یادوں کا موسم یا وقت ہوتا تو انسان کتنا سکھی رہتا ،یہ جو بن بلاۓ مہمان کی طرح ہر وقت کسی نہ کسی کونے کھدرے سے کوئی پہچانی سی آواز سنائی دے جاتی ہے یا اچانک کسی کے ہاتھ کا لمس گرمی میں چھاٶں سی کر دیتا ہے اور پھر کسی بیری کے درخت تلے آرام کرتی وہ اچانک آکر مجھے لوری سنانا شروع کر دیتی ہے تو جو تھوڑی بہت نیند اکھیوں میں کہیں چھپی ہوتی ہے وہ بھی ختم ہو جاتی ہے اسی ڈر کے مارے کہ میں جو سو گٸی تو لوری سنانے والی پھر سے بیری تلے اپنی آخری آرام گاہ میں جا کر چھپ جاۓ گی۔
بیری کی چھاٶں تلے آرام کرتے بھی اسے کٸی سال بیت گیۓ، اس رات جب وہ رخصت ہوٸی تو لگتا تھا بس آج کی رات کی صبح کبھی نہیں ہوگی مگر وہ رات بھی بسر ہو ہی گٸی اور پھر دن چڑھتے وہ اپنی آرام گاہ میں جا کر نظروں سے اوجھل ہوگٸی مگر جب بھی دکھ کی شدید لہر نے توڑا وہ جھٹ سے آن پہنچی اپنے ہاتھوں کا نرم لمس لے کر، پھر بند آنکھیں کھولنے کی خواہش ختم ہو جاتی ہے جس لمحہ وہ پاس آۓ، جانے کیسے ”ماں“ جان جاتی ہے وہ سب جو ہم زندہ چلتے پھرتے انسانوں کو نہیں بتا سکتے مگر میلوں دور مٹی اوڑھے وہ جان جاتی ہے، کیا سب ماٸیں ہی ایسی ہوتی ہیں مگر میں تو ایسی ماں نہ بن سکی جسی وہ تھی