یہ قلم کار اور اس کی عفیفہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ عمر کے اس مرحلے میں خوابیدہ قسمت جاگے گی اور وہ سب کچھ ممکن ہوجائے گا جو طلسماتی داستانوں میں پڑھتے آئے ہیں۔
سب سے پہلے تو بیرون ملک صاحبزادے کو لکھا کہ ہمارے لیے شہر کے بہترین حصے میں ایک عمدہ مکان تلاش کیا جائے۔ اب ہمارا اس کے گھر قیام مناسب نہ ہوگا ، بلکہ زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ وہ اور اس کے بیوی بچے اس محل نما رہائش گاہ میں ہمارے ساتھ ہی رہیں‘ جسے تلاش کرنے کا اشارہ کیا ہے۔ ساتھ ہی نئی گاڑی کا آرڈر دے دے اور ڈرائیور کے لیے بھی متعلقہ کمپنی کو ای میل کردے ۔ ڈرائیور سفید فام ہونا چاہیے۔ بدلے ہوئے حالات میں یہ ہرگز مناسب نہ ہوگا کہ کہیں جانا ہو تو صاحبزادے یا بہو کو لانے لے جانے کی زحمت دیتے پھریں۔
اس کے بعد ایک دوست سے جو لندن کے طول و عرض سے یوں واقف ہے جیسے اپنی ہتھیلی سے‘ رابطہ کیا کہ پراپرٹی خریدنے میں مدد کرے اور اس غرض سے سروے شروع کردے۔ جب اس نے ترجیحی علاقوں کا پوچھا تو بتا دیا کہ جن جن علاقوں میں شریف خاندان کی جائیدادیں ہیں، وہاں بہتر ہوگا۔ چنانچہ پارک لین، مے فیئر، نائٹس برج، کین سنگٹن ، ڈیوک سٹریٹ اور دریائے ٹیمز کے کنارے سروے ہورہا ہے۔ جلد ہی ایک باعزت رہائش گاہ خرید لی جائے گی۔ عین ممکن ہے رحمن ملک صاحب کی جائیداد بھی وہاں سے قریب ہو۔ میں نے اور میری بیوی نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ سٹیٹس کے اعتبار سے ہم ان حضرات کے ہم پلّہ ہوجائیں گے۔
پھر ہم نے اپنے ایک اور پرانے خواب کو حسرتوں کی گرد آلود الماری سے نکالا اور اس پر مدتوں کی جمی ہوئی دھول جھاڑی۔ آرام دہ عالی شان بحری جہازوں کے لگژری کمروں میں بیٹھ کر ملک ملک کی سیر کرنے اور بندر گاہوں میں اتر کر گھومنے پھرنے کو کروز کہتے ہیں۔ جب بھی اشتہار پڑھتے تھے ، قیمتیں پوچھ کر خاموش ہوجاتے تھے اور گفتگو کا موضوع تبدیل کرلیتے تھے ۔ اب یہ خواب حقیقت کا روپ دھار سکتا تھا۔ یوں تو کروز کے بہت سے روٹ ہیں جیسے آسٹریلیا اور مشرق بعید ، جنوبی امریکہ اور بحرالکاہل ، الاسکا کے انتہائی شمالی علاقے لیکن ہم نے یورپ کا انتخاب کیا۔ سیروتفریح کے لیے بحر روم سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔ ہم نے ایک ایسا پیکیج خریدا جو یورپ کے تمام خوبصورت شہروں میں لے جائے گا۔ اس تفریحی سفر کا آغاز ہسپانیہ کے خوبصورت ساحلی شہر بار سلونا سے ہوگا۔ جنوبی فرانس کے خوبصورت شہروں سے ہوتا ہوا تیرہ دنوں اور چودہ راتوں کا یہ کروز اٹلی جائے گا۔ روم، نیپلز اور سسلی کے دلکش شہر پالرمو سے ہوتا ہوا یونان اور کروشیا کے شہروں میں ٹھہرے گا۔ واپسی پر ہم استنبول اتر جائیں گے اور چند ہفتے وہاں قیام کریں گے۔ ’’ میرا سلطان ‘‘ ڈرامہ دیکھنے کے بعد بیگم کئی بار ترکی دیکھنے کی خواہش ظاہر کرچکی ہیں۔
کراچی ، کوئٹہ، پشاور اور لاہور جب بھی جانا ہو، کسی دوست یا عزیز کے ہاں قیام کرنا پڑتا ہے۔ میزبانوں کو زحمت ہوتی ہے۔ ان کے معمولات میں خلل پڑتا ہے۔ یوں بھی، اب جب حالات نے ناقابل یقین طلسماتی پلٹا کھایا ہے تو احباب و اقارب کے ہاں ٹھہرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ان میں سے کچھ تو، ا گرچہ پوش علاقوں میں بڑے بڑے گھروں میں متمکن ہیں، بہرطور اب ہمارے معیار زندگی کو نہیں پہنچ سکتے۔ خواہ مخواہ انہیں شرمندہ کرنے کی ضرورت بھی کیا ! چنانچہ ان شہروں میں اپنے گھر خریدنے کا ارادہ کرلیا ہے۔ کراچی میں بلاول ہائوس کے سامنے اسی سائز اور معیار کا محل بنوایا جائے گا اور اردگرد کی شاہراہیں بھی اسی طرح عام ٹریفک کے لیے بند کردی جائیں گی۔ وہ دن گزر گئے جب زرداری صاحب جیسے ثروت مندوں کے سامنے ہماری حیثیت صفر سے بھی کم تھی۔ اب تو ہم ان کی ٹکرکے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ زرداری صاحب کی جو جائیدادیں برطانیہ ، فرانس ، بلجیم اور امریکہ میں ہیں اور جن کی تفصیلات پریس میں آچکی ہیں ان کے مقابلے کی جاگیریں ہم بھی خرید سکتے ہیں لیکن انسان کو قناعت پسند ہونا چاہیے۔ بے نظیر بھٹو شہید ہی کو دیکھ لیجیے، نیو یارک میں ایک قیمتی اپارٹمنٹ (پینٹ ہائوس) خریدا۔ فروخت کرنے والی خاتون سیما بوئسکی کا خیال تھا کہ اپارٹمنٹ آسیب زدہ تھا۔ کئی خریدار، خریدنے سے پہلے یا بعد میں حادثات کا شکار ہوکر موت کے گھاٹ اتر چکے تھے۔ قدیم چینی تہذیب میں گھروں کو بدشگونی سے بچانے کے علم (یا توہم پرستی ؟) کو فینگ شوئی کہتے ہیں۔ اس سے مراد گھر کے حوالے سے منفی قوتوں کو زیر کرنا اور مثبت قوتوں کو بڑھانا ہے۔ سیما بوئسکی کہتی ہے کہ بے نظیر بھٹو نے اپارٹمنٹ خریدتے وقت کہا …’’ یہاں فینگ شوئی ٹھیک نہیں، یہ میرے لیے بہت اہم ہے۔ چنانچہ میں دروازوں کی جگہ بدل دوں گی‘‘۔ ایک سال بعد بی بی دہشت گردی کا نشانہ بن گئیں۔ دبئی میں بھی بی بی شہید کا محل اربوں روپے کا تھا۔ اس کی تصویریں ہی دیکھ کر آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ اصلی محل کو دیکھ کر تو فرط حیرت سے غش ہی آجاتا ہوگا۔ تاہم ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس اسراف بلکہ تبذیر سے اجتناب کیا جائے۔ لندن اور ایک دو اور مقامات پر بیرون ملک اور بڑے بڑے شہروں میں اندرون ملک معقول رہائش گاہوں کا انتظام کرلیاجائے تو کافی ہے۔ لاہور میں رائے ونڈ کا محل پچیس ہزار کنال پر محیط ہے۔ ہم اس حد تک نہیں جائیں گے۔ دس ہزار کنال کاگھر بھی انسان کے لیے کافی ہوتا ہے۔ زندگی کا اعتبار نہیں۔ موت آئے تو ہاتھ میں پکڑا ہوا نوالہ منہ میں ڈالنے کی مہلت نہیں ملتی۔ حضرت ہود ؑ نے اپنی قوم کو یہی تو وارننگ دی تھی ’’ بھلا تم ہر اونچی جگہ پر یادگار تعمیر کرلیتے ہو اور محلات بناتے ہو یوں جیسے ہمیشہ زندہ رہو گے!!‘‘
ایک عرصہ سے خواہش تھی کہ حالات اجازت دیں تو ذہین مگر نادار طلبہ کو بیرون ملک اعلیٰ تعلیم دلانے کے لیے ایک ٹرسٹ قائم کیاجائے۔ اب ستاروں کی چال موافق ہوئی ہے تو یہ کام بھی کرنے کا ارادہ ہے۔ ٹرسٹ کی بنیاد ایک کروڑ ڈالر سے رکھی جائے گی۔ یہ رقم ہم میاں بیوی عطیہ کریں گے۔ ہم نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ سرکاری تعاون لینے سے شکریہ کے ساتھ معذرت کرلیں گے تاکہ فیصلے میرٹ پر ہوسکیں اور کسی قسم کی مداخلت کا امکان ہی نہ رہے، آغاز میں صرف ہارورڈ، جان ہاپکن، ییل، آکسفورڈ، کیمبرج، لندن سکول آف اکنامکس اور ایڈنبرا کی یونیورسٹیوں میں طلبہ کو بھیجا جائے گا۔ بعد میں جاپان ، فرانس اور جرمنی کے تعلیمی اداروں سے بھی ٹرسٹ کو منسلک کردیاجائے گا۔
قارئین کے تجسس کا مزید امتحان نہ لیتے ہوئے آخر میں یہ بھی بتا ہی دیاجائے کہ اس بے کنار دولت کا منبع کیا ہے۔ ہمیں ایک ادبی یا صحافتی خدمت کے صلہ میں پی ٹی وی سے چیک نمبر682780موصول ہوا ہے۔ پچیس اگست 2014ء کو جاری ہونے والے اس چیک کی اصل مالیت ایک ہزار سات سو پچاس روپے تھی۔ ایک سو پچھتر روپے کا ٹیکس کاٹ کر حکومت کے خزانے میں جمع کرایا گیا۔ آخر وزرائے اعلیٰ نے سیلابی پانی میں کھڑے ہوکر تصویریں بنواتے وقت اونچے کناروں والے بوٹ بھی پہننے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی حکومتی اخراجات کی ادائیگی کے لیے ٹیکس کاٹنا ضروری ہے۔ ٹیکس کاٹنے کے بعد چیک کی مالیت ایک ہزار پانچ سو پچھتر روپے بچی ہے۔ جن پروگراموں کی تفصیل کالم میں بیان کی ہے، ان کے مکمل ہوجانے کے بعد ایم ڈی پی ٹی وی اور وزیر اطلاعات کو بھی کچھ رقم پیش کرنے کی نیت ہے۔ آخر ایسا بھی کیا کہ دن پھریں تو انسان اپنوں کو بھول جائے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“