ما بلی، چوٹے قد کاٹھ کا سوکھا سڑا شخص تھا اس کے بدن کے اوپر سے چیڑ کے پیڑ کی طرح ، بارہ مہینے چھلکے سے اٹھتے رہتے تھا چیڑ کا درخت تو تناور ہوتا ہے لیکن یہ شخص تو صرف مرجیوڑی شاخ جیسا تھا ایسی شاخ جو دوسری شاخوں کے نیچے رہ جاتی ہے اور روشنی اور ہوا کی کمی سے اس کی حالت ابتر رہتی ہے ۔کہنے کو تو مابلی بھی زندہ تھا لیکن زبدگی اس کے بدن سے کسی طرح پھوٹتی نہیں تھی ۔ نسل در نسل غربت اور افلاس اس کے خون سے مل چکی تھی۔ یہ شخص میندرا میں تعیناتی کے دوران میرا باوچی تھا اسکی سادگی اور خلوص مثالی تھا لیکن دیہاتی ہونے کے ناتے اسکی بیوقوفیاں بھی میرے دفتر کے ملازمین کے لئے منورنجن ہوا کرتی تھی۔
مابلی اندھیرے سے بہت ڈرتا تھا دراصل اندھیرے اور پامالیاں اس کے بدن کی کال کوٹھڑی میں رچ بس چکی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوا یوں کہ ہمارا رہائشی مکان منڈی سے دو تین فرلانگ کی دوری پر قدرے سنسان سی جگہ پر تھا شام کے وقت وہاں سے منڈی کو جو پگڈنڈی جاتی تھی اس پر چہل پہل کم ہی ہوتی تھی ایک دن میں نے مابلی کو کسی کام سے منڈی جانے کو کہا اس نے دوٹوک لفظوں میں انکار کر دیا ۔۔ نوکر کے یہ الفاظ "میں نہیں جاوں گا" مجھے بہت چبھے ۔۔۔ وفادار ملازم سے ایسے جواب کی امید نہیں تھی
میں نے سوچا اس اس کے انکار کی کوئی وجہہ ہوسکتی ہے۔۔ میرے اصرار کرنے پر اس نے کہا :
صاب جی آج" بیر وار" ہے . یعنی جمعرات۔ میں نے کہا تو کیا ہوا ؟
اس نے کہا صاب جی آپ چاہتے ہیں کہ میں مارا جاوں ۔۔۔۔
میں نے کہا وہ کیسے ؟ میں کچھ سمجھا نہیں ۔
مابلی نے کہا ۔۔"راستے میں گلی کے موڑ پر قبرستان ہے اوررر۔۔ ۔ جمعرات کواگر قبرستان سے کسی بھوت کا سایہ مجھ پر پڑ گیا تو میں مارا جاؤں گا"۔اس کے بعد اس نے چیخیں اور دھاڑیں مار کر،اپنے بال نوچنے شروع کردیے ۔۔وہ دن تھا اور یہ د ن ہے کہ مابلی کا بھوت میرا پیچھا نہیں چھوڑتا ۔