یہ قصہ ہے ایک ایسی ماں کا جو ماں نہیں لیکن مثل مادر ضرور ہے
ہر ماں کی طبعی عمر کی طرح اس ماں نے بھی جوانی، بانکپن، ادھیڑ پن دیکھا، زمانے کے گرم سرد دیکھے۔ وہ وقت بھی دیکھا جب رگوں میں توانا خون مثل برق دوڑ رہا ہوتا تھا۔ ہر کام میں سرعت ہوتی تھی، ہر کام میں ایک ولولہ اور جذبہ ہوتا تھا۔
زمین کے اک ٹکڑے پر جب چشم فلک مہربان ہوئی تو چشم زدن میں ماں جیسے عظیم مرتبے پر فائز کردیا۔ ماں میچور نہیں تھی لیکن بچوں کی خاطر اسے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا پڑا۔ دنیا کی چالاکیوں سے ناواقف، زمانے کے داؤ پیچ سے نابلد یہ ماں کم سنی میں بھی بچوں کو سنبھالتی رہی
بچے سن بلوغت کو پہنچے تو آپس کی دھینگا مستیوں میں کبھی ایک ماں کے آنچل میں چھپتا تو کبھی دوسرا ماں کا پلو کھینچتا تھا۔ بچے سن بلوغت سے ہی ماں پر سے معاشی بوجھ کم کرنے کیلئے کام کرنے لگ پڑے اور جس طرح ایک عام گھر میں ہوتا ہے ہر بچہ لائق فائق نہیں ہوتا اسی طرح اس ماں کے بچے آپس میں کمائی پر جھگڑنے لگے
تو کم کماتا ہے
نہیں تو اپنی کمائی سے زیادہ کھاتا ہے
اسی تو تو میں میں میں بچے چوبیس سال کے ہوگئے اور نوبت ہاتھا پائی تک آگئی۔ ماں تو ماں تھی بچوں کو لڑتا دیکھتی رہی
ماں کیلئے زیادہ کمانے والا بیٹا بھی بیٹا تھا اور کم کما کر زیادہ خرچ کرنے والی اولاد بھی اولاد ہی تھی۔ ماں کا کلیجہ تو دونوں کیلئے پسیجتا تھا۔ دل دونوں کیلئے ہی دھڑکتا تھا۔ ماں اپنا کلیجہ جلاتی رہی دونوں بیٹے لڑتے رہے۔ دونوں اب اتنے بڑے ہوچکے تھے کہ ماں کا فیصلہ سننا بھی گوارا نہیں کیا اور آپس میں فیصلہ کرلیا “ادھر تم ادھر ہم”
ماں راتوں کو تکیے میں منہ دئیے روتی رہی سسکتی رہی
شکایت کس سے کرتی؟
اولاد اسکی سننے کیلئے تیار بھی تو نہیں تھی
چوبیسواں سال بڑا ہی بھیانک سال تھا اس دکھیاری ماں کیلئے جب دو منجھلے بیٹے آپس میں لڑ پڑے
بڑا بیٹا جو زرا طاقتور بھی تھا اور چھوٹے بھائیوں کو ڈرانے کیلئے ہاتھ میں ہر وقت چھڑی بھی رکھتا تھا اس نے اپنا وزن ایک بھائی کے پلڑے میں ڈال دیا
اولاد ماں کے سامنے گتھم گھتا ہوتی رہی اور کمزور ماں تماشا دیکھتی رہی
اسکا ایک لخت جگر اپنے بھائیوں سے الگ ہوگیا
اور ماں دیکھتی رہی
ماں نے باقی بیٹوں کے دکھوں پر مرہم رکھا اور بچے کچے کنبے کو سنبھالنا شروع کیا
کچھ ہی سال اور بیتے ہونگے کہ پڑوس میں تو تو کار شروع ہوئی باقی ماندہ بیٹوں میں سے کوئی کبھی کسی پڑوسی کو مظلوم سمجھ کر اسکی لڑائی میں کود پڑتا تو کبھی دوسرا بیٹا محلے کے کسی غنڈے کو اپنا نجات دہندہ سمجھ بیٹھتا
ماں خاموش دیکھتی رہی
کبھی ایک بیٹا کسی پڑوسی کی لڑائی میں اتنا مگن ہوجاتا کہ لڑائی کا تماشہ دیکھتا ہوا اپنا ہی کوئی دوسرا بھائی بھی اسکے گھونسوں مکوں کی زد میں آجاتا اور ماں دیکھتی رہتی
بڑا بیٹا جو ڈیل ڈول میں طاقتور تھا، ہاتھ میں چھڑی بھی رکھتا تھا آئے دن کسی نہ جھگڑے میں الجھتا رہتا، اسکے خرچے پورے کرنے کیلئے باقی چھوٹے بھائیوں کو دن رات محنت کرنی پڑتی تھی۔ اپنا خون پسینہ بہانا پڑتا۔
اور ماں دیکھتی رہتی
محلے میں یونہی اپنی دھاک بٹھانے کے چکر میں بڑے بیٹے نے تقریباً سارے ہی پڑوسیوں سے ناطقہ بند کروادیا
ایک بیٹا پڑھ لکھ گیا
وہ اب صرف کتابوں اور قانون کی زبان ہی بولتا ہے، ماں سے مشورہ بھی نہیں کرتا، ماں کے دوسرے کمزور ناتواں بیٹوں کو کیا چاہئیے کیا نہیں وہ بھوکے ہیں یا ننگے پاؤں قانون کی کتابوں میں غرق بیٹے کو کسی سے کوئی غرض نہیں اگر وہ کبھی کسی کی سنتا ہے تو اپنے اسی بھائی کی جسکے ہاتھ میں چھڑی ہے
اور ماں دیکھتی رہتی ہے
ماں کی عمر ستر برس سے زائد ہوچکی
اس عمر میں ماں کی ہڈیاں کمزور اور لاغر ہوگئیں
نظر بس اتنی رہ گئی جو اولاد قریب ہو صرف وہی پیاری لگتی ہے یا قریب والے بیٹے اسے جو بتا دیں اسکے لئے وہی سچ ہوتا ہے
بغیر سہارے کے زیادہ دیر چل نہیں سکتی
رات بھر کبھی بیٹوں کو احساس دلانے کیلئے وقتا فوقتا کھانستی بھی ہے تاکہ گھر میں اپنی موجودگی کا احساس دلا سکے
کبھی کسی بیٹے کو خیال آجاتا ہے تو سرکاری اسپتال سے نیلی پیلی گولیوں اور لال شربت والی دوائی دلا دیتا ہے
آنکھوں پہ جمی موٹے عدسوں والی عینک ایک پتلی سی رسی سے باندھے یہ بوڑھی ماں سوچ رہی ہے کہ اولاد واقعی ایک امتحان ہوتی ہے
بیٹے اب خود بیٹوں بیٹیوں والے ہوچکے ہیں
ماں کی بھی نہیں سنتے
لیکن ماں کیا کرے
ماں اب بوڑھی ہوچکی ہے
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...