اس وقت ہمارا بھیجا گیا خلائی جہاز ووئجر نامعلوم منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ اس امید کے ساتھ کہ کبھی مستقبل بعید میں، جب شاید ہمارا نام و نشان بھی مٹ چکا ہو، اس کی مڈبھیڑ کسی ایسی خلائی مخلوق سے ہو جائے جس کا ابھی جنم بھی نہ ہوا ہو۔ یہ اس میں سے گولڈن ریکارڈ نکال کر بیتھووون کی پانچویں سمفنونی کو سن لے۔ یہ ہمارا اعلان ہو کہ “ہم بھی کبھی تھے”۔
پچھلی کچھ دہائیوں سے ہمارا مہم جوئی کا سفر ہمیں اس زمین سے باہر لے کر جا چکا ہے۔ ہم کائنات کی نت نئی چیزیں جان رہے ہیں لیکن خلائی مہم جوئی میں ایک اور کشش بھی ہے، جو عام موضوع نہیں بنتی۔ وہ کشش، جو مہم جوئی کی ہمت کرنے والوں کو پہلے بھی ہمیشہ نوازتی رہی ہے۔ دولت اور ڈھیروں ڈھیر دولت۔
ہمارا نظامِ شمسی قدرتی وسائل سے لدا پڑا ہے۔ شہابیے جو سونے اور پلاٹینم اور دوسری معدنیت سے بھرے پڑے ہیں۔ زحل کے کچھ چاند تو مکمل طور پر قدرتی گیس کے گولے ہیں۔ خلائی کان کنی مستقبل کی انڈسٹری ہے۔ مہم جوئی کا یہ باب کامیاب ہونے والے کو خواب و خیال سے بھی زیادہ مالامال کر سکتا ہے۔ اس دولت سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا ملک کونسا ہو سکتا ہے؟ اس حوالے سے لگزمبرگ بڑی اچھی پوزیشن میں ہے۔
مریخی سونا یا زہرہ کے قریب کسی شہابیے کا یورینیم سائنس فکشن لگے لیکن کمرشل خلائی مہم جوئی پہلے ہی حقیقت بن چکی ہے۔ خلائی جہاز سے شہابیے سے معدنیات کھود کر زمین تک لایا جا چکا ہے۔ کئی خلائی ایجنسیاں قیمتی شہابیوں کی نشاندہی کر چکی ہیں۔ ڈیویڈا نام کے صرف ایک شہابئے پر پائی جانے والی معدنیات کی ویلیو 27 ارب ارب ڈالر ہے۔ اگر ان سب کو حاصل کرنے کا سستا طریقہ سمجھ میں آ جائے تو اس کا مطلب سب کے لئے وافر توانائی اور وسائل ہیں۔ لیکن اب یہاں پر ایک سوال؟ اگر آسٹریلیا سے سونا ملے تو اس کو آسٹریلیوی قوانین کے تحت نکالا جائے گا۔ اگر برازیل مین ملے تو برازیلی قوانین کے تحت۔ کسی ملک میں ریگولشن سخت ہے، کہیں پر نرم لیکن ہر ایک کو یہ پتا ہے کہ قوانین کس کے اور کیا ہوں گے لیکن اگر یہ سونا مریخ پر ہو تو؟ کیا اس کو نجی کمپنیاں بھی نکال سکتی ہیں؟ اگر ہاں، تو اگر دو نجی کمپنیوں میں کسی شہابیئے کے حقوق پر جھگڑا ہو جائے؟ کون طے کرے گا اور کیسے طے ہو گا؟
ان مسائل کے بارے میں کسی کو سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی، سوائے ایک ملک کے اور وہ ملک لگزمبرگ ہے۔ یورپ کا وہ چھوٹا سا ملک جس کی آبادی سیالکوٹ سے بھی کم ہے اور فی کس آمدنی کے حساب سے دنیا کے امیر ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ اور یہ اپنی امارت کو خلا میں سرمایہ کاری پر لگا رہا ہ۔ خلائی کان کنی میں اس ملک نے 2016 میں حکومتی سطح پر پہلا قدم لیا۔ قومی خلائی بجٹ میں سے 223 ملین ڈالر خلائی وسائل سے فائدہ اٹھانے کے لئے سرمایہ کاری کے لئے مختص کئے اور سب سے اہم۔ اس کے لئے قانونی فریم ورک پر کام شروع کر دیا۔ (لگزمبرگ اس سے پہلے اسی کی دہائی میں سیٹلائیٹ کے حوالے سے قانون سازی کرنے والے پہلے ممالک میں سے تھا)۔ وزیرِ خزانہ نے اعلان کیا کہ وہ چاند، شہابیوں اور دیگر اجرامِ فلکی سے فائدہ اٹھانے کے لئے قانون سازی کر کے مکمل اور جامع فریم ورک لایا جائے گا۔ اس پر کام کرنے والی دنیا کی دو بڑی کمپنیوں ڈیپ سپیس انڈسٹری اور پلینٹری ریسورسز اب لگزمبرگ حکومت کے ساتھ نومبر 2016 سے کام کر رہی ہیں۔ اور ان اداروں میں اس حکومت نے سرمایہ کاری بھی کی ہے۔ ان اداروں کا ٹارگٹ ہے کہ 2025 تک پانی، آکسیجن، ہائیڈروجن اور قیمتی دھاتوں کو شہابیوں سے حاصل کیا جا سکے۔ لیکن یہ سب ہے کیا اور ساری دنیا میں لگزرمبرگ ہی کیوں؟
خلا میں کچھ بھی بھیجنا بڑا مہنگا کام ہے۔ اس کا پہلا چیلنج یہ ہے کہ اگر پہاڑ تک جا نہیں سکتے تو پہاڑ کو اپنے پاس لے آیا جائے۔ اس کو آسٹرائیڈ کیپچر کہتے ہیں اور 2012 میں کیک انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق یہ کام مستقبل قریب میں قابلِ عمل ہو جائے گا۔ آوارہ شہابئے کو پکڑ کر زمین کے مدار میں داخل کیا جا سکے گا۔ ہزاروں ٹن میٹیرئل زمین اور چاند کے درمیان ہی مل جائے گا اور مشن مختصر ہو جائیں گے اور ریڈی ایشن کی وجہ سے خلابازوں کو نقصان کا امکان کم ہو جائے گا۔ اس وزنی شہابیے کو ہلایا کیسے جائے؟ کرین تو ہے نہیں؟ شہابیے اپنے مدار میں عین ٹھیک جگہ پر پہنچیں تو معمولی سا دھکا ان کا مدار تبدیل کر سکتا ہے اور یہ ریموٹ کنٹرولڈ راکٹ سے کیا جا سکتا ہے۔ (یہ سائنس فکشن نہیں، اس کا طریقہ نیچے دئے گئے پیپر سے دیکھا جا سکتا ہے)
دوسرا چیلنج شہابئے سے میٹیریل واپس زمین تک لے کر آنا ہے۔ سب سے پہلے جاپان نے 2010 میں ایک روبوٹک مشن کے ذریعے ایک شہابیے سے سیمپل لئے ہیں۔ ناسا نے 2016 میں ایک مشن بھیجا ہے جس کے بازو نے اگست 2018 میں سیمپل اکٹھے کئے تھے اور 2023 میں واپس پہنچ جائے گا۔ یہ خلائی کان کنی نہیں لیکن کمرشل طور پر اسے کرنے کی ٹیکنالوجی اسی طرح ٹیسٹ اور ڈویلپ ہو رہی ہے۔ 2014 میں نجی ادارے پلیٹرنری ریسورسز نے اپنا خلائی جہاز بنانے کا اعلان کیا۔ خلا میں کوئی بھی چیز اتنی سادہ نہیں جتنی نظر آتی ہے۔ ہر شہابیے کی اپنی خاصیت ہے، کوئی تیز رفتار سے اپنے مدار کے گرد گھوم رہے ہیں، ہر ایک کی سطح کا سٹرکچر اپنی طرح کا ہے۔ مائیکروگریویٹی اور روٹیشن اپنی مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ اس قسم کے چیلنج ہیں جن کو حل کرنے پر کام ہو رہا ہے۔
یہ سب طویل مدت کی سرمایہ کاری ہے، جس کے نتائج اگرچہ بہت زیادہ منافع بخش ہو سکتے ہیں لیکن جلد حاصل نہیں ہوں گے۔ کسی بھی نجی ادارے کو اس سرمایہ کاری کے تحفظ کے لئے اعتبار والے قانونی فریم ورک کی ضرورت ہے۔ خلا پر عالمی معاہدہ 1967 میں ہوا تھا۔ جس وقت میں اس پر دستخط ہوئے، وہ ایک مختلف دور تھا۔ خلا کی کمرشل اہمیت کی زیادہ پرواہ نہیں تھی۔ سرد جنگ کے اس دور میں خلا کو جنگ کے مقصد کے لئے استعمال نہ کرنے کا وعدہ سب سے لینا ترجیح تھی۔ عالمی معاہدوں پر عملدرآمد کروانے کے لئے کوئی عالمی پولیس تو نہیں اور ان کو توڑا مروڑا جاتا ہے لیکن پھر بھی ہمارے پاس یہی عالمی قانون ہے۔ اس میں ایک شق کے مطابق کسی نجی ادارے کو اپنی خلائی سرگرمیوں کے لئے اس معاہدے میں شریک کسی حکومت سے اجازت اور نگرانی کی ضرورت ہے۔ دنیا میں اس حوالے سے صرف دو ممالک ہیں۔ امریکہ اور لگزمبرگ۔ ان دونوں ممالک نے اس کے لئے قانون سازی کی ہے جو سرمایہ کاروں کو قانونی یقینیت اور تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ امریکہ کے منظور شدہ قانون کے مطابق یہ کام صرف امریکی کمپنیاں کر سکتی ہیں، جن کے دفاتر امریکہ میں ہوں اور مالکان امریکی رہائشی ہوں۔ لگزرمبرگ کے قانون میں ایسی شرائط نہیں۔ اگر کسی آسٹریلوی یا کورین یا کسی بھی اور ادارے کو یہ کام کرنا ہے تو وہ اپنی قانونی برانچ لگزرمبرگ میں کھول کر اجازت لے کر مریخ سے قانونی طور پر سونا نکال سکتا ہے۔ امریکی یہ کام امریکی قانون کے تحت جبکہ تمام دنیا لگزمبرگ کے قوانین کے تحت اس نئی انڈسٹری میں کام کر سکتی ہے۔ نئی تحقیقاتی ادارے اب لگزمبرگ میں کھل رہے ہیں، جن کے ساتھ ملک کر اس ملک کے لوگ بھی کام کر رہے ہیں۔
لگزرمبرگ سپیس انڈسٹری میں اس وقت 30 کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ 700 ملازمین اور 2 ارب یورو کا سالانہ ٹرن اوور۔ عالمی قوانین کیا ہونے چاہیئں پر بحث ہوتی رہے گی۔ لیکن اس وقت دو ممالک (امریکہ اور لگزمبرگ) مستقل کی اس نئی انڈسٹری میں اپنے بزنس دوست ماحول سے نجی اداروں کے لئے راستے کھول رہے ہیں۔
دنیا میں دوسرے ممالک کیوں اس طرح پالیسی بنا کر طویل مدت کے پروگرامز میں نجی سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے؟ اس کے لئے نہ صرف مستقبل کے لئے وژن چاہیے بلکہ بھروسہ حاصل کرنا پڑتا ہے جو طویل مدت کے سیاستی استحکام، پالسیوں میں تسلسل اور وعدوں کی پاسداری کرنے کے ریکارڈ سے آتا ہے۔ لگزمبرگ نے پچھلی صدی کے ریکارڈ سے یہ حاصل کیا ہے۔ اس بھروسے اور مستقبل کے لئے سوچ کی وجہ سے ممکن ہے کہ یہ ننھا سا امیر ملک اس صدی کے دوسرے نصف کی ایک اہم ترین اقتصادی طاقت بن جائے۔