وہ چارپائی پہ پڑی ایک لاش ہی تھی جس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ جس کا بدن بیماری سے مقابلہ کرتے ہوۓ ہار چکا تھا۔ جس کی آنکھوں سے بہتے آنسو اپنے شوہر کی موت کی داستان سنا رہے تھے۔ جو آج سے سات ماہ قبل اسی بیماری سے جنگ لڑتے لڑتے جان کی بازی ہار چکا تھا۔اسکا شوہر تو بیماری سے طویل جنگ کے بعد چلا گیا لیکن اسکی موت کے ایک ہفتے بعد ہی یہ بیماری اب اس کو ہو گئ۔ مسلسل بخار،کھانسی اور دن بہ دن سوکھتے ہوۓ جسم نے اسے چارپائی کے ساتھ لگا دیا تھا۔ شام ڈھلنے کو تھی کہ اس کی بیٹی ہاتھ میں دوائیوں والا لفافہ پکڑے گھر میں داخل ہوئی۔ماں نے اسے دیکھتے ہی اپنی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کے آگے بند باندھ لیا۔ بیٹی نے ماں کو دوائیوں والا لفافہ پکڑایا تو اس نے وہی سوال دہرایا جو وہ روز پوچھا کرتی تھی "بیٹی اتنی مہنگی دوائیاں کہاں سے لاتی ہو؟ دن بھر کتنی مشقت کرتی ہو جو روز پیسے ملتے میری دوا کیلئے"
بیٹی جواب میں ماں کو روز یہی کہتی "کہ ماں اللہ ہے نا وہی وسیلہ بناتا ہے" یہ جملہ سن کر ماں کی آنکھوں میں ایک چمک ابھری۔ بیٹی نے بھی پر اعتماد لہجے میں کہا ماں تو بس دوا کھاتی رہ اور ہمت کر ، اللہ ہے نا وہ سب ٹھیک کر دے گا۔ اور تو بہت جلد ٹھیک ہو جاۓ گی۔
اگلی صبح معمول کے مطابق وہ پھر ماں کے سرہانے سیرپ رکھتے ہوۓ اور اسے وقت پر لینے کی تاکید کرتے ہوۓ گھر سے نکل گئ۔ ماں دن بھر اسی چارپائی پہ پڑی آنسو بہاتی رہی ۔ کبھی یہ سوچتی کہ اسکی بیٹی دوائیوں کے پیسے روز کہاں سے لاتی ہے۔ پھر جواب بھی خود ہی دیتی کہ یقیناً سارا دن کام کرتی ہو گی۔ ہزاروں وسوسے اسکو گھیر لیتے۔ لیکن وہ اپنی بیٹی کے اس جملے کو یاد کر کے خود کو سنبھالتی کہ "اللہ ہے نا وہ سب ٹھیک کر دے گا"
شام ہونے کو تھی، وہ بیٹی کی راہ تکنے لگی۔ اتنے میں وہ دوائیاں ہاتھ میں لیے گھر میں داخل ہوئی اور ماں سے اسکی طبیعت کا پوچھنے لگی۔ ماں نے آج کوئی جواب نہ دیا تو دوائیاں رکھ کر غسل خانے کی طرف چل دی۔ گھر میں بھیانک سناٹا تھا۔ گھر کا کونہ کونہ درد، تکلیف، مجبوریوں اور حالات کی ستم ظریفی کا گواہ تھا۔ اگلی صبح وہ پھر اپنے معمول کے مطابق ماں کے سرہانے سیرپ رکھتے ہوۓ خاموشی سے گھر سے نکل گئی۔ آج اسکا ذہن بہت الجھا ہوا تھا۔ اسے کوئی امید دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ کیونکہ نہ تو اسکی ماں کی طبیعت سنبھل رہی تھی اور نہ حالات کو اس پہ رحم آ رہا تھا۔ ماں نے روز کی طرح یہ دن بھی روتے ہوۓ گزار دیا اور پھر بیٹی کی راہ تکنے لگی۔ آج وہ شام ڈھلنے سے پہلے ہی لوٹ آئی تھی۔ اور آج ماں کی بیماری سے نجات کی دوا کی جگہ زندگی کے سارے دکھوں سے نجات کی دوا لائی تھی۔ آج وہ خاموشی سے کمرے کی طرف چلی گئی۔ اسے اپنے بدن سے کراہت محسوس ہو رہی تھی۔ اسکا دل چاہ رہا تھا وہ اس جسم کو نوچ ڈالے۔ آدھ گھنٹے تک وہ خود سے اور تقدیر سے لڑتی رہی۔ آج وہ ہار گئ تھی اور اب خود کو اس اذیت سے نکالنا چاہتی تھی۔ اسے کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ ننگے پاؤں کمرے سے نکلی اور باہر آ کر آگ جلانے لگی۔ پھر اس نے دو کپ چاۓ بنائی اور اس میں زہر ملا دیا۔ چاۓ کے کپ ہاتھ میں لیے ماں کی چارپائی پر جا بیٹھی اور کہنے لگی "ماں اللہ نہیں ہے، وہ کچھ بھی ٹھیک نہیں کرے گا۔ ماں اللہ نہیں ہے وہ کچھ بھی ٹھیک نہیں کرے گا" پھر اسکی آنکھ سے آخری آنسو گرا اور اس کے بعد وہ کبھی نہ رو سکی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...