(شمس الرحمٰن فاروقی ۔ پیدائش۳۰ ؍ستمبر ۱۹۳۵ء ، وفات ۲۵ ؍دسمبر۲۰۲۰ء)
’لغات روزمرہ‘ شمس الرحمٰن فاروقی کی ایک مفید کتاب کا عنوان ہے جس پر نگاہ پڑتے ہی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کتاب کے مشمولات الفاظ اور زبان سے متعلق ہیں۔اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن ۲۰۱۱ء میں انجمن ترقی اردو (ہند) دہلی نے شائع کیا جس کے پہلے صفحے پر لکھا ہوا ہے’ اردو زبان میں غیرمعیاری استعمالات کی فہرست و تنقید ، کچھ مزید لسانی نکات کے ساتھ‘۔ گویا کتاب کے اندراجات کو اس نوشتہ کے پیش نظر پڑھا جانا چاہئے۔اس کا انتساب بابائے اردو مولوی عبد الحق کی روح با وضوح کو خراج عقیدت کے طور پر کیا گیا ہے۔اردو قاری کی مزید سہولت کی خاطر خلیق انجم کا اشاعت اول (۲۰۰۳ء)اور اشاعت ثالث(۲۰۱۱ء) پر لکھا گیا پیش لفظ درج ہے جس کی رو سے ’ اردو کی ادبی اور لسانی تہذیب کی خصوصیت رہی ہے کہ یہاں لسان روزمرہ کی درستی، اظہار کی صفائی ، محاورے کی صحت اور بیان کی چستی پر تحریر و تقریر میں مسلسل غور کیا گیا ہے‘ اور فاروقی صاحب کے مطابق ’معیاری زبان کا ایک خیالی تصور ہر ترقی یافتہ زبان میں ہوتا ہے‘ ۔انھوں نے اپنی بیش قیمت تصنیفات و تالیفات کے ذریعہ اردو ادب کے سرمائے میں غیر معمولی اضافہ کے ساتھ ہی اردو زبان کی ابتداء اور ارتقاء پر بھی مفصل گفتگو کی ہے۔’ اردو کا ابتدائی زمانہ‘ میں ہندوی ، ہندی ،ہندوستانی، زبان اردوئے معلی سے ہوتے ہوئے اردو تک کے سفر یعنی رائج زبان اردو کی وجہ تسمیہ پر مدلل اور دلچسپ بحث موجود ہے جس پرپروفیسر شمیم حنفی کے اس قول کا اطلاق صد فی صد ہوتا نظر آتا ہے :
’ شمس الرحمٰن فاروقی کا علم یک رخا نہیں تھا اور وہ اتنی چیزوں سے واقف تھے اور انھوں نے اتنی جہتوں پر اپنے نقوش ثبت کئے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے‘۔
پروفیسر عتیق اللہ کے مطابق ’فاروقی جس صنف کو چھوتے اس سے دوسروں کی تعلیم مقصود ہوتی ‘۔لغات روز مرہ اس کی عمدہ مثال ہے۔فاروقی صاحب کا خاصہ یہ ہے کہ وہ اردو زبان کی آزاد لسانی حیثیت تسلیم کروانا چاہتے تھے۔جس کے لئے وہ ہمیشہ کوشاں رہے۔اردو زبان کے تعلق سے ان کا خیال ہے کہ ۔۔۔ایک دوسرے کی زبان سے الفاظ اور کلمات کے ارتباط و امتزاج کے نتیجے میں وہ صورت پیدا ہوئی کہ جسے ایک نئی زبان کہا جا سکتا ہے ۔اب نہ عربی ، عربی رہی اور نہ فارسی ، فارسی رہی اور اسی پر قیاس کر سکتے ہیں کہ وہ تمام بولیاں بھی جو ہندی زبانوں میں شامل ہیں ، اپنی اصل پر نہ رہیں ، لیکن اس وقت بھی ایک نحو واحد جیسا کہ ہونا چاہئے ، نہ قرار پائی تھی اور زبا ن نے وہ مرتبہ فصاحت نہ حاصل کیا تھا جو اسے اب میسر ہے۔ایک مرتبہ وہ ممنون اور مشکور دو اردو روز مرہ پر گفتگو کر رہے تھے۔ یہ دونوں لفظ عربی قواعد کی رو سے مفعول ہیں مگر اردو میں فاعلی صورت رکھتے ہیں، انھوں نے یہ دونوں لفظ اردو میں جس طرح مستعمل ہیں اسے درست قرار دیا کہ وہ اردو کی روز مرہ میں اب پوری توانائی کے ساتھ جا گزین ہیں۔اب وہ اردو کے الفاظ ہیں نہ کہ عربی کے۔ان کے مطابق ہر قوم اپنے محاورے کو دوسرے کے محاورے پر ترجیح دیتی ہے لہٰذا اردو والوں کو بھی اپنی زبان پر فخر ہونا فطری ہے کیونکہ زندہ قومیں اپنی تہذیب اور اپنی زبان پر فخر و ناز کرتی ہیں۔
کسی بھی زبان کی خوبی یہ ہے کہ وہ معاشرتی ضرورت ہونے کے ساتھ ہی اپنے بولنے والوں کو معاشرے میں تشخیص عطا کرتی ہے ۔زبان دراصل الفاظ کے ذخیرے اور اس کے استعمال سے تشکیل پاتی ہے جو انسان کی ضرورت کے ساتھ اس کی مجبوری بھی ہے ۔جہاں ایک طرف زبان انسانی تعلقات کی اساس ہے وہیں اچھی زبان تعلقات میں استواری اور رنگ آمیزی کا سبب بھی بنتی ہے۔ہم فخریہ کہتے ہیں کہ اردو محض ایک زبان نہیں بلکہ ایک مکمل تہذیب ہے۔اس کا سب سے بڑا مظہر اس کا مخصوص خط ہے جو اس کی نرم شیریں اصوات کو حروف کی شکل میں اپنے دائرے میں سمیٹے ہوئے ہے۔اس حقیقت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی غیر زبان بولنے والا اس کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہو جاتا ہے۔اس ضمن میں ایک واقعہ یاد آ رہا ہے ۔ایک سردار جی نے ایک دن اپنے ایک مسلم ملازم سے پوچھا کہ ناشتے میں کیا کھایا۔انھوں نے بتایا ’نان شبینہ و سیاہ قند‘۔سردار جی کی سمجھ میں بالکل نہ آیا کہ یہ کن اشیائے خوردنی کے نام ہیں البتہ ان الفاظ کی ادایگی نے ان کی سماعت میں شہد کی چاشنی گھول دی۔انھوںنے ازراہ تجسس ان الفاظ کے معنی دریافت کئے۔جواب ملا: حضور! باسی روٹی اور گڑ۔یہ سنتے ہی سردار جی اردو زبان کی چاشنی میں ایسے ڈوبے کہ نہ فقط اردو پڑھنی اور لکھنی سیکھی بلکہ عمدہ شعربھی کہنے لگے۔سچ تو یہ ہے کہ اگر اردو زبان اتنی شیرینی کی حامل نہ ہوتی تو ہم تہذیبی اعتبار سے تہی دامن ہوتے۔ اس کی قوت اظہار و ابلاغ نے ہمیشہ دوسروں کی توجہ اپنی جانب مرکوز کی ہے۔اس عمل میں اس کی نرم اصوات اور خط کلیدی رول ادا کرتے ہیں۔یہی نرم اصوات حرف اور لفظ میں تبدیل ہوتی ہیں۔ پھر سماعت کا حصہ بنتی ہیںاور اپنے ارتقائی مراحل میں تحریری شکل اختیار کرتی ہیں ۔اس کے بعد ادب تخلیق ہوتا ہے جو اس تہذیب کی صورت گری میں معاون ہوتا ہے جس پر ہم فخر کرتے ہیں۔ اردو کا خاصہ یہ بھی ہے کہ مختلف زبانوں کے الفاظ کی آمیزش نے اسے منفرد رنگ عطا کیا ہے ۔ان الفاظ کی حیات ان کے استعمال پر منحصر ہے جب کہ ان کا تخلیقی استعمال اور جمالیات ان کی داخلی توانائی کی مرہون منت ہے۔چونکہ زبان اپنے بولنے والوں کو معاشرے میں تشخیص عطا کرتی ہے اس لئے بولنے والوں پر اس زبان کی صحت اور اس کے معیار کو قائم رکھنے کے لئے کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیںجن کی طرف فاروقی صاحب نے اپنی تحریروں میں جا بجا اشارے کئے ہیں۔مثلاً اردو کا ابتدائی زمانہ میں لکھتے ہیں :
’’۔۔۔ناچار عقلا اور دانا ئوں نے ایک معیاری روزمرہ اور محاورہ متعین کیا ۔اس کے شرائط میں حسب ذیل باتیں شامل تھیں۔۔۔کلمات سنجیدہ و الفاظ پسندیدہ ، ہر زبان اور ہر محاورے سے ، جیسا کہ ہونا چاہئے صحت و درستی کے ساتھ اخذ کئے جائیں، اس طرح کہ اپنی آسانی کے باعث مفید مطلب ہوںاور زبان کے تنافر اور ثقالت سے دور ہوں۔۔۔گفتگو پایۂ فصاحت و بلاغت سے ساقط نہ ہو بلکہ بہت صاف ، مانوس طبع اور ہر شریف آدمی اور معمولی آدمی کے لئے قریب الفہم ہو‘‘۔
اسی ضمن میں خلیق انجم لغات روز مرہ کے پیش لفظ میں فرماتے ہیں :
’’میرا خیال ہے کہ دنیا کی کم زبانیں ایسی ہوں گی جن کے بولنے والے اس قدر خود آگاہ ہوں جو معیاری اور غیر معیاری زبان کے بارے میں بسیط افکار کے خالق و حامل ہوں اور جو اپنی زبان خاص کر ادبی زبان اور روز مرہ کے احتساب میں اس قدر توغل اور انہماک رکھتے ہوں۔۔۔بلاغت، جو زبان کا بنیادی خاصہ اور ضرورت ہے ، یعنی مقتضائے کلام کے لئے مناسب الفاظ کا استعمال ،اسی پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔بے شک نئے استعمالات کا داخلہ کسی بھی زبان کی وسعت اور گیرائی کا ضامن ہوتا ہے، لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ نئے مصطلحات و استعمالات میں اتنی قوت اور صلاحیت ہے بھی کہ نہیں کہ انھیں زبان کی مملکت میں کوئی جگہ مل سکے۔جو نئے مصطلحات ، محاکمے اور استفسار کی کسوٹی پر کھرے اتریں گے ، یا جن میں کوئی انوکھی خصوصیت اور دلربائی ہو گی ، وہ رائج ہو جائیں گے ، دوسروں کو تاریخ کے مزبلے پر بھی جگہ شائد نہ مل سکے۔‘‘
فاروقی صاحب کے مطابق ’’زندہ زبانیں بدلتی رہتی ہیں ۔الفاظ و استعمالات کے رد وقبول کا مسلسل عمل اس تبدیلی اور اس کے باعث زبان کی زندگی کا ضامن ہے۔۔۔زبان جاننے والوںکا فرض ہے کہ وہ نامناسب ، غیر ضروری ، مصنوعی بھونڈے اور لاپروائی و لا علمی کی بناء پر آمد یا اختراع کئے ہوئے الفاط اور مخترعات کی مخالفت کریں۔ لفظ وہی رہ جائے گا جس میں قوت و ماندیت رہے گی، محبوبیت ہو گی۔یہ عمل ہر زبان میں چلتا ہے اور چلتا رہے گا۔۔۔زبان کی ترقی اور مزید قوت مندی کے لئے ضروری ہے کہ نئے لفظ زبان میں داخل ہوں لیکن کس وقت کس زبان میں کیا ہو رہا ہے ،جو تبدیلیاں آ رہی ہیں وہ کس نوعیت کی ہیں۔وہ صحت مند رجحانات کی آوردہ ہیں یا سہل انگاری اور لاعلمی کا نتیجہ ہیں؟ ان سوالوں پر غور کرنا اور نئے پرانے الفاظ و استعمالات کو چھان بین کے عمل سے گذارنا بھی زبان کے سنجیدہ طالب علم کے اہم ترین فرائض میں شامل ہے۔تبدیلی کو آنکھ بند کر کے قبول کرنا یا نئے پرانے لفظوں کو کسی مصنوعی تصور اصلاح یا تصور ارتقاء کے دبائو میں آ کر مسترد کرنا ، یہ دونوں رجحانات ترقی پذیر اور ترقی یافتہ زبانوں کے بولنے والوں کا شیوہ نہیں‘‘۔
یہاں زبان کے تعلق سے دتہ تریہ کیفی کا خیال نقل کرنا ضروری ہے۔فرماتے ہیں :
’’جب کسی زبان میں غیر زبانوں کے الفاظ کو چھان بین کے بغیر قبول کیا جانے لگتا ہے تو اس زبان کی قوت اختراع ختم ہو جاتی ہے‘‘۔
مذکورہ بیانات کے پیش نظر ہم اردو کے ادنیٰ سے طالب علم یہ تو سمجھ ہی گئے کہ اردو کی بنیادی خصوصیت اس کا امتزاجی مزاج ہے مگر اس امتزاج میں احتیاط لازم ہے۔اردو بولنے والوں کے صوتی مخرج میں اتنی لچک ہے کہ وہ دوسری زبانوں کے الفاظ بہ طرز احسن بول سکتے ہیں اور لکھنے کے لئے اس زبان میںمناسب حروف تہجی بھی موجود ہیں۔ لہٰذا اس میں دوسری زبان کے الفاظ کا ضم ّ ہو نا آسان ہو جاتا ہے۔کئی مرتبہ اردو میں ضم ہوئے یہ الفاظ اپنی انفرادیت کھو کر نئے معنی میں ابھرتے ہیں۔لفظ کو اس کے بولنے والے اور تخلیق کار زندگی بخشتے ہیں۔ ان کے ذریعہ استعمال کئے گئے الفاظ فرد اور زبان کی مخصوص تہذیب کی نشاندہی کے ساتھ ہی زبان کے خاندان اور اس کے خطے اور لفظ کے سفرکرنے کی داستان بھی بیان کرتے ہیں۔مثال کے طور پر اس جملے میں استعمال کئے گئے الفاظ : برادر محترم ! میںآپ کی عنایات کا تہہ دل سے مشکور و ممنون ہوں۔فاروقی صاحب اردو میں نرم و شیریں الفاظ کے امتزاج کی حمایت کرتے ہیں ۔وہ تسہیل کے قائل ہیں اور تشدید کی نفی کرتے ہیں۔انھوں نے اردو بولنے والوں کی زبان سے ادا ہوتے گمبھیر ، بھیانک ، سمے، سمودھان جیسے الفاظ پر شدید خفگی کا اظہار کیا اور اردو میں ان کے متبادل بتائے۔لغات روز مرہ میں پہلا لفظ ’آب ‘ ہے اور اس کے مؤنث اور مذکر استعمال کو شعری استدلال کے ساتھ بتایا ہے۔لفظ آبشار پر بحث ڈیڑھ صفحے پر محیط ہے ۔’آ پہنچنا‘ کے استعمال کو خلاف محاورہ اور واجب الترک قرار دیا ہے۔’آتش ‘ کے تلفظ پر طویل بحث کے ساتھ ہی آتش زنی کی جگہ آگ زنی کے استعمال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اردو میں اچھا خاصہ لفظ آتش زنی موجود ہے ۔ہندی والے خدا جانے کہاں سے آگ زنی اٹھا لائے اور افسوس کہ ان کی دیکھا دیکھی اردو والے بھی ’آگ زنی ‘ لکھنے لگے ہیں ۔یہ لفظ غیر ضروری تو ہے ہی ، یہ غلط بھی ہے اور بد صورت بھی۔اسے بالکل ترک ہونا چاہئے۔اسی طرح آج کل خبروں میں استعمال ہونے والے لفظ ’آنر کلنگ ‘ کے لئے آپ کا کہنا ہے کہ اردو میں اسے بے تکلف ’ ناموسی قتل ‘ کہہ سکتے ہیں۔ اخبار ،ٹیلی ویژن اور مشاعرے کے ساتھ کوی سمیلن کے انعقاد اور ہندی کویتا کی تک بندی نے اردو زبان کو نقصان پہنچایا ہے۔ٹائمز آف انڈیا کی مشہور کالم نگار محترمہ کلثوم مصطفی آج کل’ الفاظ ‘نام کی انجمن کے تحت ورکشاپ کے ذریعہ میڈیا سے جڑے لوگوںکی زبان درست کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔انھوں نے ماسٹر شیف پروگرام میں سیاہ زیرے کو بار بار شاہ جیرہ کہے جانے پر اس کا صحیح تلفظ بتایا تو انھیں لوگوں کی خفگی کا سامنا کرنا پڑا۔ان دنوں کچھ گلوکار بھی ’کھاک ہو جائیں گے تم کو کھبر ہونے تک ‘ گا کر غالبؔ کی روح کو مجروح کر رہے ہیں جب کہ وہ ہی لوگ پھر کو’ فر ‘ اور پھول کو ’فول ‘ بول رہے ہیں۔فاروقی صاحب زبان کے سنجیدہ طالب علم کو ایسے موقعوں پر اپنی ذمہ داری نبھانے کی تلقین کرتے ہیں۔
لفظ ’ آویزش ‘ کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ ’ پروفیسر آل احمد سرور مجھ سے ناقل تھے کہ ایک بار سراج لکھنوی مرحوم نے ان سے پوچھا کہ آویزش کو باضافت استعمال کرنا درست ہے کہ نہیں۔سرور صاحب نے کہا کہ درست ہے اور سنداً اقبال کا شعر پڑھا۔سراج لکھنوی مرحوم نے فرمایا کہ اقبال مستند نہیں ہیں۔کسی اہل زبان کا شعر سنائیے۔فاروقی صاحب کا قول ہے کہ اگر اقبال جیسا شاعراسے نئے معنی میں باضافت استعمال کرتا ہے تو اور کسی سند کی ہمیں جستجو کیوں ہو؟وہ کہتے ہیں ’’میں بنیادی طور پر اس تصور کا مخالف ہوں کہ زندہ زبانوں کے معاملے میں کسی ایک شہر ، علاقے یا خطہ ٔ ملک میں رائج قول و عمل تمام لوگوں کے لئے حجت کا حکم رکھتا ہو‘‘۔
لفظ ’ آئینہ ‘ کو ’آئنہ ‘ لکھنے کی سفارش کو رد کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ رسم الخط اور املا کی اپنی تقدیس ہے اور ان کو مجروح کرنا یا ان میں تغیر کرنا اسی طرح غلط ہے جس طرح صرف و نحو میں تغیر کرنا، خواہ وہ کسی وجہ سے ہو۔’ ادب نواز‘ ’اردو نواز‘ ’ ادب پرور ‘ جیسے فقروں کو قبیح اور مربیانہ فقرے گردانتے ہوئے انھیں مکمل طور پر ترک کرنے اور ان کی جگہ ’ ادب دوست ‘ ’اردو دوست‘ جیسے فقرے کے استعمال کی سفارش کرتے ہیں۔لغات روز مرہ پر بحث تقریباً سوا تین سو صفحات پر محیط ہے ۔ آخر میں جوبن جمنا اور اجودھیا جیسے الفاظ پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’ مجموعی طور پر دیکھیں تو سنسکرت سے اردو کا استفادہ انتہائی تخلیقی رہا ہے اور سنسکرت تدبھو الفاظ ہماری زبان کی بڑی شانوں میں سے ایک شان ہیں۔پوری لغات روز مرہ میں انھوں نے تلفظ پر مبسوط گفتگو کی ہے اور اکثر رائج تلفظ کو درست قرار دیا ہے۔مذکورہ چند مثالوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فاروقی صاحب نے کتنی جانفشانی سے اردو زبان میں در آئے غیر معیاری استعمالات پر تنقید کچھ لسانی نکات کے ساتھ کی ہے ۔ان کے مطابق الفاظ معصوم ہوتے ہیںمگر کچھ بد طینت لوگ ان کی معصومیت پر داغ لگاتے ہیں۔اکثر بنیاد پرست اشخاص لفظ کا استحصال کر اس کی حرمت کو مجروح کرتے ہیں۔لغات روز مرہ کے مشمولات کی رو سے ایک ایسی اردو لغت کی شدت سے ضرورت محسوس ہو رہی ہے جس میں الفاظ مع اعراب درج ہوں اور ان کی اصل کے اشارے بھی موجود ہوں کیونکہ جن الفاط کو اردو نے اپنے دامن میں جگہ دی وہ الفاظ لغت میں ابھی تک اپنے مآخذ کے حوالوں سے محروم ہیں۔ اس سے تلفظ کی کشمکش کافی حد تک دور ہو گی ساتھ ہی دوسری زبانوں کے تئیں مثبت رجحان پیدا ہوگا ۔اس لئے ایسی لغت تیار کرنے کی ذمہ داری محبان اردو کو اٹھانی ہی پڑے گی۔
فاروقی صاحب اردو کی زبوں حالی کو لے کر فکر مند رہتے تھے ۔لغات روز مرہ میں اس تعلق سے جگہ جگہ اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں۔انداز بالکل بے باکانہ ہے جیسا کہ ان کی گفتگو کا انداز ہوتا تھا۔ان کے نزدیک اس انحطاط کی دو بڑی وجہیں ہیں ایک تو اردو زبان بولنے والوں کی اپنی زبان سے عدم دلچسپی دوسرے عالمی سطح پر مغربی تہذیب اور انگریزی زبان کا غلبہ۔اسی لئے انھوں نے زبانوں کے زوال اور سقوط کو عالمی وقوعہ قرار دیا۔اس کے باوجود وہ اردو یعنی اپنی مادری زبان سے پیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں کیونکہ مادری زبان ہمارے ابتدائی ابلاغ کا ذریعہ ہے اور اسی میں جذبات کا اظہار بہت شدت سے ہوتا ہے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ آج زبان معاشرے میں انسان کے رتبے کی ضامن بن گئی ہے وہ بھی انگریزی یعنی غیروں کی زبان۔اس کے لئے صد فی صد ہمارا تعلیمی نظام ذمہ دار ہے جو زبان کی مدد سے معاشرے میں ہم آہنگی اور یکسانیت پیدا کرنے کی بجائے لسانی خلیج پیدا کر رہا ہے۔اس سے ذہنی بالیدگی کی جگہ احساس محرومی پیدا ہو رہا ہے۔جب کہ تہذیب و تمدن اور زبان کی ہم آہنگی سے معاشرے میں وہ ذہنی فضا تشکیل پاتی ہے جس سے چھوٹے بڑے تمام طبقے مستفید ہوتے ہیں ۔اس عمل میں تعلیم کلیدی رول ادا کر تے ہوئے ہر طبقے کو یکساں سطح پر لا سکتی ہے مگر آج ملک کی طبقاتی خلیج کا سب سے اہم ذریعہ تعلیم ہی بن گئی ہے جس میں لسانی تفریق پیش پیش ہے۔اس طرح اردو زبان کی بقاء کا مسئلہ سیدھے نظام تعلیم سے جڑا ہوا ہے۔اس کو نقصان پہنچنے سے صدیوں پر محیط تہذیب، نہ جانے کتنے انسانی علوم اور تاریخ کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔فاروقی صاحب اردو زبان کی تنزلی اور اس کی وجوہات کو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے جو انھیں از حد ملول کر رہی تھیں۔لغات روز مرہ اردو زبان کی بقا کے لئے ان کا بیش بہا عطیہ ہے جو اردو کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے والوں کے لئے مشعل راہ ہے۔محبان اردو درج ذیل جملے سے اردو زبان کی تنزلی کو لے کر فاروقی صاحب کی بے بسی اور کرب درون کوبخوبی محسوس کر سکتے ہیں:
’’ اردو زبان کی آزاد لسانی حیثیت جس طرح اور جس حد تک آج معرض خطر میں ہے پہلے کبھی نہ تھی ‘‘
فاروقی صاحب تو اس کرب کو سینے میں سمیٹے ۲۵؍دسمبر ۲۰۲۰ء کو اس دار فنا سے رخصت ہو گئے مگر اردو زبان کی بقا کی ذمہ داری اس زبان سے محبت کرنے والوں کے شانوں پر ڈال گئے ۔آئیے ہم اپنی بے حسی ، کسلمندی اورسہل انگاری سے باہر نکل کر اردو زبان کی چاشنی کو ترشی میں تبدیل ہونے سے بچانے کی کوشش کریں۔