لینن انعام یافتہ کمیونسٹ اردو کے شاعر فیض احمد فیض پسماندہ طبقے کی تعلیم میں بہت سنجدہ تھے۔ کراچی کا دل " لیاری" جو شہر کراچی کی اصل بھی ہے یہاں تعلیمی سہولتیں کم ہوا کرتی تھی۔ اور حکومت بھی اس علاقے کی ترقی اور بہود کے لیے زیادہ دلچسہی نہیں لیتی تھی۔یص یہ چاہتے تھے کی لیاری کے نوجوان میں تعلیم کو فروغ دیا جائے ۔اور علم کی روشنی یہاں پہلے۔ یہ علاقہ زیادہ تر ناخواندہ اور غریب آبادی پر مشتمل تھا۔ اور لیاری اور بغداری اور کلا کوٹ کا علاقہ حرائم کی سرگرمیوں کے لیے بدنام تھا۔فیض اجمد فیض نے اس تعلیمی چلینج کو قبول کیا مگر وہ یہاں چل نہ سکے۔ اور جلدہی اس تعلیمی ادارہ چھوڈ کر چلے گئے۔ اس کے پس منطر میں کئی کہانیاں سنی۔۔۔ مگر اصل حقیقت آج تک سامنے نہیں آئی۔اس سلسلے میں انور اقبال نے اپنے ایک مضمون "لیاری کی درسگا اور فیض احمد فیض" میں لکھا ہے ۔۔"فیضؔ ایک بڑے عوامی شاعر ہی نہ تھے بلکہ سماجی طور پر تعلیم کے لیے بھی ان کی گراں قدر خدمات ہیں۔ تعلیم اور فنون لطیفہ سے فیض کو گہرا شغف تھا۔۔
سن 1964ء میں لندن سے واپسی پر آپ “عبد اللہ ہارون کالج” کراچی میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے اور 1972ء تک اسی کالج میں بطور پرنسپل تعلیمی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ فیض صاحب نے اپنے کیرئیر کا آغاز ہی برطانوی راج میں استاد کی حیثیت سے “ایم اے او کالج” امرتسر سے 1935ء میں کیا تھا۔
قیامِ پاکستان کے کچھ سال بعد فیض نے کراچی کی غریب بستی لیاری میں کالج کا سربراہ بننا کیوں پسند کیا۔۔۔؟ اس سوال کا جواب فیض صاحب نے ڈاکٹر غلام حسین اظہر کو اپنے ایک انٹرویو میں دیا تھا۔ یہ تاریخی انٹرویو ڈاکٹر طاہر تونسوی کی مرتب کردہ کتاب ’’فیض کی تخلیقی شخصیت: تنقیدی مطالعہ‘‘ میں شامل ہے۔ یہاں پر ہم مندرجہ ذیل میں اس کتاب سے ایک اقتباس نقل کر رہے رہیں؛
“آپ نے اس ادارے کی سربراہی کیوں قبول کی تھی؟
فیض صاحب کا کہنا تھا ’’جس علاقے میں حاجی عبد اﷲ ہارون نے کالج قائم کیا تھا اس میں ہائی سکول کے علاوہ تعلیم کی اور سہولتیں نہ تھیں، اس علاقے میں اکثریت غریب عوام کی ہے، ماہی گیر، گاڑی چلانے والے اور مزدور پیشہ لوگ جو بچوں کو کالج نہیں بھجوا سکتے تھے۔ یہ علاقہ بُرے لوگوں کا مرکز تھا۔ یہاں پر ہر قسم کا غیر مستحسن کاروبار کیا جاتا تھا۔ اکثر غلط راہ پر بچپن ہی سے پڑ جاتے تھے۔ یہاں عبد ﷲ ہارون نے یتیم خانہ بنوایا تھا، جو ہائی اسکول کے درجے تک پہنچ گیا تھا، باقی کچھ نہیں تھا۔ حاجی عبد ﷲ ہارون کے جانشینوں کی مصروفیات کچھ اور تھیں، صرف لیڈی نصرت ہارون کو اس ادارے سے دلچسپی تھی۔ لندن سے واپسی پر انھوں نے ہم سے فرمائش کی کہ ہم یہ کام سنبھال لیں۔ ہم نے جا کر علاقہ دیکھا، بہت ہی پس ماندہ علاقہ تھا، یہاں انٹر میڈیٹ کالج بنایا، پھر ڈگری کالج پھر ٹیکنیکل اسکول اور پھر آڈیٹوریم، کچھ رقم ہارون انڈسٹری سے خرچ کی گئی، کچھ ہم نے فراہم کی۔ ماہی گیروں کی سب سے بڑی کوآپریٹو سوسائیٹی بنی، انہوں نے ہمیں ڈائریکٹر بنا لیا، ہم نے طے کیا کہ سوسائیٹی کے اخراجات سے بچوں کو مفت تعلیم دی جائے اور بچوں کے سب اخراجات یہی ادارہ برداشت کرے، اس کالج میں طلبہ کی اکثریت کو مفت تعلیم دی جاتی تھی” { " مکالمہ، "۔ 16 فروری 2021} ۔ اس علاقے مین میں قیام پاکستاں سے پہلے اور بعد میں بھی بڑی نامورشخصیات کے نام ملتے ہیں۔ مگر کسی نے بھی اس علاقے کی تعلیم ، معیشیت، ثقافت پر سنجیدگی سے توجہ نہ دی ۔ کھیلوں میں یہاں فٹ بال اور باکسنگ کے اچھے کھلاڈی تھے۔ اور سب کو اب بھی دو پہیوں والی گدھا گاڈی کی دوڑ جو لیاری سے عبد اللہ شاہ غازی {رح} کے مزار تک ہوتی تھی۔ ضرور یاد ہوگی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...