سیٹھ جمیل نے عمر بھر کمائی کی حلال و حرام کی تمیز کیے بغیر ۔ان کا قول تھا ۔،،پیسہ تو پیسہ ہے ،جہاں سے بھی آئے ۔۔جیسے بھی آئے ،،۔ایک فیکٹری سے چار فیکٹریاں ۔۔۔آبائی مکان کے علاوہ چار بنگلے خریدے ۔۔اور بڑے فخر سے کہتے چار شہزادوں کے لیے چار محل۔۔سب سے چھوٹی بیٹی صبا ۔۔۔پرایا دھن ۔۔اسے دھن کی کیا ضرورت ؟
چار مختلف گھروں سے آئیں بیبیوں نے دیواریں کھڑی کردی ۔۔جمیل کی زندگی میں مملکت بٹ گئی ۔جس کے جو ہاتھ لگا لے اڑا ۔۔حلال وحرام کی پروا کیے بغیر ۔ہر بیٹے کی علحیدگی پر جمیل کا رنگ اڑجاتا۔۔عافیت گزری کے ہوش نہیں اڑے۔ضبط کرکے میاں بیوی بیٹی صبا کے ساتھ گزارا کرنے لگے ۔۔صبا کے ہاتھ پیلے کرنے کے بعد دونوں اسی مقام پر آگئے جہاں سے آئی سے چالیس سال پہلے ازدواجی زندگی کا سفر شروع کیا تھا ۔۔۔کہنہ مکان میں ۔!!
آج جمیل کا دسواں تھا ۔۔سارا خاندان بیٹھک میں سر جوڑ کر بیٹھا تھا کہ ،،اب ماں کا کیا کریں ؟؟
بڑے بیٹے نے تجویز پیش کی ،
،،ماں ! آپ ہر بیٹے کے یہاں ایک ماہ گزار لیا کریں ،،۔۔دوسرے بیٹوں نے بھی حامی بھری ۔
صابرہ ٹکر ٹکر سبھی بیٹوں کو دیکھے جارہی تھی ، وہ چار خانوں میں بٹ چکی تھی ۔۔بھیگی آنکھوں سے اس نے صبا کی طرف دیکھا ۔صبا نے تڑپ کر کہا ۔
،،ماں ! میرے باپ نے کوئی ٹھیک کام کیا ہو یا نہ کیا ہو ۔۔پر ایک کام بہت اچھا کیا ،،
سب استفہامیہ انداز میں اس کی جانب دیکھنے لگے ۔
،،مجھے وراثت میں تو کچھ نہیں دیا ۔۔۔پر میری شادی دیندار گھرانے میں کردی ،،۔۔پھر ماں سے گویا ہوئی ۔
ماں ! تم ہمیشہ کے لیے میرے پاس رہوگی،،۔۔پھر شوہر سے مخاطب ہوئی ۔
،،کیوں ! ٹھیک ہے نا !!،،
بالکل ، بالکل !۔۔ساس بھی آخر ماں ہی ہوتی ہے نا !،، داماد نے مہر الفت ثبت کردی ۔