سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ Low Chill اور High Chill کا مطلب کیا ہے کیونکہ ہمارے بہت سارے کسانوں کو اس کا غلط مطلب بتا کر کنفیوز کیا گیا ہے۔ عام تاثر یہ پیدا کیا گیا ہے کہ لو چل اور ہائی چل میں یہ فرق ہے کہ لو چل میں گرمی برداشت کرنے کی زیادہ صلاحیت ہے اور ہائی چل گرمی برداشت نہیں کر سکتی مگر یہ سراسر غلط بات ہے ان دونوں کا گرمی کی برداشت سے کوئی تعلق نہیں۔ گرمی کا ان دونوں کے ساتھ یا ان کا گرمی کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے وہ ایک جیسا ہے ۔ ان کا تعلق اصل میں سردی سے ہے اور وہ بھی سردی برداشت کرنے کا نہیں بلکہ سردی کے دورانیے کا تعلق ہے کہ کونسی ورائٹی کتنا عرصہ سردی میں گزارے گی ۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ آڑو اور دیگر پودے سردی میں پتے گرا کر نیند میں چلے جاتے ہیں اور گرمی آتے ہی جاگ کر اپنا کام شروع کر دیتے ہیں۔ لو چل کا آسان الفاظ میں یہی مطلب ہے کہ پودا کم عرصہ نیند لینے کا عادی ہے لہذا اسے کم عرصہ کی سردی چاہیے پھر گرمی چاہیے۔ جبکہ ہائی چل کو زیادہ نیند کی ضرورت ہے اس لیے زیادہ عرصہ کی سردی چاہیے تاکہ نیند پوری کر سکے۔
لو چل ورائٹی کو نیند کے لئے 300-400 گھنٹے کی سردی چاہیے جبکہ ہائی چل کو نیند پوری کرنے کے لیے 800-1000 گھنٹے سردی کے چاہیے۔ درجہ حرارت منفی ایک ڈگری سینٹی گریڈ سے نیچے یا 12 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہو تو گھنٹے چلنگ میں شمار نہیں ہوتے جب درجہ حرارت منفی ایک سے اوپر اور 12 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم ہو تو یہ گھنٹے چلنگ میں شمار ہوتے ہیں۔
پاکستان میں آج کل چونکہ ساؤتھ کیلیفورنیا سے امپورٹیڈلو چل ورائیٹیز کا ڈرامہ چل رہا ہے تو وہاں کی بھی بات کرتے ہیں وہاں گرمی کا موسم لمبا ہوتا ہے سردی صرف ایک ماہ مشکل سے آتی ہے وہ بھی اتنی زیادہ نہیں اور نہ وہاں بارشیں ہوتی ہیں بلکہ کیلیفورنیا کا ایک مشہور گانا ہے کہ Its never rain in south California ۔ سردی ایک ماہ ہوتی ہے لہذا وہاں لوچل کے وہ پودے ٹھیک رہتے ہیں جو ایک ماہ 300-400 چلنگ گھنٹوںمیں نیند پوری کر لیں۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہمیں کیا نقصان ہیں کہ ہمارے پودے بھی ایک ماہ میں نیند پوری کر کے جاگ جائیں؟ اس کا ہمیں بہت بڑا نقصان ہے جس کی وضاحت آنے والی لائنوں میں آپ کو معلوم ہو گی بس آگے پڑھتے رہیں۔
اب اگر پنجاب سمیت پورے پاکستان کے مجموعی موسم کا کیلیفورینا کے موسم سے موازنہ کیا جائے تو یہاں پورے پاکستان میں سردی کا دورانیہ کم از کم تین سے چار ماہ کا ہوتا ہے۔ ملتان، مظفر گڑھ سمیت صحرائی علاقوں میں بھی سردی کا موسم تین سے چار ماہ کا ہوتا ہے یا کم از کم تین سے چار ماہ رات کا درجہ حرارت 12 سینٹی گریڈ سے کم ہی رہتا ہے جو ہماری موجودہ ورائٹیز کو درکار 800-1000 چلنک گھنٹوں سے بھی زیادہ چلنگ گھنٹے دیتا ہے۔
اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ ہمارا کیا نقصان ہے ہم لو چل لگائیں اور ایک ماہ میں اس کے 300-400 چلنگ کے گھنٹے پورے ہو جائیں اور وہ جاگ جائے۔ اس میں ہمارا نقصان یہ ہے کہ لو چل کے جب 300-400 چلنگ گھنٹے پورے ہوتے ہیں تو اسے جاگنے کے لیےگرمی چاہیے ہوتی ہے تاکہ وہ پھول اور پتے نکالے ۔کیلیفورنیا میں ایک ماہ سردی کے بعد فورا گرمی آ جاتی ہے جو پودے کو پھول نکالنے کے لیے مطلوبہ ہیٹ دیتی ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں لو چل ورائٹی جاگنے کی کوشش کرے گی جبکہ ہمارا موسم ابھی سرد چل رہا ہوتا ہے جوپودے کو ہیٹ نہیں دے گا اور پودا گرمی شروع ہونے تک سٹریس میں رہے گا جس کی وجہ سے پتوں کا سائز چھوٹا، فروٹ کم اور سائز میں چھوٹا ہوگا۔ اس کے بر عکس ہماری موجودہ ورائٹیز کو چلنگ کے لئے زیادہ گھنٹے چاہیے اس لیے وہ سردیوں کا زیادہ حصہ سو کر پورا کرتے ہیں اور ہمارے موسم کے حساب سے جب پھول نکالنے کے لیے مطلوبہ ہیٹ پیدا ہونا شروع ہوتی ہے تب تک پودے بھی نیند پوری کر چکے ہوتے ہیں اور ان کو فورا ہیٹ مل جاتی ہے جس کی وجہ سے فروٹ بھی تسلی بخش ملتا ہے۔
کیلیفورنیا نے اپنی گیارہ ماہ کی گرمی اور ایک ماہ کی سردی کو دیکھ کر ورائٹی بنائی کیا پاکستان کے کسی بھی علاقے میں گیارہ ماہ گرمی اور ایک ماہ کی سردی ہے؟ اگر نہیں ہے تو پھر اس فلم سے بچیں ، کمرشل باغ لگانا ہے تو سوچ سمجھ کر لو چل گروپ کی باتوں میں آئیے گا۔ نواب ہیں اور فارم ہاؤسسز ہیں اور شوق سے لگانا ہے تو جو مرضی لگائیں مگر کسان ہیں اور باغبان ہیں تو ایک ایکڑ کے مقامی پودے جتنے کے آتے ہیں اتنے پیسوں کے دس پودے لے کر لگنے سے پرہیز کریں اور جن کا کنفرم بھی آپ کو نہیں کہ یہ کیا ہیں کہاں کے ہیں۔ زیادہ شوق ہو رہا ہو تو دو سے تین سال انتظار کر لیں امپورٹیڈ پودے فروخت کرنے والے اور ان ورائٹیز کے باغ نظر آئے تو آپ بھی لگا لیجئے گا ورنہ شکر کیجئے گا کہ آپ بچے رہے۔ تب تک صبر کیجئے۔ مزید کوئی معلومات رکھتا ہو تو ضرور لکھے کمنٹ میں تاکہ مزید تفصیل مل سکے۔