقریر کی وڈیو ضرور ٹی وی والوں کے پاس ہوگی اور وہ کسی بھی مزاحیہ پروگرام میں اسے دکھا سکتے ہیں۔ شوکت عزیز نہ صرف کٹھ پتلی بلکہ مداری لگ رہے تھے۔ دوسرا نکتہ جس پر انہوں نے زور دیا یہ ہے کہ ’’مجھے ساری دنیا میں لیکچرز اور مشوروں کیلئے بلایا جاتا ہے۔‘‘ چند بناسپتی قسم کے اداروں سے دعوت ہر ایک کو مل جاتی ہے۔ دنیا میں بے شمار ادارے ایسے ہیں جو اتنے ہی جعلی ہیں جتنے شوکت عزیز۔ وہ اگر اتنے ہی بڑے برزجمہر ہیں تو اپنے مشوروں سے پاکستان کے مسائل کیوں نہیں حل کر دیتے؟ سعدی نے اس جیسے کسی چھچھورے شخص ہی کو کہا تھا کہ …؎
تو کار زمین را نکو ساختی؟
کہ با آسمان نیز پرداختی؟
کیا تو زمین کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو چکا ہے کہ آسمان کے کام کرنے کی ٹھان لی ہے؟ شوکت عزیز صاحب کرم فرمائیں اور پوری دنیا میں ’’پھر جانے‘‘ کے بجائے اس ملک ہی کے کام آ جائیں جسے وہ آٹھ سال تک دونوں ہاتھوں سے نوچتے رہے۔ اپنے دوستوں کو لٹاتے رہے اور کروڑوں روپے کے تحائف جو انہیں غیرملکی سرکاری دوروں میں پاکستان کی وجہ سے ملے تھے اور جو ریاست کی ملکیت تھے اٹھائی گیروں کی طرح سمیٹ کر رات کی تاریکی میں ملک سے بھاگ گئے۔ (ان تحائف کی تفصیل بمع مالیت میڈیا میں آ چکی ہے)
رہی کینیڈا پاکستان بزنس کونسل… تو تاجر، تاجر ہی ہوتا ہے۔ تاجروں سے کیا گلہ! تاجر برادری سے پیشگی معافی مانگتے ہوئے ہم صرف اتنا عرض کرنے کی جسارت کرینگے کہ اگر تاجر مخلص ہوتے تو ٹیکس کے اربوں روپے ناجائز جیبوں میں نہ جاتے، قومی خزانے میں جاتے۔ انکم ٹیکس اور کسٹم کے بدعنوان راشی افسروں کی دنیا کن کے سہارے آباد ہے؟ پورے پورے کنٹینروں کے سودے کون کرتا ہے؟ اور قانون سے بچنے کیلئے شٹر ڈائون ہڑتالوں کا کھڑاک کون کراتاہے؟
اصل قصہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام کی طرح پاکستانی تارکین وطن بھی دو حصوں میں منقسم ہیں۔ ایک عام لوگ جو مخلص ہیں، دردمند ہیں اور ملک کیلئے سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔ دوسرے کھڑپینچ اور لیڈری چمکانے والے، جو سب کچھ اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ یہ وہی حضرات ہیں جو پاکستان کے بدعنوان اور آمریت پسند سیاستدانوں کی بیرون ملک پذیرائی کرتے ہیں۔ تارکین وطن کے یہ ’’لیڈر‘‘ سیاسی جماعتوں کی بیرون ملک ’’شاخوں‘‘ کے انچارج بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان آتے ہیں تو ان کا عوام سے کوئی رابطہ نہیں ہوتا حکمرانوں کے ساتھ تصویریں کھنچواتے ہیں، تمغہ امتیاز جیسے ایوارڈوں کیلئے دوڑ دھوپ کرتے ہیں اور کسی نچلے درجے کے نامہ نگار کو انٹرویو دے کر ائرپورٹ کے وی آئی پی لائونج کے راستے واپس اپنی دنیا کوسدھار جاتے ہیں۔ ان تارکین وطن لیڈروں نے کبھی مطالبہ نہیں کیا کہ سیاستدان، سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات کرائیں اور ملک میں صحیح معنوں میں جمہوریت قائم ہو۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف جیسے ’’بطل جلیل‘‘ بھی تارکین وطن ہی کی کرم فرمائی سے امریکہ اور برطانیہ میں سرکس برپا کرتے پھرتے ہیں!
یہ درست ہے کہ کینیڈا پاکستان بزنس کونسل جیسے اداروں میں پاکستانیوں کیساتھ ساتھ مقامی لوگ بھی ہیں لیکن پاکستانی ارکان کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر اس قسم کے ادارے پاکستان کے بجٹ پر اپنی ماہرانہ پیشہ ورانہ رائے دیتے اور حکومت پر دبائو ڈالتے کہ عوام دشمن فیصلے نہ کئے جائیں۔ حالیہ بجٹ میں تعلیم کے شعبے کے سات ارب کم کر دئیے گئے۔ صحت کا بجٹ ستائیس فیصد کاٹ دیا گیا۔ ایوان صدر اور وزیراعظم کے دفتر اور محل کیلئے گذشتہ بجٹ کی نسبت کئی کروڑ روپے زائد مختص کئے گئے لیکن تارکین وطن کی پیشہ ورانہ تنظیموں نے احتجاج تو دور کی بات ہے اس ستم گری کا نوٹس تک نہیں لیا۔ یوں لگتا ہے ان کا مسلک اب یہ ہے …؎
میں نے جو آشیانہ چمن سے اٹھا لیا
میری بلا سے بوم بسے یا ہما رہے