دنیا بھر میں ہر شہر میں ادیبوں ، شاعروں ، مجسمحہ سازوں، آرٹ ، موسقیی سے تعلق رکھنے والوں اور سیاست سے تعلق رکھنے والوں کے لیے مخصوص چائے خانے اور پب ہوتے تھے جہاں وہ ادب ، فنونِ لطیفہ اور سیاسی صورتِ حال پہ گفتگو کرتے تھے ۔ یورپ میں اب اُن کافی خانوں اور پبوں کے باہر اُن مشہور ادیبوں ، شاعروں ، موسیقکاروں مجسمحہ سازوں اور سیاست دانوں کے ناموں کی تختیاں لگئی ہیں جہاں یہ لوگ بیٹھا کرتے تھے ،،
سٹاک ہولم میں ایک کنسرٹ ہال ہے جہاں نوبل انعامات تقسیم کیے جاتے ہیں اس ہال کے نیچے ایک کافی ہاؤس ہوتا تھا جہاں سویڈن کے ادیب بیٹھ کر ادب پہ گفتگو کرتے تھے ان بیٹھنے والوں میں سے کوئی نوبل انعام تو حاصل نہ سکا مگر یہاں بیٹھنے والے کئی ادیب اس نوبل کمیٹی کے ممبر بن گئے جو نوبل انعامات کا فیصلہ کرتے ہیں، سٹاک ہولم کے محلہ gamla stan ( اولڈ ٹاون ) کے آخر پہ ایک پب تھا جو سمندر کے کنارے پہ تھا جو بالٹک سی کہلاتا ہے اور جہاں سے بحری جہاز دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں اس پب میں بیٹھنے والے ادیبوں میں سویڈن کا مشہور ادیب EVERT TAUBE تھا جو یہاں کا مسقل نشستی تھا ایک دن وہ پب میں بیٹھے دوستوں کے لیے کھانے کی کچھ اشیا لینے کے لیے باہر گیا تو اُسے ساتھ والی گلی میں فن لینڈ کی کچھ خوبرو لڑکیاں مل گئیں جن کے ساتھ وہ جہاز میں بیٹھ کر فن لینڈ چلا گیا ، EVERT ساری زندگی ایسا ہی کرتا رہا کہ اچانک محفل سے اُٹھتا اور سال دو سال کے لیے غائیب ہو جاتا پتہ چلتا وہ سپین ، اٹلی یا افریکہ چلا گیا تھا اس دفعہ بھی وہ ان لڑکیوں کے ساتھ فن لینڈ چلا گیا اور جب ایک سال بعد ہاتھ میں کھانا لیے پب میں داخل ہوا تو اُس کے سارے دوست وہیں بیٹھے تھے ، اور سب نےبغیر سوال کیے بئیر کے گلاس آپس میں ٹکرائے اور کھانا کھانے لگ گئے اس واقعہ سے مجھے لائیل پور کا محفل ہوٹل یاد آگیا جہاں بیٹھنے والے دوستوں میں سے ایک اُٹھ کر یورپ میں رہائیش پذیر ہوگیا چھ سات سال بعد جب وہ محفل ہوٹل میں آیا تو اُس نے دیکھا جن دوستوں کو وہ چھوڑ کر گیا تھا وہ سب وہیں بیٹھے ہیں اُس نے کہا ،، یارو میں یورپ سے بھی ہو کر آگیا ہوں ، یہاں وہی لوگ بیٹھے ہیں جن کو میں چھوٹ کر گیا تھا ،، اقبال نوید نے کہا ،، تم لوگوں کی بات کرتے ہو غسلخانحے میں جا کر دیکھو وہ تولیہ ابھی تک وہیں لٹکا ہے جیسے تم چھ ساتھ سال پہلے چھوڑ کر گئے تھے ،، سویڈیش حکومت نے EVERT TAUBE کا مجسمحہ اس پب کے باہر نصب کیا ہے ، اسی طرح اگر آپ ساٹک ہولم کے ریلوے سٹیشن کے باہر ائیں تو چرج کے ساتھKAFFE REPPET ہے یہ کافی ہاؤس 1940 سے آباد ہے ، یہاں سویڈن کا ایک بہت بڑا شاعر NILS FIRLIN بیٹھا کرتا تھا وہ صبح دس گیارہ بجے آکر اس کافی ہاؤس میں بیٹھ جاتا اور رات دس بجے تک بیٹھا رہتا ، اس نے اپنی ساری شاعری تقریبأ یہیں کئی ہے حکومت نے اُس چوک کا نام NILS FIRLIN TORIGT ( نیلس فیرلین چوک ) رکھ دیا ہے اور اس کافی ہاؤس کے باہراس کا سگریٹ پیتے مجسمحہ نصب کیا ہوا ہے ، اس شاعر کے شکل ہمارے محمد علی جناح سے بہت ملتی ہے اسی لیے اکثر پاکستانی ملاقات کے لیے کہتے ہیں ،، یار بابے دے کافی ہاؤس آجائیں ۔ اب دنیا تبدیل ہو چُکی ہے مہنگائی نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے لہذا اب یہ کافی ہاؤس ان ادیبوں ، سیاست دانوں کا بوجھ برداشت نہیں کر پا رہے مگر حکومت نے ان لوگوں کے لیے ہر شہر میں مخصوص کافی ہاؤس اور پب کھول رکھے ہیں اور اس کے اخراجات حکومت برداشت کرتی ہے اور یہاں ان لوگوں کو بازار سے پچاس فیصد کم قیمت پہ کافی ، کھانا اور بئیر مل جاتی ہے
پاکستان میں بھی دوسرے مُلکوں کی طرح ہر شہر میں ایسے ہی چائےخانے تھے ، جہاں اب پلازہ ، ٹکا بوٹی یا موبائیل فونوں کی دوکانئیں ہیں اور لائیل پور کے ادیب اپنے اجلاس فُٹ پاتھ پہ کرنے کے لیے مجبور ہو گئے تھے ، آُ پ جنگ بازار سے شہر میں داخل ہوں تو ،، کیفے دیوان ،، آتا تھا ۔ یہاں صرف انڈین فلموں کے گیت لگتے تھے ، ایک کپ چائے کے ساتھ آپ پرچی پہ لکھ کے دو گانوں کی فرمائیش بھی کر سکتے تھے ، یہاں آپ کو صرف اینڈین فلموں کے گیت ہی نہیں اُن فلموں میں کام کرنے والوں کے کرداروں سے بھی ملاقات ہو جاتی تھی ، کوئی چائے سامنے رکھے ، انگلیوں میں سگریٹ دبائے دلیپ کمار بنا بیٹھا نظر آتا تھا کوئی دیو آند ، کوئی ششی کپور اور کوئی راج کپور ، بعض تو بلیڈ ساتھ لے کر آتے اور میزوں پہ اپنی محبوباؤں کے نام لکھ دیتے یا دل بنا کر اس میں تیر چلا دیتے ، میں اور فضل حسین راہی دور بیٹھے ان پہ جملے کستے رہتے ، ایک دن راہی کے گھر بیٹھے تھے کہ ایک شخص انڈین فلموں کی بہت تعریف کر رہا تھا ،، راہی نے کہا ،، ان دو چار ادا کاروں سے تو میں تمہیں آج ہی ملا سکتا ہوں ، بس کسی ہوٹل مین کھانے چائے اور گولڈ لیف سگریٹ کا انتظام کر لو ،، اس شخص نے ہمیں محفل ہوٹل میں کھانا کھلایا اور ہم کیفے دیوان میں آکر بیٹھ گئے چائے اور گولڈ لیف کا پیکٹ آگیا ، تو اُس شخص نے کہا ،، راہی جی کب ان اداکاروں سے ملاو گئے ،، راہی نے کہا ،، وہ دیکھو وہ سگریٹ پیتا آدمی تم کو دلیپ کمار نہیں لگتا ، وہ دیکھو ششی کپور بیٹھا ہے ،، وہ شخص ماتھے پہ یاتھ مارتا رہ گیا ،، کیفے دیوان کے آگئے کیفے لطیف ہے یہاں بھی چائے کے ساتھ گیتوں کی فرمائیش کی جاتی ہے مگر یہاں آپ کی ملاقات انڈین اداکاروں سے نہیں پاکستانی اداکاروں سے ہوتی ہے ، کوئی ،، چکوری،، کا ندیم ہے ،، کوئی ،، ارمان ،، کا وحید مراد ہے اور کوئی ،، آگ کا دریا ،، کا محمد علی بن کر بیٹھا ہے ، اس کیفے کی اہم شخصیت اس کیفے میں کام کرنے والا ،،عبداللہ ،، ہے جو صاف ستھرے لباس پہنے کلین شیو کیے ہر وقت مُسکراتا خوش اخلاقی سے بات کرتا ملے گا ، اس کے آگئے ،، کیفے تسکین ،، ہے یہاں آپ گھر سے لائے ریکارڈ بھی لا کر سُن سکتے ہیں ، اسی لیے رفیق پاشا کا دوست شہزادہ جو شاعر اور گلوکار بھی تھا وہ اپنی آواز میں اپنی شاعری کے ریکارڈ کیے گیت سارا دن لگواتا ریتا وہ سمجھتا تھا وہ اس طرح اپنی مارکیٹ بنا رہا ہے ، کیفے تسکین کے سامنے بسم اللہ ہوٹل تھا جہاں ہمیں بہت سستا کھانا مل جاتا تھا میں اور خالد جیلانی ایک پلیٹ دال اور دو روٹیاں لیتے مگر ساتھ دی ہوئی چٹھنی کے ساتھ چار روٹیاں اور منگوا کر کھا لیتے اور ہو ٹل کا مالک ہمیں دیکھ کر ہنستا رہتا ، گھنٹہ گھر کے پاس ،، ارم ،، ہوٹل بھی تھا جس میں بہت عرصے تک ہمارا ڈیرہ رہا ،،
کچیری بازار کی ایک گلی میں تین چار چائے خانے تھے ، خُدا بخش کا چائے خانہ تھا یہ شہر کی بائیں بازو کی سیاست کرنے والوں کا مشہور چائے خانہ تھا ، یہاں آپ کارل مارکس ، لینن ، ہٹلر کی فا شیزم ، ٹراسکی امریکی سامراج ، پاکستان میں آمریت سگرٹوں کے دھوائیں میں بھی صاف دیکھائی دے سکتے ہیں، اگر کوئی امریکی سامراج کو دنیا کی تباہی کا ذمہ دار گردان رہا ہے تو ساتھ بیٹھا ماؤ نواز اس کی ساری ذمہ داری روسی سامراج پہ ڈال رہا ہے ، شہر میں ایسی کون سی سیاسی تحریک ہے جس کا پروگرام یہاں ترتیب نہیں دیا گیا ۔، کوئی خفیہ پروگرام بناتے آوازوں کو آہستہ کر لیا جاتا مگر صاحب آوازوں کو کون دبا سکتا لہذا وہ سارا پروگرام ساتھ والی میز پہ چائے پی رہا ہوتا ، ، حزیں لدھیانوی ۔ شاہ بھائی ، عزیز احمد پروفیسر قیوم ، لطیف دادا ، سلیم بھٹہ ۔ ، میاں محمود ، سیف خالد ، خالد جیلانی ۔ غلام نبی کلو یہاں کے مستقل نشستی تھے ۔ ساتھ ہی مشتاق کا ہوٹل ہے اس کا تعلق ۔۔ خا کسار تحریک سے ہے علامہ مشرقی اور کارکنوں کی بیلچے سمیٹ پریڈ کرتے ہوئے تصویریں دیواروں پہ چسپاں ہیں سامنے ،، جھنڈے دا ہوٹل ،، ہے یہ جماعت اسلامی اور شہر کی دائیں بازو کی سیاست سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا مشہور چائے خانہ ہے ، یہاں گالی کا مطلب صرف اور صرف کیمو نزم اور روسی سامراج ہے ، بعض دفعہ ،، خدا بخش چائے خانے اور جھنڈے چائے خانے کے نشستی اپنے اپنے چائے خانوں میں بیٹھے ایک دوسرے کے ساتھ روس امریکہ کی جنگ میں شامل ہو جاتے ، مشتاق ہوٹل کے ساتھ سردار کا چائے خانہ ہے اس کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے ، یہ ہوٹل اس گلی کی ،، شا ہ رگ ،، ہے جیسے کشمیر پاکستاں کی ،، شا ہ رگ ،،سمجھا جاتا ہے ، لیجیے جناب یہ الجاوید ہوٹل ہے یہاں ہر میز پہ جاوید انور اور وحید احمد کی نظمیں با جماعت پڑھی جا رہی ہیں ، اگر افتخار فیصل کامو کو چائے پلا رہا ہے تو پروفیسر قیوم اور اشفاق بخاری سارتر کے ہاتھ میں لینن اور کارل مارکس کی تصویریں لیے بیٹھے ہیں ، ادریس امریکی جھنڈے پہ لگے ستاروں کو الگ الگ ہوتا دیکھا رھا ہے ایک میز پہ میرا جی اور ن میم راشد میں لڑائی ہو رہی ہے کہ پاکستان میں آزاد نظم کا بانی کون ہے ، سجاد ظہیر ان کو اپنی نثری نظمیں دیکھاتے ان دونوں کا پول کھول رہے ہیں ۔ لو اُس میز پہ وجودیت کی لڑائی ہو گئی ڈاکڑ سجاد بھی علامتی افسانہ لیے اس میں کود پڑھے ۔ افضل احسن رندھاوا ، اپنی ،، رن تلوار تے گھوڑا ،، لے کر لڑائی میں صلح کرانے کی کوشش کر رہے ہیں ، ان سب جھگڑوں سے دور عالم خان ، قرہ التعن حیدر کا کا گوتم بن رہا ہے مگر نسیم عادل شنکر بن کر سامنے آگیا ہے ۔ عالم خان دو طریقے سے چائے کا آرڈر کرتا تھا ، جس دن اُس کے پاس پیسے ہوتے وہ میز پہ زور سے ہاتھ مارتا ،، چاچا غلام رسول آتا تو عالم خان کہتا ،، جناب یہ پھنکے تو چلائیں اور یہ پردے بھی کبھی اس صدی میں تبدیل کرا لیں ہم یہاں چائے کے پیسے دیتے ہیں ہم کوئی مہاجر کیمپ میں تقسیم ہوئی چائے نہیں پینے آتے ،، اور جس دن پیسے نہیں ہوتے تھے وہ آہستہ سے کہتا ،، چا چا جی کیا حال ہے بچے خیر خریت سے ہیں چاچا جی ہاف سیٹ چائے تو لا دیں چاچا جی مہربانی ایک کپ فالتو ،، فالتو کپ تو مل جاتا مگر کچھ مایر کاریگر دو کپ کی چائے کے چار کپ بھی بنا لیتے یعنی جس برتن مین دودھ آتا تھا اس میں بھی تھوڑا سا قہواہ ڈال کر چائے بنا لی جاتی اصل میں مقصد چائے پینا نہیں تھا بیٹھنا ہوتا تھا ویسی بھی آدھے آدھے کپ پیتے ہوئے بھی دن میں دس پندرہ کپ پی جاتے ، ہمارا ایک دوست تھا جو دن مین کوئی تیس چالیس کپ چائے پی جاتا تھا اُس کی شادی ہو گئی اور وہ شادی کے بعد چار پانچ دن شہر میں نہ آیا ،، کسی نے کہا اُس کی خبر لو کیا بنا وہ شہر میں آتا کیوں نہیں ،، میں نے کہا اصل میں وہ سہاگ رات جب کمرے میں گیا اور شرعی کام سے فارغ ہوا تو نئی نویلی بیوی نے کہا ،، ہائے ہائے یہ کیا چائے ہے نہ اس میں چینی پوری ہے نہ دودھ پورا ہے نہ ہی قہواہ پورا ہے ، ابھی قہقہہ جاری ہی تھا کہ وہ دوست ہوٹل میں داخل ہو گیا ،،
ان ہوٹلوں اور چائے خانوں میں مستقل بیٹنھے والوں کو جتنا ان ہوٹلوں اور چائے خانوں میں کام کرنے والے جانتے تھے اتنا شاید انھے ان کے گھر والے بھی نہ جانتے ہوں ۔ کیونکہ چوبیس گھنٹوں میں سے پندرہ سولہ گھنٹے ہم یہیں گُزارتے تھے ۔ اگر کوئی دوسرے شہر سے ملنے آتا تو وہ ہمارے گھروں میں آنے کی بجائے یہیں آتا کہ شاید ہمارے گھر والوں کو بھی علم ہو نہ ہو کہ ہم کہاں ہیں مگر ان کام کرنے والوں کو پتہ ہوتا تھا کہ ہم کب آئیں گئے ، اور اگر ہم یہاں نہیں ہیں تو اس وقت کس دوسرے چائے خانے میں ہوں گئے ۔ یہ کام کرنے والے ہر ایک کے بارے مکمل معلومات رکھتے تھے ۔ کون مہینے میں کتنی بار چائے کا بل ادا کرتا ہے ، کون مستقل بل ادا کرنے والوں میں سے ہے اور کون مستقل ہر میز کا مہمان ہے ۔ ایک دو سے اُدھار بھی چلتا تھا ، عجب دور تھا صبح صبح چل پڑتے تھے ،،گھٹھریاں اُٹھا کر ایمانوں کی ،،۔ جیب میں دھیلا نہیں ہوتا تھا ، مگر سارا دن چائے بھی چلتی رہتی اور سگریٹ بھی ، روٹی کھانے کا ان دنوں اتنا رواج نہیں تھا ۔ عالم خان کا ایک جملہ ، بہت مشہور تھا ،، جب کوئی کھانے کا پوچھتا تو عالم خان کہتا ،، کھانا تو دو تین دن پہلے کھایا ہے آپ چائے منگوا لیں ،، ایک دفعہ لاہور سے تین چار دوست ملنے آگئے ، اور آنے والے مہمانوں میں سے ایک نے دوسری بار چائے پیتے کہا ،، یار کھانا نہ کھا لیں ، اب میں جیب کا بجٹ چائے پہ خرچ کرے کے بجٹ کا سال مکمل کر چُکا تھا ، بہر حال میں نے ، الجاوید میں کام کرنے والے ،، چاچا غلام رسول جی کو ایک طرف لے جا کر صورتِ حال بتائی (کیونکہ ہم اُس کی میز پہ نہیں بیٹھے تھے ، ہر کام کرنے والے کی الگ الگ میز ہوتی ہے ) چاچا جی نے مجھے تیس روپے دیے ،،کھانا کھا کر جب میں بل ادا کرنے لگا تو آئے مہمانوں میں سے ایک نے کہا ،، نہیں نہیں بل میں دیتا ہوں ،،، میں نے کہا ،، یار اگر بل تم نے ہی دینا تھا، پھر میں تو جی بھر کے کھاتا ، میں نے تو اس لیے کم کھایا کہ جتنی بچت کر سکتا ہوں کروں ،، چا چا جی سے لیے پیسے میں نے واپس کیے اور نیچے اُتر آئے ، الجاوید کے ہی نیچے ایک ،، مون لائیٹ ،، چائے خانہ تھا یہ علی شوکت خواجہ کے دوست ریاض احمد خان کا تھا ، جب علی شوکت امریکہ چلا گیا پھر ریاض خان بھی نظر نہیں آیا ، بعض دفعہ کوئی کسی کے ساتھ ہی ملتا ہے جب مرکزی کردار غائیب ہوا تو ساتھ ملنے والا بھی غائیب ہو جاتا ہے ، مقبول احمد خان ، محبوب احمد خان ، اسلم ، زاید خان ، شوکت خواجہ ،ایک دور میں یہاں کے مستقل نشستی ہوتے تھے ، راض خان دن کے وقت کام کرتا تھا شام کو اُس کا بھائی آکر چائے خانہ سنبھال لیتا تو ، ریاض خان کہتا ،، چلو یار کسی اور جگہ پہ اچھی سی چائے پیتے ہیں ،، اسی بازار میں ایک گرینڈ ہوٹل تھا ، میں یہاں کم بیٹھا مگر یاروں کی یہاں خوب محفلیں جمیں ، اگر آپ ضلح کونسل کی طرف سے کچیری بازار میں داخل ہوں اور سڑک کے بائیں فُٹ پاتھ پہ چلتے آئیں تو بائیں جانب ایک گلی نکلتی تھی جو شہر کی جامع مسجد کو جاتی تھی ، مگر اُس سے پہلے ہی دائین جانب سڑھیاں تھی لو جی آپ ہوٹل شیراز میں آگئے ہیں ، مسعود مختار اور اقبال نوید کی تنظیم ،، پاک ثقافتی انجمن ، کے اجلاس یہیں ہوتے تھے ،، پاکستان پیپلز پارٹی کے رانا مختار نے یہیں پریس کانفرنس کر کے پارٹی سے علیحد گئی کا اعلان کیا تھا اور برسرِ اقتدار آنے کے بعد یہ پیلپز پاڑٹی کے کسی پہلے رہنما کی پارٹی سے علیحدگئی تھی ، نہ تو پاک ثقافتی تنظیم زیادہ دیر چلی اور نہ ہوٹل شیراز زیادہ دیر ، چلا ۔ مگر اس سے پہلے اسی بازار میں ایک کاسموس بھی تو ہوتا تھا یہ کیسے بنا اس کی کہانی الیاس اسد نے بتائی ہے وہ کبھی پھر سہی یہاں دوسرے ہوٹلوں سے بہت زیادہ مہنگی چائے ملیتی تھی یہاں کامریڈ ناہید نواز بیٹھے تھے مگر پھر اس میں کام کرنے والی ایک لڑکی کو اغوا کر لیا گیا اور بعد میں اُس کا قتل ہوگیا اور یہ کاسمسوس اپنے اختتام کو پینچا ،گھمٹہ گھر ( جہاں پہلے مٹھے پانی کا کنواں ہوتا تھا ) کے قریب الخٰیام تھا یہاں ایک دور میں فلم ڈارمہ سے تعلق رکھنے والےمشتاق ساتھی ، اعجاز ناصر ، طارق جاوید ، الیاس اسد ، احمد دین بھٹی ، کامریڈ سردار ، طارق ویرا ، راشد اقبال اور انجم ضیا بیٹھتے تھے ، انجم نے ضیا الحق سے نفرت کا اظیار دیکھانے کے لیے اپنے نام کے ساتھ ضیا کا خاتمہ کر دیا تھا ۔ یہٓاں فیملی کے بیٹھنے کے لیے کیبن بھی بنے تھے جس پہ غلیظ پردے لٹکے رہتے ، اگر کوئی منچلا کسی منچلی کو ساتھ لیے اس کیبن میں بیٹھ جاتا تو ہوٹل میں کام کرنے والا ہر دس منٹ بعد جا کر ضرور پوچھتا کہ ،، کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ،، اصل میں وہ دیکھنے جا تا تھا ، کوئی منچلی تو نہیں ہو رہی ، اسی امین پور بازار میں ہوٹل کلفٹں ( جہاز بلڈنگ ) تھا اس ہوٹل کا میری زندگی میں بہت کردار ہے ، میرا بڑا بھائی سویڈن میں رہائیش پذیر تھا بھائی نے مجھے دو تین دفعہ سویڈن کے لیے سپانسر کیا مگر ، بڑھے ہوئےانقلابی ساتھوں کے گروپ میں مصروفیت کی بنا پہ میں نے اس سپانسر کو اہمیت نہ دی ،، تو ایک دن میری اماں جان فضل حسین راہی کے پاس گئیں اور راہی کو کہا ،، اگر مسعود پاکستان میں رہا تو یہ ہوٹلوں اور جیل خانوں میں زندگی پوری کر لے گا اور اس کے بیوی بچے رُل جائیں گے ، بس راہی ہر وقت مجھے پاکستان بدری کے احکامات دیتا رہتا اور میں اُسے پاکستان میں آنے والے انقلاب میں اپنے کردار کی اہمیت جتاتا رہتا ، اُخر جب میرے تمام دلائیل ختم ہو گئے تو ایک دن میں نے راہی کو کہا ،، یار تم عجیب بات کرتے ہو میرے پاس گھر سے شہر اور شہر سے گھر جانے کو پیسے نہیں ہوتے اور تم مجھے سویڈن کا کہہ رہے ہو ،، بس پھر کیا تھا لوڈو اور فلاش کی ہر بازی سے میری ٹکٹ کے لیے ، دس ، دس ، بیس بیس اور پچاس پچاس ، الگ کیے جانے لگے اور کوئی دو مہینے بعد مجھے پانچ پزار کا ٹکٹ اور پانچ ہزار کے ڈالر تمھا کر سویڈن روانہ کر دیا ، اگر آج میں جو سویڈن میں بیٹھا ہوں تو اس میں اس کلفٹن ہوٹل اور فضل حسین راہی کا ہاتھ ہے ،
دھوبی گھاٹ کے سامنے ایک ریز ہوٹل تھا صاف سُتھرائی اور اعلی قسم کی چائے میں اس کا جواب نہیں تھا
چنیوٹ بازار میں جانے سے پہلے ایک اور ہوٹل کا حوال بھی سُنتے جائیں یہ ،، گلستان ہوٹل ،، تھا جو سٹنڈڈ چارٹر بنک کے سامنے تھا ، یہاں شہر کی دائیں اور بائیں بازو کی وہ کلاس بیٹھتی تھی جو ذرا پیسوں والی تھی ، دوسری اس ہوٹل کی اہم بات یہاں پاکستانی اور انگلش شراب کا ٹھیکہ تھا ، جس سے دونوں گروپ مستفیذ ہوتے تھے ، اگر کبھی شہر میں احتجاج کے دوران پتھراؤ ہوتا تو یہ واحد ہوٹل ہوتا جس پہ پتھراو نہیں ہوتا تھا ، اس کے مالک میاں ہوسف بڑے وضع دار طبیعت کے مالک تھے ، شہر کے دائیں اور با ئیں بازو کی سیاست کرنے والے دونوں راہنماؤں سے بنا کر رکھتے تھے ، مجھے یاد ہے ایک دفعہ نیشنل عوامی پارٹی کے صدر ولی خان لائیل پور تشریف لائے سیف خالد جی کے گھر نشست تھی ، میاں یوسف بیٹھے تھے ، میاں ہوسف جی نے مُسکراتے ہوئے ولی خان جی سے کہا ،، خان صاحب ہمیں بھی اپنی پارٹی میں شامل کر لیں ، ولی خان جی نے جواب دیا ،، صاحب اس سلسلے میں آپ پارٹی کی مقامی تنظیم سے رابطہ کریں ، ہائے نہ رہیں یہ سیاست کی وضح داریاں اب ، اب تو کوئی بھی اُٹھتا ہے پارٹی کے سربراہ سے ملتا ہے اور پارٹی میں شامل ہو جاتا ہے ، اور کوئی بڑا عہدہ لے لیتا ہے ، چایے شہر کی مقامی تنظیم اُس شخص کو جانتی بھی نہ ہو ، ویسے مجھے لگتا ہے ولی خان جی نے میاں یوسف کو ایک بڑے امتحان سے بچا لیا ، اگر ولی خان جی کہہ دیتے جی جی کیوں نہیں ابھی شامل ہو جائیں تو میاں یوسف امتحان میں پڑھ جاتے ، کیونکہ انھوں نے تو از راہِ مذاق میں کہا تھا ،، میاں یوسف کی وفات کے بعد اس ہوٹل کا انتظام اُنکے بیٹے شاہد ہوسف نے سھنبالا بعد میں شاہد کمرے میں جھلس کر راکھ ہو گئے اور اس ہوٹل کا بھی خاتمہ ہو گیا ،،خیر یہ بڑے لوگ تھے ان کی بڑی باتیں تھیں ہم چلتے ہیں چھوڑے چائے خانوں میں سے شہر کے سب سے پرانا چائے خانہ ،، عالم کافی ہاؤس ،، ،، میری امی جان کبھی کبھی مجھے سے پوچھتی ،، جہاں تم لوگ بیٹھتے ہو وہ کبھئ بند نہیں ہوتا ،، میں کہتا امی جی اُسکے تو دروازے ہی نہیں ہیں ،، میں نے دنیا کا یہ واحد چائے خانہ دیکھا ہے جس کے دروازے ہی نہیں ہیں چوبیس گھنٹے کھولا رہتا تھا ۔ اس کے مالک بابا عالم کا تعلق احرار جماعت سے تھا ، شہر کا کون کون سیاسی کارکن ، ادبب اور فنکار تھا جو یہاں نہیں بیٹھتا تھا ، اور کس کس کا یہاں اُدھار کا کھاتا نہیں تھا ، مگر بابا عالم جی نے کبھی کسی سے پیسوں کا تقاضا نہیں کیا تھا کبھی کبھی جب ہنسی مذاق شروع ہوتا تو بابا عالم جی پرانا رجسڑڈ کھولتے اور دیکھاتے جو سالوں پرانے حساب پہ مشتمل ہوتا بعض دفعہ قرض دار بھی سامنے بیٹھا ہوتا ، پُرانا حساب سن کر قرضدار کے ساتھ سب ہنس پڑتے اور قرض کی نئی چائے آجاتی ، پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر شمیم احمد خان ، ( جو اب ہم میں نہیں رہے ) میاں اقبال ، اقبال کاسترو ، ، میرزا جانباز ، سب یہں بیٹھتے ، میرزا جانباز پرانے احراری تھے پاکستان بننے سے پہلے سے عطا اللہ شاہ بخاری جی کے ساتھ تھے وہ شاعر صحافی اور اداکار بھی تھے سمن آباد میں جس گلی میں یم رہتے تھے وہیں وہ رہتے تھے والد صاحب کے بہت دوست تھے میں اُن کو تایا جی کہتا تھا بعد میں وہ لاہور جا بسے مگر جب لائیل پور آتے عالم کافی ہاأس ضرور آتے ، ایک میز ہہ اگر طالب جالندری ،، تیرے باجرے دی راکھی اڑیا میں ناں بھندی وے ،،یا پھر سرخ سویرا آئے گا ،،سُنا رہے ہوتے تو دوسری میز پہ لاہور سے آئے مشیر کاظمی علامہ اقبال کے مزار پہ لکھی نظم سُنا رہے ہوتے ۔ پہلے کارکن یہاں سے چائے پی کر جلسوں جلوسوں میں جاتے اور وہاں سے واپس اسی چائے خانے میں بیٹھ کر جلوس اور جلسہ کی روداد سُنا رہے ہوتے ، مخالف سے بحث کرتے کرتے کبھی کبھی کپ پرچ زمین پہ بھی مار دی جاتی مگر نئی چائے آنے پہ سب سے پہلے مخالف کو ہی دی جاتی ، عالم کافی ہاؤس کی آخری منزل پہ کبھی کبھی مشتاق ساتھی اور اعجاز ناصر ڈراموں کی تیاری اور اداکاروں کو ڈائیلاگ بھی یاد کر رہے ہوتے ،
اگر یہاں بیٹھے بیٹھے دوست اُکتا جاتے تو دس قدم پہ ،، محفل ہوٹل ،، تھا اس کے مالک اقبال فیروز ایک زمانہ مین سیارہ ڈایجسٹ کے اٰڈیڑ تھے ، اگر ہوٹل کا مالک ادیب بھی ہو تو شہر کے ادیبوں کے لیے ایسے ہی تھا جیسے ،، چوپڑیاں اور دو دو ،، بس شہر کے سارے ادیبوں کی یہ پسندیدہ جگہ بن جاتی ، اس ہوٹل میں کام کرنے والوں میں سے ایک مجید تھا جو بہت خُشک طبیعت کا تھا ، یہاں حلقہ ارباب ِ ذوق کے ہفتہ وار اجلاس ہوتے تھے جب حلقہ کے اراکین جمعہ کو ہوٹل میں داخل ہوتے تو مجید آواز لگاتا ،، حلقہ والے آگئے ہیں پانچ سیر برف منگوا لو ،، اگر اُس سے پانی کا کہا جاتا تو وہ ایسے غائیب ہوتا جیسے پانی دریا، فرات سے لینے گیا ہے ، مسلم لیگی زاہد سرفراز بھی یہاں کے مستقل نشستی تھے ، پیلز پارٹی کے میاں اقبال اور زاہد سرفراز کی جملے بازیاں گھونجتی ریتیں۔ ریاض مجید ، انور محمود خالد ، ظہیر پراچہ، اسلم طارق ، شفقت سیھٹی ، ارشد جاوید ، افتخار فیصل جاوید انور مسعود مختار اقبال نوید ، احسن زیدی ، حلقہ کے اجلاسوں میں مستقل شرکت کرنے والوں میں سے تھے ۔
آج کے دورمیں ادیبوں فنکاروں کا جو آخری ٹھکانہ تھا وہ ،، تھری سٹار ہوٹل تھا ،، رائیل ہوٹل سے تھری سٹار میں تبدیلی میرے سیویڈن جانے کے بعد ہوئی ، اس میں یہاں پہلے ایک پوسٹ آفس تھا یہ جگہ چویدری سرور کی ملکیت تھی ، یہ سارے کا سارا خاندان انگلینڈ میں رہتا تھا ستر کی دہائی میں جب یہ خاندان واپس پاکستان آیا اور چویدری سرور نے عمارت کو گرا کر یہاں ایک ڈیپارٹمنٹ سٹور اور رائیل ہوٹل کھولا ، مگر وہ چل نہ سکا ، ڈیپارٹمنٹ سٹور بند کر دیا گیا نیچے ماکیٹ بنا دی گئی اور ہوٹل کا نام ،، تھری سٹار ،، ہوٹل رکھ دیا ، جس کو ہمارے دوست بشارت ملک اور میاں واصف نے ٹھیکے پہ لے لیا ، میں جب بھی سویڈن سے پاکستان آتا تو میرا ٹھکانہ تھری سٹار ہی ہوتا ، بشارت ملک جی تو لاہور جا بسے ، پھر میاں واصف ہی اس کے مالک بن گئے ، اس کو آباد کرنے مین فضل حسین راہی کا بہت عمل دخل تھا ، وہ صبح ہی آکر بیٹھ جاتا اور رات گئے تک یہاں بیٹھا ریتا ، ہر کوئی شہر چل پڑتا کہ اور کوئی نہ ملا تو راہی تو ہو گا ہی ، ویسے بھی شہر کے دوسرے سارے ہوٹل اور چا ئے خانے بند ہو چکے تھے یہ واحد جگہ تھی جو شہر کے ادیبوں فنکاروں کے لیے جگہ تھی اُپر سے میاں واصف کی دوستوں سے محبت ، سارا دن راہی ، قیوم ناصر شاہد اشرف مقصود وفا میاں اقبال اختر راشد اقبال ارشد جاوید ، گلزار پاویل ، انجم سلیمی سید رضامحمود اور دوسرے دوست حال میں بیٹھے چائے پیتے ریتے اور شام کو چھت پہ چارپائیاں لگا دی جاتیں ، کیونکہ رات شروع ہوتے ہی چائے کے کپ اُلٹا دئیے جاتے اور گلاس سیدھے کر لیے جاتے لہذا یہ کام ہوٹل کی چھت پہ ہی ہوسکتا تھا ۔۔ یہ کام ہو اور فضل حسین راہی نہ لڑے ۔۔ ہو ہی نہیں سکتا ۔۔ کبھی مشروب کم انے پہ ؒلڑائی کرتا اور کبھی زیادہ انے پہ ۔ مگر وہ تھا تو یہ محفلیں تھیں
ایک دھوپ تھی جو اس کے ساتھ گئی
وہ سب دوستوں کا کورس میں گانے گانا ۔۔ ہر گانے کا ایک وقت مقرر تھا اگر کوئی کسی گانے کو وقت سے پہلے گا دیتا تو رہی کہتا
او ہلو یہ گانا گیارہ بجے کے بعد گانا ہے
سبکچھ نہ کچھ حصہ ڈالتے تھے اور کچھ نہیں تو کوئی دو تین سگریٹ کے پیکٹ لے اتا سب سے زیادہ وہ تنگ کرتے جو مشروب میں تو ہمارے ساتھ شامل نہ ہوتے مگر روٹی انے کے انتظار میں رہتے اور ہمیں کیتے رہتے ، جلدی جلدی کرو یار اور روٹی منگواو ۔۔ ایک دفعہ سب حصہ ڈال رہے تھے جب راہی کی باری آئی تو ایک منت کی خاموشی چھا گی تو ظفر نے کہا راہی صاحب اپ گلزار پاویل سے ادھار لے لیں ساری چھت قہقہ سے گونج گئی ، انھی دنوں ایک آدمی لاہور سے اس ہوٹل میں آکر ٹھہرا اور اس نے بتایا وہ بھی شاعر ہے اس کے پاس مختلف رنگوں کی کاپیاں تھیں جس پہ اس کی شاعری لکھی ہوتی تھی وہ جب کچھ سنا نے لگتا تو ریاض مجید اسے کہتا وہ پیلی کاپی سے کچھ سنائین اگر وہ پیلی کاپی سے سنانے لگتا تو ریاض مجید اسے کہتا وہ نیلی کاپی سے سنائیں ، ایک رات وہ چھت پہ اگیا اس نے شاعری سنانا شروع کی تو راہی نے کہا اج ہم ساری رات تمہاری شاعر سنیں گے پہلے کڑاھی گوشت اور ناشتے کے پیسے جمع کراو اس بچارے نے وہ پیسے بھی جمع کرا دئیے ، مگر شاعری پھر بھی ساری رات نہ سنا سکا
ایک دفعہ میرے سویڈن سے آنے پہ حلقہ اربابِ ذوق کا ایک ہنگامہ خیز انتخاب بھی ہوا ، انتخاب میں حصہ لینے والے دونوں گروپوں نے جب ہوٹل میں انتخابی بینر لگائے تو میں نے کہا ، اُمید وار اپنا اپنا انتخابی نشان بھی لگائین کیونکہ بعض ادیب ،،، ان پڑھ ،، بھی ہیں
ستر کی دہائی مین ہماری معاشی حالت کیا تھی اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے لگا لیں ،، دسمبر کی ایک انتہائی سرد رات تھی کوئی آٹھ ، نو بجے کا وقت تھا ، ہم دو تین دوست الجاوید ہوٹل کے نیچے کھڑے تھے ، ایک بزرگ ہمارے پاس سے گُزرتے گُزرتے رکھے اور کہا ،، پُترو کجھ اللہ دے ناں دا دو ،، ہم چُپ رہے ، جب بزرگ نے دوبارہ سوال کیا تو میں نے کہا ،، بزرگو ساڈے کول جے پیسے ہوندے تے اسیں اُتے ہوٹل چ جا کے چاء ناں پی رہے ہوندے ،، بزرگ نے ہماری طرف دیکھا ،،، کچھ دیر بعد بزرگ نے کہا ،، پُترو کنے دی چاء آندی اے ،، میں نے کہا ،، بزرگو تین روپے دی ،، بزرگ نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور ریزگاری کی صورت مین ہمیں چار روپے دیے ،، جس کی ہم نے اُپر جا کر چائے پی ،، کچھ دنوں بعد وہ بابا ہمیں نظر آیا تو ہم نے اُس کو دس روپے دے دیے ،، پھر جب بھی ہمارے پاس پیسے نہ ہوتے ہم دوست آپس میں کہتے ،، یار بابے نوں لھبو ،،
نوٹ ،، میں کوشش کر رہاہوں لائیل پور میں سٹیج ڈرامے کرنے اور کرانے والوں اور لائیل پور میں مزدور تحریک کے بارے بھی لکھ سکوں دیکھیں کامیاب ہوتا ہوں یا نہیں
https://www.facebook.com/masood.qamar/posts/10154668061588390
https://www.facebook.com/masood.qamar/posts/10154669242518390
https://www.facebook.com/masood.qamar/posts/10154673642898390
“