شہر جب آباد ہوتے ہیں تو محلوں کا وجود میں آنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ جب لکھنؤ کی بنیاد پڑی تو اس وقت کتنے اور کون کون سے محلے آباد ہوئے تھے، ان تمام حالات کا جائزہ تو نہیں لیا جا سکتا، البتہ اتنا عرض کرنا ضروری ہے کہ وہ لکھنؤ جو ترقی کر کے علم و ادب اور مکارم اخلاق کا گہوارہ بنا اس کی بنیاد اکبر بادشاہ کے عہد میں پڑی تھی۔ اکبر نے 1590ء میں جب ملک کو بارہ صوبوں میں تقسیم کیا تھا تو صوبہ اور صوبہ دار کا مستقر لکھنؤ ہی میں قرار دیا تھا۔ اسی زمانے میں بجنور کے ایک بزرگ شیخ عبدالرحیم کو لکھنؤ میں جاگیر مرحمت ہوئی اور وہ یہاں آ کر مقیم ہوئے۔ انہوں نے سب سے پہلے لچھمن ٹیلے پر قیام کیا تھا۔ یہ ٹیلہ شاہ پیر محمد مرحوم کے نام کی نسبت حاصل کر چکا تھا۔ اسی زمانے میں کسی وقت لکھنؤ میں شاہ مینا شاہ مرحوم بھی فروکش ہو گئے تھے۔ ان بزرگوں کی موجودگی سے آبادی بڑھی ہو گی اور محلے قائم ہوئے ہوں گے۔ لیکن دونوں بزرگان دین کی اقامت اپنے اپنے مقام پر رہی اور وہ وہیں مدفون ہوئے۔ اس لیے محلوں میں جو نئی وسعتیں ہوئیں ان کے بانی شیخ عبدالرحیم ہی تھے جو ایک بڑی جاگیر کے بھی مالک تھے۔ انہوں نے عمارتیں بھی بنوائیں اور محلے بھی آباد کیے۔ جہاں تک ان کی تعمیر کردہ عمارتوں کا معاملہ ہے، ان کے صرف نام باقی رہ گئے ہیں، مثلاً شیخن محلہ، پنج محلہ، مبارک محلہ وغیرہ۔ ان کا مقبرہ نادان محل کے نام سے موسوم ہوا اور اسی نام کی سڑک پر اب تک واقع ہے۔ ان کا قلعہ مچھی بھون کہلایا۔ جس کا نام زندہ جاوید ہے۔ یہ قلعہ 26 محرابوں پر مشتمل تھا اور ہر محراب میں دو دو مچھلیاں بنی ہوئی تھیں۔ اسی لیے اس کا نام مچھی باون رکھا گیا تھا جو رفتہ رفتہ مچھی بھون میں تبدیل ہو گیا۔ یہ قلعہ فرمانروایانِ اودھ نے بڑے اہتمام سے برقرار ہی نہیں رکھا تھا بلکہ اس میں اضافے بھی کیے تھے۔ یہاں تک کہ اس کو آصف الدولہ کے نام سے نسبت ہو گئی تھی۔ 1857ء کے غدر کی تباہ کاریوں میں یہ قلعہ انگریزوں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہو گیا۔ اتنا مسمار کر دیا گیا تھا کہ بیسویں صدی کے اوائل میں اس کی صورت ایک اونچے ٹیلے کی رہ گئی تھی جہاں سے دن بھر دونوں جانب گردو غبار اڑا کرتا تھا۔ پھر اسی مقام پر میڈیکل کالج تعمیر ہوا اور دونوں جانب بڑی بڑی خوش نما سڑکیں تعمیر ہوئیں۔ لچھمن ٹیلہ کا نام ہی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ مقتدر برہمن بھی آباد تھے۔ اکبر بادشاہ نے ان برہمنوں کو بڑی بڑی مراعات دی تھیں۔ ان لوگوں نے متعدد محلے قائم کیے اور بسائے۔ ان کے نام تھے باجپئی ٹولہ، کٹاری ٹولہ، سوندھی ٹولہ، اہیری ٹولہ اور ینجاری ٹولہ۔ یہ سب محلے چوک کے قریب بسائے گئے تھے۔ قریب قریب اسی زمانہ میں شہزادہ سلیم نے، جو بعد میں جہانگیر بادشاہ کے نام سے مشہور ہوا، مچھی بھون کے مغرب میں ایک منڈی تعمیر کرائی تھی جو مرزا منڈی کہلاتی تھی۔ شیخ عبدالرحیم کے سایۂ عاطفت میں شیخ زادوں نے لکھنؤ آباد کیا۔ اسی زمانے میں بلگرام کے ایک قاضی محمود نائب صوبہ دار مقرر ہو گئے تھے۔ ان کی سرکردگی میں محمود نگر، منصور نگر، فاضل نگر اور شاہ گنج کے محلے بسائے گئے۔ منصور نگر اور شاہ گنج کے علاقوں کے درمیان اکبر بادشاہ کے نام پر موسوم اکبری دروازہ بھی تعمیر ہوا۔ اکبر ہی کے عہد میں اور اسی بادشاہ کی اجازت سے گھوڑے کے ایک فرانسیسی تاجر نے لکھنؤ میں اقامت کی اور چار مکانات اپنے لیے بنوائے۔ جب وہ چلا گیا تو یہ ساری املاک بحق سرکار ضبط ہوئیں اور بالآخر عہد عالم گیر میں ملا نظام الدین کو سکونت کے لیے مرحمت ہوئیں۔ وہ اپنے خاندان سمیت آ کر بس گئے۔ رفتہ رفتہ ملحقہ عمارات شامل ہو کر یہ علاقہ فرنگی محل کے نام سے موسوم ہوا۔ شاہ جہاں کے دور میں ایک رسال دار اشرف علی خاں نامی نے لکھنؤ میں اقامت کی۔ ایک محلہ آباد کیا جو ان کے نام پر اشرف آباد کہلایا۔ ان تمام مندرجہ بالا محلوں کے علاوہ کچھ اور بھی محلے بسائے گئے جن میں اب بھی کچھ اپنے اصلی نام پر موجود ہوں گے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...