سنیں ! آج کیا پکاؤں ؟ جو جی میں آئے
گزرے دنوں میں ماں باپ کی کھانے پر نوک جھونک کھانے سے زیادہ مزا دیتی تھی ۔ روز صبح آفس جاتے تو ماں پوچھتیں : “سنیں ، آج کیا پکاؤں؟”
باپ : ( آفس جانے کا رعب ) مطلب ۔۔۔ میں اب آفس جاتے ہوئے آپ کو بتاؤں کہ کیا پکے گا ؟
ماں : کیسی باتیں کرتے ہیں ۔ رات پوچھوں تو کہتے ہیں ۔ یہ کوئی پوچھنے کا وقت ہے ۔
باپ : ( ہاتھ میں گھڑی لگاتے ہوئے ) مجھے ہو رہی ہے دیر۔۔۔ جو جی میں آئے پکا لینا ۔
اب باپ رات کو کھانے کی میز پر بیٹھے ہیں ۔ ماں نے پہلے مصالحے والی بھنڈی لا کر رکھی ۔ اس کے بعد آلو گوشت اور تھوڑے سے دوپہر کے بچے دال چاول ۔ باپ نے سب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی ۔ اب جو باپ کے جی میں آئے وہ کہا جائے گا ۔
باپ : ( جھنجھلاہٹ سے ) اب اس میں سے ، میں کیا کھاؤں ؟
ماں : ( بڑی چاہ سے ) سب آپ کے لیے ہے جو چاہیں کھا لیں ۔
باپ : ( چڑ کر ) مطلب میں یہ سوکھی بغیر سالن کی مصالحے سے بھری بھنڈی ۔ پیٹ میں آگ لگا دے گی ۔
ماں : ( مسکراتے ہوئے ) تو یہ آلو گوشت لے لیں ۔ اس میں تو شوربہ بھی ہلکا ہے ۔
باپ : گائے کا گوشت اور میں ؟ تمھیں سب پتہ ہے ڈاکٹر نے منع کیا ہے گائے کا گوشت ۔ آلو کم بادی ہیں ؟
ماں : ( چہرے پر ہلکی سی ناگواری ) چلیں رات کا وقت ہے ہلکا کھانا کھانا ہے تو یہ دال چاول لے لیں ۔
باپ : ( باقاعدہ ناراضگی ) ایک شخص دن بھر کا تھکا ہارا گھر میں آئے ۔ ایک وقت کھانا کھائے اور آپ اس کے آگے رکھ دیں ۔ دوپہر کے باسی دال چاول ۔۔۔ اچھی طرح معلوم ہے میں رات کو چاول نہیں کھاتا ۔
اب ماں کا پارہ بھی چڑھ جاتا ہے : میں شام سے پاگلوں کی طرح باورچی خانے میں لگی ہوں اور آپ ہیں کہ مزاج ہی نہیں مل رہے ۔
باپ : مزاج ملنے کی کیا بات ہے ۔ وہی سب پکانا جو میں نہیں کھاتا ۔
ماں : صبح پوچھا تو تھا ۔ کیا کروں ؟ بتائیں ؟
باپ : ٹنڈے ، دال بھرے کریلے ، آلو کی قتلیاں ، بھگارے بینگن اور ہاں وہ گوار کی پھلی ۔
ماں : اچھا ۔۔۔ کون کھاتا ؟ بچے تو ہاتھ نہ لگاتے ۔ پوری ہنڈیا بھری رہتی ۔ آپ باپ بیٹے مل کر طے کرلیں کیا کھانا ہے ؟ کسی کے مزاج ہی نہیں ملتے یہاں ۔
باپ : اس میں مزاج ملنے کی کیا بات ہے ؟ اور ایک بات بتاو ۔ تم نے پچھلے ہفتے گوار کی پھلی بنائی ۔ زہر مار کی ہے میں نے ۔
ماں : اس میں ایسا کیا ڈال دیا جو زہر ہو گئی؟
باپ : وہ ۔۔ وہ تم نے ایک تو صحیح طرح اسے بھونا نہیں اور اوپر سے اس پر تل بھی نہیں ڈالے ۔
ماں : ( تلملا کر ) اس وقت کیوں نہ بولے ۔
باپ : وہ برابر والی کے ہاں سے مچھلی بریانی جو آ گئی تھی ۔ ابھی تک منہ میں ذائقہ ہے ۔۔۔ واہ !
ماں : اچھا اس کی سڑی بُھسی بریانی پر واہ اور ہم جو یہاں پکا پکا کر مرے جا رہے ہیں اس پر آہ ۔
باپ : تو اس میں برا ماننے والی کیا بات ہے ۔ ذائقہ زبان پر آتے ہی بولتا ہے ۔
ماں : ( طنز سے ) ایسا کریں آپ وہیں رہنے لگیں اور اس کے ہاتھ کے کھانے ہی کھائیں ۔
باپ : اب تم جذباتی ہو رہی ہو ۔
ماں غصے سے اٹھ کر چلی جاتی ہے ۔ باپ روکتے رہ جاتے ہیں ۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد مصالحے والی بھنڈی نکال کر پہلا نوالہ کھاتے ہی کہتے ہیں : ہے تو مزے کی ۔ کچھ بھی ہے بیگم کا لہجہ تلخ ہے لیکن ہاتھ میں ذائقہ ہے ۔
اتنی دیر میں بیٹا آ جاتا ہے ۔ کھانوں کی طرف دیکھ کر کہتا ہے : یہ امی نے کیا پکا لیا ؟ اور وہ ہیں کہاں ؟
باپ : تمھیں اپنی ماں کا ذرا بھی احساس نہیں ۔ دن بھر لگی رہتی ہے ۔ کمرے میں کچھ دیر لیٹنے گئی ہیں ۔
بیٹے کی آواز سن کر ماں آجاتی ہے ۔ بیٹا منہ بنا کر کہتا ہے : امی یہ کیا بنا لیتی ہیں آپ ۔ پیسے دیں میں باہر سے کچھ لے آتا ہوں ۔
باپ : یہ نہیں چلے گا یہاں جو گھر میں پکا ہے وہ کھاؤ ۔ ( ماں کی طرف دیکھ کر ) یہ بھنڈی اور آلو گوشت کھا کر دیکھو ۔ انگلیاں چاٹتے رہ جاو گے ۔ واہ کیا ذائقہ ہے ۔۔۔ واہ !
ماں : (بیٹے سے) تمھارے لیے انڈا آملیٹ بنا دوں ؟
باپ : انڈا آملیٹ کیوں بنا دوں ؟
باپ : ( بیٹے سے ) تمھاری امی تو ایسا کھانا بناتی ہیں کہ آس پڑوس کی عورتیں تعریف کرتی ہیں ۔ برابر والی تو تمھاری امی کی دیوانی ہے۔ میاں جتنا ماں کے ہاتھ کا کھانا کھانا ہے کھا لو ۔۔۔
ماں : ( طنز سے ) بیوی آ گئی تو پھر ماں کے ہاتھ کا کھانا گیا ۔
باپ : میں نے یہ تو نہیں کہا ۔
ماں : مگر سمجھا تو میں نے یہی ہے ۔
بیٹا اپنے کمرے میں جا چکا ہے ۔ ماں جانے لگتی ہے ۔ باپ پوچھتا ہے : اب کہاں ؟ میں کھانا کھا تو رہا ہوں ۔
ماں : بیٹے کے لیے آملیٹ بنانے ۔
باپ : میں نے اتنی تقریر کی مگر تم نے آملیٹ کا نام تک نہ لیا ۔
ماں : دنیا میں کچھ محبتیں صرف اولاد کے لیے ہوتی ہیں ۔
باپ : یہ کس نے کہا ؟
ماں : آپ کی والدہ مرحومہ نے ۔ وہ بھی کئی بار !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر : اظہر عزمی
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...