ایل ایس ڈی ۔ ۔ ۔او ۔ ۔ ۔ ایل ایس ڈی
( آلڈس ہکسلے کے یوم پیدئش پر ایک نوٹ ۔ ۔ ۔ قیصر نذیر خاورؔ )
وہ اپنے بستر مرگ پر تھا ۔ اس کی آواز کو ساوٗنڈ باکس کے کینسر نے یوں دبوچ رکھا تھا کہ منہ سے ایک لفظ نہ نکل پاتا ۔ وہ کینسر کی بے رحمی سے واقف تھا کہ اس کی پہلی بیوی اسی مرض کے ہاتھوں فوت ہوئی تھی ۔ اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑی نوٹ بک اور پنسل اٹھائی اور اور لکھا؛
" مجھے ایل ایس ڈی سو مائکرو گرام کا انجیکشن لگا دو ۔"
پھر اس نے یہ نوٹ اپنے سرہانے کھڑی بیوی کو تھما دیا ۔ اس نے نوٹ پڑھا اور اسے ایک انجیکشن لگا دیا ۔ کچھ دیر بعد اس نے پھر نوٹ لکھا جس کے الفاظ صرف یہ تھے ؛
" ایک اور ۔"
اس کی دوسری بیوی لورا نے اسے ایک اور انجیکشن لگا دیا اور پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گئی ۔ اسے معلوم تھا کہ اس کا خاوند اب جانے والا ہے ۔
پانچ گھنٹے بھی نہ گزر پائے تھے کہ اس کی روح نے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا ۔ یہ 22 نومبر 1963 ء کا دن تھا ، شہر امریکہ کا لاس اینجلز تھا اور جس کی روح نے جسم کو خیر باد کہا تھا وہ 69 سالہ برطانوی ادیب آلڈس ہکسلے تھا جو 26 جولائی 1894 ء کو گوڈلمنگ ، برطانیہ میں پیدا ہوا تھا ۔
آلڈس ہکسلے وہ ادیب ہے جس نے انگریزی ادب میں ' Point Counter Point ' اور ' Brave New World ' جیسے عمدہ ناول لکھے بلکہ ' The Doors of Perception ' جیسی نان فکشن بھی لکھی جس کے لئے اس نے مختلف ' ڈرگز' کے ذاتی تجربات بھی کئے ۔ اس عمل نے اسے ' پیرا سائیکولوجی ' کی راہ بھی دکھائی ۔ یہی رجحان تھا جس نے انسان دوست ، امن پسند اور عمدہ طنز نگار ہکسلے کو نوبل انعام برائے ادب نہ لینے دیا حالانکہ نوبل انعام کی کمیٹی نے اسے سات سال تک بار بار شارٹ لسٹ کیا تھا ۔
قدرت کی ستم ظریفی مرتے وقت بھی کچھ ایسے آڑے آئی کہ جس روز اس نے یہ جہاں چھوڑا اسی روز امریکی صدر جان ایف کینیڈی بھی قتل اور اس کا ایک آکسفورڈین ساتھی ادیب کلائیو سٹیپل لوئیس آکسفورڈ ، برطانیہ میں فوت ہوا تھا ۔
اس کے آبائی وطن میں لوئیس اور امریکہ میں ملک کے صدر کے سوگ نے اس کے مرنے پر کچھ یوں سایہ کیا کہ جب اسے کومپٹن ، گلڈ فورڈ ، برطانیہ لا کر دفنایا گیا تو جنازے میں چند لوگ ہی شامل تھے ۔
ناول اور نان فکشن کے علاوہ اس نے شاعری بھی کی ، فلموں کے لئے ' Pride and Prejudice ' اور ' Jane Eyre ' جیسے ناولوں کو سکرپٹس کی شکل دی ، بچوں کے لئے ادب لکھا اور ڈرامے بھی تصنیف کئے ۔
26 جولائی 1894 ء کو پیدا ہونے والا یہ برطانوی ادیب گو نوبل انعام حاصل نہ کر سکا لیکن عالمی ادب اس کے بغیر ادھورا رہتا ہے اور اس کے شائقین اس تجربے سے محروم رہتے ہیں جو اس کے ناولوں ، افسانوں اور شاعری میں نفسیات اور ماورائے نفسیات کے حوالے سے ملتا ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔